گناہ سے پرہیز امراض سے بچنے کا طریقہ کار

خلاصہ: عموماً جب لوگ کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں تو صرف اس کے علاج کے لئے کوشش کرتے ہیں، علاج کرنا چاہیے، لیکن اس بات پر بھی توجہ ہونی چاہیے کہ گناہ بھی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔

گناہ سے پرہیز امراض سے بچنے کا طریقہ کار

انسان مرض کے خطرے سے کتنے مسائل کا خیال رکھتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کھانے پینے میں غور کرے، ایسی چیز نہ کھائے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوجائے اور ایسی چیز نہ پیئے جس کے سبب کسی مرض کا شکار ہوجائے۔ اسی لیے انسان مختلف چیزوں کو استعمال کرنے اور مختلف کام کرتے ہوئے توجہ کرتا ہے کہ کیا اسے یہ چیز استعمال کرنی چاہیے یا نہیں، کیا یہ کام اس کے لئے نقصان دہ ہے یا نہیں۔ مگر مرض کے یہ اسباب کیونکہ ظاہری اور مادی ہیں تو انسان خاص طور پر خیال رکھتا ہے اور پرہیز کرتا ہے تاکہ اس کی بیماری کے اسباب فراہم نہ ہونے پائیں، اس لیے کہ اگر وہ اسباب فراہم ہوگئے تو اسے بیماری میں مبتلا ہو کر تکلیف برداشت کرنی پڑے گی تو اس وقت اس خوراک یا ان چیزوں کی لذت تو گزر گئی، صرف یہی تکلیف رہ گئی جو اپنی غفلت، لاپراہی اور نفسانی خواہش کا نتیجہ ہے جسے برداشت کرنا پڑے گا۔
خوراک میں خیال نہ رکھنے اور بیماری میں مبتلا ہونے کے درمیان جو باہمی تعلق پایا جاتا ہے وہ دیکھے جانے والے اور محسوس اسباب کے سلسلہ کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے اور انسان ایک سبب کا دوسرے سبب سے تعلق اور دوسرے کا تیسرے سبب سے تعلق کو دیکھ سکتا ہے یا اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے یقین کرلیتا ہے کہ واقعی اس بیماری کا سبب وہی چیز ہے جو میں نے حد سے زیادہ کھائی، یا بے وقت کھائی، یا مجھے بالکل نہیں کھانی چاہیے تھی۔
اسی طرح گناہ ایسی چیز ہے جو انسان کی جسمانی تکلیف کا باعث بن سکتا ہے، مگر کیونکہ بیماری اور جسمانی تکلیف کا گناہ سے تعلق اور ان کے درمیان جو اسباب کا سلسلہ پایا جاتا ہے، اسے انسان نہیں دیکھتا اور نہ ظاہری طور پر اس کا ادراک کرسکتا ہے تو یقین نہیں کرتا کہ گناہ بھی نقصان دہ خوراک کی طرح، کم سے کم اسی دنیا میں میرے جسم کے لئے نقصان دہ ہے اور گناہ کی وجہ سے میں کسی مصیبت اور تکلیف کا شکار ہوجاؤں گا، لہذا اس گناہ سے پرہیز کروں۔
جناب ابوذر غفاری (علیہ الرحمہ) نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: “ما اختَلَجَ عِرقٌ و لا عَثَرَت قَدَمٌ إلاّ بما قَدَّمَت أيديكُم، و ما يَعفُو اللّه ُ عَنهُ أكثَرُ”، “کوئی رگ (بیماری سے) نہیں تڑپتی اور کوئی پاؤں نہیں پھسلتا مگر اس (گناہ) کی وجہ سے جو تم نے اپنے ہاتھوں سے آگے بھیج دیا ہے، اور اللہ جو (گناہ) اس سے معاف کرتا ہے، وہ (اس سے) زیادہ ہیں”۔ [بحارالانوار، ج۸۱، ص۱۹۴]

* بحارالانوار، علامہ مجلسی، موسسۃ الوفاء، ج۸۱، ص۱۹۴۔

تبصرے
Loading...