جھوٹ بولنے کے برے اثرات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     جھوٹ، کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق عمداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا ہے، جھوٹ مختلف وجوہات کی بنا پر کوئی فائدہ پانے یا نقصان سے بچنے کے  لئے بولا جاتا ہے، معاشرے میں اس کو عام طور پر ایک برا فعل مانا جاتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے، اسلام میں اس کی سخت مذمت کی جاتی اور مرنے کے بعد سزا سے خوف دلایا جاتا ہے۔
     لوگوں کے جھوٹ بولنے کی کچھ وجوہات ہیں مثلا جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام کو چھپانے کے لئے بولتے ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کا غلط کام ظاہر ہوگیا اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں ان کی عزت نہیں رہے گی، بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لئے بھی جھوٹ بولتے ہیں، بعض اوقات لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں اِس قسم کے جھوٹ کی لوگوں کو عادت پڑ جاتی ہے اور بے اختیار اِس قسم کا جھوٹ بولا جاتا ہے ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ اور بھی کئی وجوہات کی بنا پر کہا جاتا ہے جتنا سوچتے جائیں اتنا ہی جھوٹ ملتا جائے گا، جھوٹ جس مقصد کے لئے بھی ہو سوائے کچھ موقعوں کے، روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے اس مقالہ میں جھوٹ کے بعض نقصانات کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم سب اس گندی اور بری عادت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں:

جھوٹے شخص پر فرشتوں کی لعنت
     رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: « اِنَّ الْمُوٴْمِنَ اِذَاکَذِبَ بِغَیْرِ عُذْرٍ لَعَنَہ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ وَخَرَجَ مِنْ قِلْبِہ نَتِنُ حتّٰی یَبْلُغَ الْعَرْش وَکَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِتْلِکَ الْکِذْبَةِسَبْعِیْنَ زِنْیَةً اَھْوَنُھَا کَمَنْ زَنیٰ؛ مومن جب بغیر کسی عذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے ہیں اور اس کے دِل سے ایسی سخت بدبو اٹھتی ہے جو عرش تک پہنچتی ہے اور اس ایک جھوٹ کے سبب خدا اس کے لئے ستّر مرتبہ زنا کرنے کے برابر کا گناہ لکھ دیتا ہے اور وہ بھی ایسے زنا جن میں سے معمولی ترین زنا، ماں کے ساتھ (نعوذ بالله)ہو»[۱]۔

جھوٹ  شراب سے بدتر
     امام محمد باقر(علیہ السلام) کا ارشاد ہے: «اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ لِشَرِّ اَقْفَالاً وَجَعَلَ مَفَاتِیْحِ تِلک َالاَقْفَال الشَرَابُ، وَالْکِذْبُ شَرُّ مِّنَ الشَّرابِ؛ بیشک خدا نے تمام برائیوں کے کچھ نہ کچھ تالے بنائے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بدتر ہے»[۲]۔

جھوٹ بولنے والا سب سے بڑا گنہگار
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: «مِنْ اَعْظَمِ الْخَطَیَا اَللَّسَّانُ الْکذُوْبُ؛ سب سے بڑا گنہگار جھوٹا شخص ہے»[۳]۔

جھوٹ ہلاکت کا سبب
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں : « اِجْتَنِبُوا لْکِذْبُ وَاِنْ رَأَیْتُمْ فِیْہِ النَّجَاةَ فَاِنَّ فِیْہِ الْھَلَکَةَ؛ جھوٹ سے پرہیز کرو، اگرچہ تمھیں اس میں نجات نظر آرہی ہو، در حقیقت اس میں ہلاکت ہوتی ہے»[۴]۔

جھوٹے شخص سے دوستی نہ کرنا
     حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « یَنبَغیْ لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ اَنْ یَّجْتَنِبَ مُوٴَاخَاةَ الْکَذَّابِ اِنَّہ یُکَدَّبُ حَتَّی یَجِیْ َ بِا لصِّدْقِ فَلَا یُصَدَّقُ؛ ہر مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت جھوٹے آدمی کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ نہ باندھے اس لئے کے جھوٹے سے دوستی کرنے والے شخص کو بھی جھوٹا سمجھا جائے گا اگرچہ وہ سچ بات بھی کہیگا تو سچ نہیں مانا جائے گا»[۵]۔

جھوٹے شخص سے بچو
     
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « لَا یَحَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ الْکِذْبُ جِدَّہ وَھَزْلَہ؛ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کا ذائقہ چکھ نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پرہیز نہ کرے، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں ہو »[۶]۔

نتیجہ:
     رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت ابوذر سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: “اے ابوذر جو شخص کسی جگہ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ایک جھوٹی بات کہے گا تو وہی جھوٹی بات اس کو جہنّم کی طرف لے جائے گی، اے ابوذر! وائے ہو اس پر جو بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو تاکہ لوگوں کو ہنسا سکے وائے ہو اس پر وائے ہواس پر! اے ابوذر! جو خاموش رہا نجات پا گیا۔ پس جھوٹ بولنے کی بنسبت خاموشی تمھارا فریضہ ہے اور تمھارے منہ سے کبھی بھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں نکلنا چاہیئے۔
حضرت ابوذر کہتے ہیں: یا رسول الله! جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والے شخص کی توبہ کس طرح ہوگی؟
حضرت نے فرمایا: استغفار اور پانچوں وقت باقاعدہ نماز کے ذریعہ اس کی توبہ قبول ہوجائیگی۔[۷]
     خدا ہم سب کو اس گناہ سے محفوظ رکھے۔
………………………….
حوالے:
[۱]  حسین بن محمد تقی نوری، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسہ آل البیت(علیہم السلام)، قم،ج۹، ص۸۶، ۱۴۰۸۔
[۲] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ، ج۶۹، ص۲۳۷، ۱۴۰۳ق.
[۳] گذشتہ حوالہ، ج۷۴، ص۱۳۳۔
[۴] مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، ج۲، ص۱۲۱۔
[۵] محمد  ابن یعقوب کلینی، الکافی، دارالکتاب الاسلامیہ، تھران، ج۲، ص۳۴۱، ۱۴۰۷۔
[۶] گذشتہ حوالہ، ج۲ ،ص۵۸۔
[۷] بحار الانوار،  ج۷۴، ص۸۹۔

تبصرے
Loading...