تقوا کا دوسرے نیک صفات سے باہمی تعلق

خلاصہ: اس مضمون میں تقوا کے معنی و مفہوم اور مصادیق کا مختصر تعارف بیان کیا جارہا ہے۔

تقوا کا دوسرے نیک صفات سے باہمی تعلق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تقوا کا مطلب کَفُّ النفس اور اپنے اوپر قابو پانا ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: التَّقوَى اجتِنابٌ”، “تقوا پرہیز ہے”۔ [غررالحكم ودررالكلم ، ح 188] لہذا آپؑ کا ہی ارشاد گرامی ہے: “المُتَّقي مَنِ اتَّقَى الذُّنوبَ”، “متّقی وہ ہے جو گناہوں سے پرہیز کرے۔ [غررالحكم ودررالكلم ، ح 1871]۔ ایک اور حدیث میں آپؑ نے تقوا کے نتیجہ کو شہوت (نفسانی خواہش) پر قابو پانا بتایا ہے، آپؑ کا ارشاد ہے: مَن مَلَكَ شَهوَتَهُ كانَ تَقِيّاً”، “جو شخص اپنی شہوت (نفسانی خواہش) پر قابو پالے وہ متّقی ہے”۔ [غررالحكم ودررالكلم ، ح 8284]۔
مذکورہ احادیث میں تقوا کے بارے میں”اجتناب”، “وقایہ” اور “تملّکِ نفس” جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان الفاظ کا “نفس پر قابو پانے” سے گہرا تعلق ہے۔ یہ مفہوم”تقوا” کی روح کو بناتا ہے جس کی تمام مکتوب تعلیمات میں جستجو کی جاسکتی ہے۔ اس نتیجہ کے مطابق تقوا ایسا عام مفہوم ہے جو سب قابو پانے والے اسباب کو شامل ہوتا ہے، لیکن کسی ایک کے عین مطابق نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں: تقوا سب روکنے والے اور قابو پانے کے اسباب سے انتزاعی (ماخوذہ) عنوان ہے۔ مختلف اسباب پائے جاتے ہیں کہ ہر ایک سبب، کسی طرح روک کر انسان کے نفس کو قابو میں رکھتا ہے، ان اسباب کے مجموعہ کو “اپنے اوپر قابو پانا” کہا جاتا ہے جو دینی الفاظ میں “تقوا” کہلاتا ہے۔
صبر، حلم (بردباری)، کظم غیظ (غصہ کو پی جانا)، خوف اور حیا، اِس عام عنوان (یعنی تقوا) کے زمرہ جات میں ہیں، لہذا تقوا جب جامہ عمل پہننا چاہے تو اپنے زمرہ جات عناوین میں سے کسی ایک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ، ص۳۳]

 

تبصرے
Loading...