کربلا  اور محمد بن حنفیہ

جو افراد امام حسین {ع} کے پیروکار تھے، لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر آپ {ع} کی رکاب میں شہادت کی توفیق حاصل نہ کرسکے ان کے بارے میں یکساں طور پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

کربلا  اور محمد بن حنفیہ

کربلا کی تحریک میں محمد بن حنیفہ نے امام حسین{ع}  کی مدد کیوں نہیں کی؟ یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے، اس کا جواب واضح ہونے کے لئے اس مسئلہ پر چند زاویوں سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے:
۱-ایک نظریہ کے مطابق وہ امام {ع} کی ہجرت کے وقت بیمار تھے، ان کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں اختلاف ہے- [محمد بن الحنفیہ، ص 109- 112]
۲-دوسرا نظریہ قابل قبول اور زیادہ منطقی ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں اپنی عدم موجودگی کے دوران ایک اہم ذمہ داری سونپی تھی، اس نظریہ کے بارے میں چند شواہد موجود ہیں:
الف}علامہ مجلسی اور علامہ محسن امین کہتے ہیں: امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے مامور کیا تھا- جب حضرت امام حسین {ع} اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ہوئے، اپنے بھائی کو مدینہ میں ایک جاسوس کے عنوان سے رکھا تاکہ مدینہ میں دشمن کی ہر نقل و حرکت اور اقدام سے امام {ع} کو آگاہ کرتے رہیں:
” آپ مدینہ میں میری آنکھ ہیں اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں مجھے کسی چیز سے بے خبر نہ رکھنا-“[ بحار الانوار، ج ۴۴، ص 329]
یہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو ایک اہم ذمہ داری سونپی تھی- قدرتی بات ہے کہ امام {ع}، اسلامی علاقوں کے ایک اہم شہر یعنی مدینہ منورہ میں کسی کو مامور فرماتے تاکہ وہاں کے حالات سے بے خبر نہ رہیں-
ب} دوسرا شاہد: محمد حنیفہ کے نام امام {ع} کا آخری خط ہے- مورخین کہتے ہیں: امام {ع} نے جو آخری خط تحریر کیا ہے، وہ آپ {ع} کے بھائی محمد حنیفہ کے نام تھا- ابن قولویہ امام باقر{ع} سے یوں نقل کرتے ہیں: امام حسین {ع} نے کربلا سے محمد بن حنیفہ کو لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے محمد بن علی کے نام، اما بعد، گویا، دنیا نہیں ہے اور آخرت ہرگز نا بود ہونے والی نہیں ہے-[ کامل الزیارات، ص 75]
اس لئے، اگر امام حسین {ع} اپنے بھائی کے کربلا کی تحریک میں شرکت نہ کرنے پر ناراض ہوتے، تو وہ ہرگز آخری خط انھیں نہ لکھتے-
منابع:
محمد بن الحنفیة، ص 109- 112، به نقل از شیخ جعفر، النقدی، السیدة زینب الکبرى، ص 9، چنان که مهنا بن سنان عن رجال علامة لاهیجی، ص 119 نسخه خطی، میں نقل کیا ہے-
مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج ۴۴، ص 329، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ھ ؛ امین، سید محسن، أعیان الشیعة، ج 1، ص 588، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
قمی، ابن قولویه، کامل الزیارات، ص 75، انتشارات مرتضویة، نجف، 1356ھ .

تبصرے
Loading...