امتحانِ الٰہی، مقصد خلقت

خلاصہ: انسان زندگی کے مسائل کی کھینچ تان میں سمجھتا ہے کہ انہی مسائل کو حل کرنا اور سکون سے زندگی بسر کرنا مقصدِ حیات ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موت اور حیات کو خلق ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ کون بہترین عمل بجالاتا ہے۔

امتحانِ الٰہی، مقصد خلقت

      انسان کوئی چھوٹی سی چیز ایجاد کرے یا ترقی یافتہ، اسے مقصد کے بغیر ایجاد نہیں کرتا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو خلق کیا ہے، اسی انسان کو جو اشرف المخلوقات ہے اور بڑی سے بڑی توانائیوں کا حامل ہے، اس کی خلقت میں کوئی مقصد ضرور ہونا چاہیے۔
سورہ ملک کی دوسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ”، “جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے”۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلق کیا، اسے علم اور طاقت دی ہے تا کہ عمل صالح بجالائے اور الٰہی امتحانات میں کامیاب ہو کر اعلیٰ درجات تک پہنچے۔
امتحان کے میدان میں دنیاپرست لوگوں کی نفسانی خواہشات اور مال و دولت کی محبت کھل کر سامنے آسکتی ہیں، حکومت کے پیاسوں کی حقیقت بے نقاب ہوسکتی ہے، شہوت پرست لوگوں کی عیاشی کی پست خصلت واضح ہوسکتی ہے، ظالموں کی درندگی، حیوانیت اور سفاکانہ صفات منظرعام پر آسکتی ہیں، ادھر سے مومن، دیندار، مہذب، عادل، عابد، زاہد اور مخلص افراد کی ملکوتی صفات نکھر کر پروان چڑھ سکتی ہیں۔
اس آیت کے متعلق چند نکات غور طلب ہیں:
۱۔ موت و حیات کو امتحان لینے کے لئے خلق کیا گیا ہے۔
۲۔ امتحان “اکثر عملاً” کا نہیں ہے، بلکہ “احسن عملاً” یعنی بہترین عمل کا امتحان ہے۔
۳۔ عمل کے صرف اچھے ہونے کو نہ دیکھا جائے، بلکہ بہترین عمل کو بجالائے، یعنی حَسَن عمل کافی نہیں، بلکہ احسن عمل ہونا چاہیے، تب مقصد خلقت پورا ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: امتحان عامل تکامل، حسین شفائی]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]

تبصرے
Loading...