خوشامدگوئی کرنے والا آدمی منافق کی طرح

خلاصہ: خوشامدگوئی کرنے والے کا ظاہر اور باطن ایک دوسرے کے خلاف ہوتا ہے اور یہ منافقت کی نشانی ہے۔

خوشامدگوئی کرنے والا آدمی منافق کی طرح

   جو شخص منافقت سے کام لیتا ہے، اس کا منافقت کرنے میں کوئی اپنا مفاد ہوتا ہے۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی دو رُخ اختیار کرلے، کسی کے سامنے کچھ اور کسی کے سامنے کچھ اور۔ جو آدمی اپنے مفاد کی خاطر کسی کی خوشامدگوئی کرتا ہے تا کہ اس سے مال یا مقام وغیرہ حاصل کرسکے تو وہ ایک طرح کی منافقت کررہا ہوتا ہے، کیونکہ وہ جو اپنی ہنسی، مسکراہٹ اور نرم زبانی اور خوش مزاجی والا چہرہ سامنے والے شخص کے سامنے ظاہر کرتا ہے، وہ اس کا حقیقی چہرہ نہیں، بلکہ بناوٹی چہرہ ہے جو اس نے اپنے مطلب کے لئے فی الحال اختیار کیا ہے اور جب اس کا مطلب پورا ہوگیا اور وہ دوسرے لوگوں کے سامنے جائے گا جن سے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا تو نہ اس کی کوئی مسکراہٹ ہوگی، نہ نرم زبان اور نہ اچھا اخلاق، بلکہ سخت مزاجی اور تلخ زبانی اور چہرے پر چھایا ہوا غصہ اور تکبر، اس کا حقیقی چہرہ یہی ہے۔
   اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوش مزاج نہیں ہے، بلکہ لالچی ہے، مگر موقع محل کے مطابق اپنے سلوک اور برتاؤکو بدل لیتا ہے اور اپنا فائدہ حاصل کرکے حقیقت میں وہی بدمزاج اور بدسلوک آدمی بن کر رہتا ہے۔
ایسے آدمی کو اپنے اندر چند تبدیلیاں لانی چاہئیں:
   ۱۔ لالچ اور خوشامدگوئی کو چھوڑ دے۔
   ۲۔ بدمزاجی اور بدسلوکی کو بھی چھوڑ دے۔
   ۳۔ سب کے ساتھ خوش مزاجی، نرم زبانی، مسکراہٹ، انکساری اور اچھے کردار کے ساتھ برتاؤکرے۔
   یہاں پر یہ بات غورطلب ہے کہ لالچ اور خوشامد اور بدسلوکی سب غلط کام ہیں۔ لیکن اس آدمی میں جو چیز منافقت اور خوشامدگوئی کی جڑ اُگا رہی ہے وہ اس کی لالچ ہے، اگر وہ لالچ کو چھوڑ دے اور اللہ کے دیئے ہوئے رزق اور عزت پر راضی رہے تو اسے خوشامدگوئی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: حُسْنُ الْخُلْقِ مِنَ الدّينِ وَهُوَ يَزيدُ فِى الرِّزْقِ”، “خوش مزاجی دین میں سے ہے اور وہ رزق کو بڑھاتی ہے”۔ [بحارالانوار، ج۷۸، ص۲۵۷]۔
   جب خوشامدگوئی نہیں کرنا چاہے گا تو منافقت اور اپنے لیے دو چہرے نہیں بنائے گا، بلکہ اس کا ایک ہی چہرہ ہوگا۔
   اور جب خوش مزاج آدمی بن جائے گا تو پھر اپنے اِس اچھے اخلاق کی بنیاد پر سب سے اچھا برتاؤکرے گا، نہ کہ اپنے مفاد کی وجہ سے۔
* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۷۸، ص۲۵۷۔

تبصرے
Loading...