امانت؛خیانت سے بچیں

احکام اسلامی میں سے ایک حکم امانت داری ہے کیونکہ ایک مضبوط و سالم معاشرہ کے لئے بنیادی طور پر باہمی اعتماد کا ہونا لازم و ضروری ہے اسی لئے صرف اسی معاشرے کو خوشبخت و سعادت مند سمجھنا چاہئے جس کے افراد کے درمیان مکمل رشتہ اتحاد و اطمینان پایا جاتا ہو ،لیکن اگر معاشرے کے افراد اپنے عمومی فرائض کی سرحدوں کو پار کر لیں اور دوسروں کے حقوق کے ساتھ خیانت کرنے لگیں تو وہیں سے معاشرے کے زوال کی ابتدا ہونے لگتی ہے۔

امانت

چونکہ اسلام میں امانتداری کی بہت زیادہ اہمیت ہے اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خاص توجہ تھی اور آپ نے عملاً اس کا مظاہرہ اس طرح سے فرمایا کہ آپ کا لقب ہی ”امین“ پڑ گیا حتی کہ مشرکین و کفار بھی آپ پر اعتماد کرتے تھے اور آپ کو امین جانتے تھے۔جس کے بہت سے نمونے ہمیں تاریخ میں ملتے ہیں ،سات ہجری میں جب پیغمبر۶۱ جانثاروں کے ساتھ خیبر کو فتح کرنے کے لئے روانہ ہوئے توآپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں تک کہ غذا کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ جانور جنکا کھانا مکروہ ہے ان سے بھی آپ کے جانثاروں کو استفادہ کرنا پڑرہاتھا اسی دوران ایک یہودی چرواہا جو کہ یہودیوں کی بھیڑوں(گوسفند) کو چراتا تھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا اس کے ہمراہ بہت سی بھیڑیں بھی تھیں جنکو اس نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں پیش کیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس مشکل وقت میں کہ جس میں غذا کی شدید کمی تھی کمال صراحت سے انکار کردیا اور اس سے فرمایا کہ یہ بھیڑیں تمہارے پاس دوسروں کی امانت ہیں اور میرے دین میں امانت میں خیانت جائز نہیں ہے تمہارے لئے ضروری ہے کہ ان گوسفندوں کو ان کے مالکان تک پلٹاﺅ اور اس نے ایسا ہی کیا۔
پیغمبر اکرم کے اس عمل سے یہ صاف ظاہر ہے کہ انسان چاہے جتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو اسے امانت میں خیانت کا حق حاصل نہیں ہے چاہے وہ مال جو اس کے نزدیک ہے وہ کسی غیر مسلم ہی کا کیوں نہ ہو۔جیساکہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے کہ:تین چیزیں ایسی ہیں کہ خداوند عالم نے کسی کو بھی ان سے مخالفت کی اجازت نہیں دی ہے: (۱) ادائے امانت ہر شخص کے بارے میں چاہے وہ نیکو کار ہو یا بدکار۔(۲) عہد وپیمان کی وفا چاہے وہ بدکار ہو یا نیکو کار۔(۳) والدین کے ساتھ نیکی چاہے وہ کافرہوں یا مسلم ،نیکوکار ہوں یا بدکار۔ (بحار،ج۲۷،ص۲۹)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے آج کے معاشرہ میں جو فساد و انحراف پایا جاتا ہے اس کی مختلف علتیں ہیں ۔لیکن جب ہم ان علل و اسباب کو تلاش کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ معنوی افلاس ،اخلاق کی پستی،روحانی کمزوری ،ہمارے معاشرے میں پیدا ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس درماندگی اور بدبختی کی سب سے بڑی علت لوگوں کے افکار و عقول اور تمام شعبہ ھای حیات پر خیانت کا غالب ہو جانا ہے ۔یہ بات بدیہی ہے کہ عمومی رفاہت اور فکری سکون صرف امن عامہ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور آجکل لوگوں کے اندر جو اضطراب اور فقدان امن عامہ کا عمومی وجود ہے اس کی علت صرف معاشرہ میں خیانت کا پھوٹ پڑنا ہے۔

تبصرے
Loading...