حیا اور بےحیائی کی علامتیں

خلاصہ: حیا اور بے حیائی کی کچھ علامتیں ہیں، روایات کے مطالعہ اور ان میں غور کرنے سے انسان میں حیا اختیار کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور بےحیائی سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔

حیا اور بےحیائی کی علامتیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حیا کی کیفیت اس شخص میں پیدا ہوتی ہے جو کریم النفس اور باعزت ہو، کیونکہ ایسا شخص اپنی قدر کو جانتا ہے اور ہرگز اپنی عزت کو برے اور نازیبا کاموں سے آلودہ نہیں کرتا۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مَن كَرُمَت عَلَيهِ نَفسُهُ ، لَم يُهِنها بِالمَعصِيَةِ، “جس شخص کی نظر میں اپنے نفس کی قدر ہو، وہ گناہ کے ذریعے اسے پَست نہیں کرتا”۔
نیز آپؑ فرماتے ہیں: مَن كَرُمَت عَلَيهِ نَفسُهُ هانَت عَلَيهِ شَهوَتُهُ”، ” جس شخص کی نظر میں اپنے نفس کی قدر ہو، اس کی شہوت (خواہش) بے قدر ہوجاتی ہے”۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مَن كَرُمَت عَلَيه نَفسُهُ هانَت عَلَيهِ الدُّنيا، “” جس شخص کی نظر میں اپنے نفس کی قدر ہو، اس کی نظر میں دنیا پَست ہوجاتی ہے”۔
لہذا جو شخص کرامتِ نفس کا حامل ہو وہ اپنے نفس کو دنیا کی محبت (جو تمام خطاؤں کی جڑ ہے) اور شہوت (جو گناہ کے ارتکاب کاسبب ہے) سے آلودہ نہیں کرتا۔ نیز کریم شخص لوگوں کے سامنے اپنی عزت اور حیثیت کا خیال رکھتا ہے اور اپنی معاشرتی حیثیت کو اہمیت دیتا ہے، اسی لیے نہیں چاہتا کہ لوگوں کے ذہن میں اس کا ناگوار تصور بن جائے۔ انسان کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ اپنی عزت کو آلودہ کرے اور اپنی عزت اور حرمت کو لوگوں کے سامنے بگاڑ دے، لہذا اپنی عزت کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
حیا کی ایک اہم بنیاد اپنی عزت اور حیثیت کی تباہی کا خوف ہے، لیکن گھٹیا آدمی اپنی حیثیت کی کوئی قدر نہیں جانتا، اسی لیے جو کرتا ہے نہ اس کا اسے کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ جو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے، اسے اہمیت دیتا ہے، روایت میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے: “لا يبالى ما قال ولا ما قيل فيه”۔ نیز روایت میں ہے: اللَّئيمُ لا يَستَحيي”، “گھٹیا آدمی حیا نہیں کرتا”۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام)  فرماتے ہیں: سِلاحُ اللِّئامِ قَبيحُ الكَلامِ، “گھٹیا لوگوں کا ہتھیار، بری باتیں ہیں”۔
بنابریں گھٹیا آدمی حیا نہیں کرتا اور بری باتیں کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ]

تبصرے
Loading...