جھوٹ کی مذمت اور اس کے نقصانات

خلاصہ: جھوٹ ایسا برا گناہ ہے جس کا برا اور نقصان دہ ہونا ہر آدمی کے لئے واضح ہے۔

جھوٹ کی مذمت اور اس کے نقصانات

 کبیرہ  میں سے ایک بلکہ سب سے زیادہ برا گناہ جھوٹ ہے۔ جھوٹ گناہوں کی کنجی اور برائیوں کی جڑ ہے، کیونکہ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جُعِلَتِ الخَبائثُ في بَيتٍ و جُعِلَ مِفتاحُهُ الكذبَ، “(سب) برائیوں کو ایک گھر میں رکھا گیا ہے اور اس کی کنجی، جھوٹ کو رکھا گیا ہے”۔ [بحارالانوار،  ج۷۲، ص۲۶۳]

یہ ایسی صفت ہے جو آدمی کو لوگوں کی نظر میں ذلیل و خوار اور بے قدر کردیتی ہے، لوگوں کے درمیان اعتماد کی دیوار کو گرا دیتی ہے، انسان کی شرمساری کا باعث ہے اور لوگوں کے سامنے بے عزت ہونے اور دنیا و آخرت میں برے انجام کا سبب ہے۔
یقیناً جھوٹ کے حرام ہونے اور برے ہونے میں کسی قسم کی بحث و اختلاف نہیں ہے اور شیعہ علماء متفقہ طور پر اور چاروں مآخذ (قرآن، سنّت، عقل اور اجماع) سب اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ جھوٹ حرام ہے۔
جھوٹ چاہے چھوٹا ہو، بری صفت اور منافقت کی علامت ہے۔ مومن کبھی بھی اپنی زبان کو جھوٹ کی عادت نہیں ڈالتا۔
جھوٹا اور کذاب شخص وہ ہے جو جان بوجھ کر مسلسل جھوٹ بولے۔ واضح ہے کہ اگر آدمی غلطی اور لغزش سے، حقیقت کے خلاف بات زبان پر جاری کربیٹھے تو جھوٹا شمار نہیں ہوتا، لہذا غیر عمدی جھوٹ، گناہ نہیں لکھا جاتا، اگرچہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ مشکوک بات کو آگے بتانے سے پرہیز کرے اور اگر مشکوک خبر کے بتانے کی ضرورت ہو تو اسے یقینی انداز میں بیان نہ کرے اور اسے چاہیے کہ شاید اور شک کے ساتھ بیان کرے۔ [ماخوذ از: با اہل بیت علیہم السلام بمانیم، ص۳۶، ۳۷]

* ماخوذ از: با اہل بیت علیہم السلام بمانیم، زجاجی کاشانی، ص۳۶، ۳۷۔
* بحارالانوار،  علامہ مجلسی، ج۷۲، ص۲۶۳۔

تبصرے
Loading...