بد سلوکی کے نقصان دہ نتائج

خلاصہ: بدسلوکی کرنے والے کو پہلے خود نقصان ہوتا ہے، پھر ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو بھی نقصان ہو۔

بد سلوکی کے نقصان دہ نتائج

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “مَن ساءَ خُلقُهُ عَذّبَ نَفْسَهُ”، “جس کا اخلاق بُرا ہو وہ اپنے آپ کو عذاب دیتا ہے”۔ [بحارالانوار، ج۷۳، ص۲۹۸]
کتنے لڑائی جھگڑے بداخلاقی کی وجہ سے پیش آتے ہیں اور کتنے فتنہ اور فساد بدسلوکی کی وجہ سے بھڑک اٹھتے ہیں۔ جو آدمی لوگوں سے بدسلوکی کرتا ہے، اس کا پہلا اور زیادہ نقصان خود اسی کو ہی ہوتا ہے، اگر سامنے والے آدمی کو کوئی نقصان ہو تو اس کے بعد ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے برا سلوک کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے دوسرے آدمی کی توہین کرلی، اسے ڈانٹ کر خاموش کردیا اور اس پر غالب ہوگیا، لیکن یہ اس کی غلط فہمی ہے، حقیقت میں اس کی قوتِ غضب اس کی عقل پر غالب ہوچکی ہے اور وہ اپنی عقل کے ذریعے اپنے غصہ پر غالب نہیں ہوا۔ کمال تو یہ ہے کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے اپنے غصے پر غالب ہوجائے اور اسے روک لے۔
جو آدمی بدسلوکی کرتا ہے پہلے اس کا اپنا مزاج خراب ہوتا ہے، اس کے بعد دوسرے آدمی کے مزاج کو متاثر یا خراب کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو نقصان دوسرے آدمی کو پہنچاتا ہے پہلے ویسا نقصان اپنے آپ کو پہنچاتا ہے۔
جب آدمی کسی سے بدسلوکی کرتا ہے تو اپنے برے مزاج کا اظہار کرکے اپنا باطن ظاہر کررہا ہے، وہ اپنے اس برتاؤ کے ذریعے اپنی اس بری عادت کو مزید مضبوط کررہا ہے، کیونکہ جب آدمی کسی اچھے یا برے کام کو کئی بار کرے تو رفتہ رفتہ اس کی عادت بن جاتی ہے، جب عادت بن گئی تو عادت کو چھوڑنا مشکل کام ہوجاتا ہے، لہذا جو آدمی برا سلوک کرے اس نے اپنی اس عادت کو مزید مضبوط کرلیا ہے اور اس عادت سے دستبردار ہونے کو اپنے لیے زیادہ مشکل کرلیا ہے۔

* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۷۳، ص۲۹۸۔

تبصرے
Loading...