۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

۲۔ یقین اعمال کی اہمیت میں اضافہ کا ذریعہ

۲۔ یقین  اعمال  کی  اہمیت  میں  اضافہ  کا  ذریعہ

اگر کیمیا اور اکسیر کو کسی کم قیمت مادہ کے ساتھ بھی بنائیں تو یہ اس کو با ارزش اور قیمتی و دھات میں تبدیل کردیتا ہے اور اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، یقین بھی اسی طرح ہے،کیونکہ یقین اعمال کو   ارزش عطا کرتا ہے۔اگر قلیل عمل کو یقین کے ساتھ انجام دیا جائے تو خدا کے نزدیک اس کی ارزش شک و شبہ  میں انجام دیئے گئے بہت زیادہ عمل سے زیادہ ہے۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں:

”اِنَّ العَمَلَ الدَّائِمَ القَلِیلَ عَلی الیَقِینِ اَفضَلُ عِندَاللہِ مِن العَمَلِ الکَثِیرِ عَلی غَیرِ الیَقِینِ” ([1])

خدا کے نزدیک یقین کے ساتھ انجام دیا گیا کم اور دائمی عمل یقین کے بغیر انجام دیے گئے زیادہ عمل سے  بہتر ہے۔

یہ فرمان واضح دلالت کرتا ہے کہ یقین اعمال وکردارکی اہمیت میں اضافہ کا باعث  ہے،یعنی یقین کے ساتھ انجام دیا گیاکم عمل،یقین کے بغیر انجام دیئے گئے زیادہ عمل سے افضل ہے۔اس بناء پر یقین اس کیمیاگری کے اس مادہ کے مانند ہے،کہ جو کم قیمت دھات کو سونے میں تبدیل کرتاہے۔ یقین بھی اسی طرح کیونکہ اس میں یہ قدرت ہے کہ یہ قلیل عمل کو یقین کے ساتھ انجام سے ارزش و قیمت عطا کرتا ہے۔

متوجہ رہیں کہ بہت سے موارد میں خدا کے نزدیک اہمیت رکھنے والے کم عمل کے ظاہراً بھی بہت سے آثار و اثرات ہوتے ہیں،اب ہم جو  واقعہ بیان کرنے لگے ہیں وہ اس حقیقت کا شاہد ہے۔

مرحوم آیةاللہ العظمیٰ خوئی  یقین سے کہی جانے والی (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)کے بارے میں شیخ احمد (یہ استادالفقہاء مرحوم میرزاشیرازی کے خادم تھے)سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ مرحوم میرزا کے ایک اور خادم بھی تھے جن کا نام شیخ محمد تھا کہ جو مرحوم میرزا کی وفات کے بعد لوگوں سے نہ ملتے اور گوشہ نشین ہوگئے تھے۔

ایک دن کوئی شخص شیخ محمد کے پاس گیا تھا اور اس نے دیکھا کہ وہ غروب آفتاب کے وقت اپنے چراغ میں پانی ڈال کر روشن کر رہے ہیں اور چراغ بھی مکمل طورپر روشن ہے۔وہ شخص بہت حیران ہوا اور اس کی علت پوچھی ؟شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا مرحوم میرزا کی وفات سے مجھے بہت صدمہہوا اور ان بزرگوار کی جدائی کے غم کی وجہ سے میں نے لوگوں کے ساتھ میل جول قطع کردیا اور اپناوقت گھر میں ہی بسر کرتا، میں بہت ہی غمزدہ تھا ۔ایک دن عرب طلّاب کی صورت کا ایک جوان میرے پاس آیا اور میرے ساتھ بہت پیار ،محبت اور انس سے پیش آیا وہ غروب تک میرے پاس رہا ،اس کی باتیں مجھے بہت پسند آئیں اور میرے دل کا کچھ بوجھ اور غم ہلکا ہوگیا،وہ چنددن تک میرے پاس آتا رہا اور میں اس سے مانوس ہوگیا تھا۔ایک دن وہ میرے ساتھ باتیں کررہا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ آج رات میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔ اس وقت دکانیں غروب کے وقت بند ہوجاتی تھیں۔اسی وجہ سے میں یہ سوچ رہا تھا اگر میں ان سے اجازت لے کر تیل لینے کے لئے گھر سے نکلوں تو ان کی پُر فیض باتوں سے محروم ہوجاؤں گا اور اگر تیل نہ خریدوں تو آج رات تاریکی میں بسر کرنی پڑے گی۔

وہ میری اس حالت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میری باتوں کو دلچسپی سے نہیں سن رہے؟میں نے کہا نہیں ایسی بات نہیں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔انہوں نے فرمایا نہیں تم میری باتوں سے نہیں سن رہے۔میں نے کہا حقیقت یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے۔انہوں نے فرمایا بہت تعجب ہے کہ میں نے تمہارے لئے اتنی احادیث بیان کی اور(بسم اللہ الرحمن الرحیم) کی فضیلت بیان کی ،کیا تم ان سے اتنا بھی مستفید نہیں ہوئے کہ تم تیل کی خریداری سے بے نیاز ہوجاؤ؟میں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائی ہو؟ انہوں نے فرمایا تم بھول گئے ہو میں نے بتایا تھا کہ( بسم اللہ الرحمن الرحیم) کے خواص و فوائد میں سے یہ ہے کہ اگر تم اسے کسی قصد سے کہو تو وہ مقصد حاصل ہوجائے گا۔تم اپنے چراغ کو اس قصد کے ساتھ پانی سے بھردو کہ پانی تیل کی خاصیت رکھتاہو ،تم(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)کہو میں نے قبول کیا اور اٹھ کر اسی قصد سے اپنے چراغ کو پانی سے بھر دیا اور اس وقت کہا(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) پھر میں نے اسے جلایا تو وہ روشن ہوگیا۔اس وقت سے آج تک جب بھی یہ خالی ہوجائے تو اسے پانی سے بھرکر (بسم اللہ۔۔۔۔) پڑھتا ہوں تو چراغ روشن ہوجاتا ہے۔

مرحوم آیةاللہ العظمٰی خوئی اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کیعام ہوجانے کے بعد مرحوم شیخ محمد کے اس عمل میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا۔

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ اعتقاد و یقین کے ساتھ ایک (بسم اللہ۔۔۔)پڑھی جائے تو اس قدر غیر معمولی اثرات ظاہر ہوتے ہیں ،جو اسمِ اعظم کی معرفت رکھتے ہیں وہ بھی دوسرے لوگوں میں رائج اور متداول اسم سے ہی استفادہ کرتے ہیںلیکن جو چیز ان کے عمل کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ ان کا یقین ہے کہ جو تلفظ کئے جانے والے اسم کی تاثیر میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔

 


[1] ۔ الکافی :ج۲ص۵۷

 

 

 

تبصرے
Loading...