گناہ، رزق و روزی کے کم ہوجانے کا باعث

خلاصہ: گناہ کے مختلف نقصانات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ گناہ رزق و روزی کے کم ہوجانے کا باعث بنتا ہے۔

گناہ، رزق و روزی کے کم ہوجانے کا باعث

گناہ ، رزق و روزی کے کم ہوجانے کا باعث بنتا ہے۔سورہ طہ کی آیت ۱۲۴ میں ارشاد الٰہی ہے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ”، “اور جو کوئی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کے لئے تنگ زندگی ہوگی۔ اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے”۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “اِحْذَرُوا الذُّنُوبَ فَإِنَّ الْعَبْدَ لَیَذْنِبُ فَیُحْبَسُ عَنْهُ الرِّزْقَ”، “گناہوں سے بچو، کیونکہ بندہ گناہ کرتا ہے تو اس سے رزق روک لیا جاتا ہے”۔ [الخصال، ص۶۲۰]
حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: الِاسْتِغْفَارُ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ”، “اِستغفار رزق کو بڑھاتا ہے”۔ [الخصال، ص۵۰۵]
یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر گناہ روزی کے کم ہونے اور نعمت کے زوال کا باعث بنتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ بعض گنہگار لوگ عیش و عشرت میں زندگی گزارتے ہیں اور ان کے پاس بہت ساری سہولیات ہوتی ہیں اور ان کا گناہ ان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتا۔
جواب یہ ہے کہ بعض اوقات گنہگاروں کے لئے نعمت، استدراج کے طور پر ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کو بہت نعمت اور مال دیتا ہے، لیکن بالآخر ان سے وہ نعمتیں لے لیتا ہے اور وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
جو کافر اور گنہگار سرکشی اور گناہ سے نہیں رکتے اور ہدایت اور نصیحت کا ان پر اثر نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ سنّت استدراج کی بنیاد پر ان کو مہلت دیتا ہے کہ مزید گناہ کرلیں تاکہ ابدی اور ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوجائیں۔ اللہ کی اس سنّت کے مطابق بعض اوقات ان گنہگاروں کو ظاہری نعمتیں اور بہت مال دیا جاتا ہے اور مسلسل اسے بڑھایا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ یہ بن جائے کہ یہ سہولیات، سکون اور لذت پسندی، ان کی لیاقت کی وجہ سے بڑھ گئی ہے، جبکہ اللہ اس ذریعے سے انہیں گناہ اور غفلت میں غرق کردیتا ہے تا کہ وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھاری کردیں اور بالآخر سخت اور ذلت آمیز عذاب میں مبتلا ہوجائیں۔ سورہ آل عمران کی آیت ۱۷۸ میں ارشاد الٰہی ہے: وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ”، “اور کافر یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں (ان کی رسی دراز رکھتے ہیں) یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے یہ ڈھیل تو ہم صرف اس لئے انہیں دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ گناہ کر لیں۔ (آخرکار) ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
* الخصال، شیخ صدوق، ص۶۲۰۔ ص۵۰۵۔

تبصرے
Loading...