ولآيت ِ طاغوت اور ولآيت ِ شيطان

آيت قرآني سے يہ نتيجہ سامنے تا ہے کہ}قرآني اصطلاحات{ مَلا‘ مترف‘ احبار اور رہبان کے مقابل طاغوت ان سے بالا تر مقام ہے ۔يہ ايک عليحدہ موضوع ہے‘ في الحال ہميں اس پر گفتگو نہيں کرني۔لہٰذا جو کوئي بھي خدا کي ولآيت سے خارج ہوا ہے‘ وہ لازماً طاغوت اور شيطان کي ولآيت ميں داخل ہوا ہے ۔
ليکن شيطان اور طاغوت کے درميان کيا باہمي نسبت ہے ؟
ان کے درميان پائي جانے والي وابستگي نسبت سے بڑھ کر ہے۔ شيطان طاغوت اور طاغوت شيطان ہے۔ جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے :
اَلَّذِيْنَ ٰامَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اِ( اہلِ ايمان راہِ خدا ميں جہاد کرتے ہيں)
وَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ(اور کفار طاغوت کي راہ ميںلڑتے ہيں ہے )
اسکے بعد فرماتا ہے :
فَقَاتِلُوْآ اَوْلِيَآئَ الشَّيْطٰنِ اِنَّ کَيْدَ الشَّيْطٰنِ کَانَ ضَعِيْفًا( لہٰذا تم شيطان کے ساتھيوں سے جہاد کرو‘ بے شک شيطان کا مکروفريب بہت کمزورہوتاہے۔سورہ نسا٤ ۔آيت ٧٦)
اس آيت ميں ہم ديکھتے ہيں کہ شيطان کي جگہ طاغوت اور طاغوت کي جگہ شيطان کا نام ليا گيا ہے ۔پس شيطان بھي ايک ايسا عنصر ہے جودمي کو اسکے وجود کے باہرسے شرارت ميز اور فساد انگيز کاموں ‘ انحطاط ‘ تسليم ‘ ذلت ‘ ظلم ‘ بدي اورگمراہي پر ابھارتا ہے ۔
شياطينِ انس بھي ہيں اورشياطينِ جن بھي پائے جاتے ہيں ۔ايسے شياطين بھي ہيں جو عزيز رشتے داروں ‘ بيويوں اور باؤاجداد سے تعلق رکھتے ہيں ۔ شيطان کا ايک مصداق اور نمونہ ابليس ہے ‘جس نے دم صفوۃا کے خلاف پرچم بلند کيا‘اور وہ باتيں کيںجن کا ذکر ہم سنا کرتے ہيں۔ ہم اورپ اپني پوري عمر جس شيطان کو لعنت کرتے ہيں ‘وہ يہي بيچارہ اوّلين شيطان ہے ‘جبکہ شيطان صرف وہي نہيں ہے ۔شايد وہ پہلا اور خري شيطان نہ ہو ۔دنيا ميں بہت سے شياطين ہيں جو محسوس بھي کئے جاسکتے ہيں ‘ ہاتھوں سے بھي‘ نکھوں سے بھي اور کبھي کبھي يہ انسان کے معاصر بھي ہوتے ہيں ۔مجموعي طور پر ولآيت ِ الٰہي کے سوا ہر ولآيت شيطاني اور طاغوتي ولآيت ہے ۔
ايک ايسا شخص جو حقيقي ولي کي حاکمآيت ميں زندگي بسر نہيںکرتا ‘اسے يہ بات پتا ہوني چاہئے کہ پھر وہ طاغوت اور شيطان کي حاکمآيت ميں زندگي گزار رہا ہے ۔
ممکن ہے پ پوچھيں کہ شيطان اور طاغوت کي حاکمآيت ميں زندگي بسر کرنے اور اسکے احکام وفرامين پر سر جھکادينے ميں کيا خرابي ہے ؟
يہ بھي آيت ميں پيشِ نظر نکات ميں سے ايک نکتہ ہے ۔قرآن مجيد اس بارے ميں ہميں چند جواب دآيتا ہے ۔پہلا جواب يہ ہے کہ اگر پ نے شيطان کي ولآيت قبول کي‘ تو شيطان پ کے وجود ميں پائي جانے والي تمام تعميري‘ تخليقي اور مفيد قوتوں پر مسلط ہوجائے گا ۔اگر پ نے شوق ورغبت کے ساتھ شيطان اور طاغوت کي حاکمآيت کا طوق اپنے گلے ميں پہن ليا‘تو پھر پ اس سے نجات حاصل نہ کر سکيںگے ‘ چاہے پ کے وجود ميں کتني ہي تعميري اور تخليقي قوتيںاور صلاحآيتيںپائي جاتي ہوں۔ پ پرطاغوت اور شيطان قابض ہوجائے گا‘اور جب پ کا پورا وجود اسکے قبضے ميں چلا جائيگا‘ تو وہ پ کو اس راستے پر جس پر وہ چاہتا ہے ‘ اور اس وسيلے سے جو اسے پسند ہے کھينچے لئے جائے گا ۔ اور ظاہر ہے کہ شيطان اور طاغوت انسان کي رہنمائي نور‘ معرفت ‘ سائش‘ رفاہ اور معنوآيت کي جانب نہيں کرے گا ۔اسکے لئے يہ چيزيں ہدف اور مقصد کي حيثآيت نہيں رکھتيں۔ بلکہ شيطان اور طاغوت کے لئے اس کے شخصي اور ذاتي مفادات اوّلين ہدف اور مقصد ہيں ‘ اور وہ ان کا حصول چاہتاہے ۔پس وہ پ کواپنے ذاتي مفادات کے لئے استعمال کرے گا ۔
اگر پ ہمارے عرض کئے ہوئے اِن چندجملوں پرغور کريں ‘ تو ديکھيں گے کہ ان تمام جملوں کے بين السطور ميں ايک مفہوم پوشيدہ ہے جس کي تاريخي حقائق سے تصديق ہوتي ہے ۔
اگر پ نے طاغوت کي ولآيت قبول کرلي‘تو پ کي تمام قوتيں اورتخليقي صلاحآيتيں طاغوت کے قبضے ميںچلي جائيں گي ‘ اور اس صورت ميں پھروہ پ کے کسي کام کي نہيں رہيں گي۔ شيطان کے پيشِ نظر خود اسکي اپني ذات اوراپنے مفادات ہوتے ہيں۔اگر پ اسکي راہ پر چل پڑے‘ تو وہ پ کو اپنے فوائد اور مفادات کي بھينٹ چڑھا دے گا ‘اور گمراہي کي طرف کھينچ لے جائے گا ۔قدرت و طاقت اسکے اختيار ميں ہے اور کيونکہ پ نے اپنے پ کو اسکے سپرد کر ديا ہوگا ‘ لہٰذا وہ اپني مرضي اور خواہش کے مطابق پ کو لئے پھرے گا ۔

حلقہ اي درگرد نم افکندہ ’’دوست‘‘
مي کشد ہر جاکہ خاطر خواہ اوست(١)
سورہ نساکي درجِ ذيل آيت انتہائي قابلِ توجہ اور غور وفکر کے لائق ہے :
’’وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُداٰاي وَ آيتبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُْمِنِيْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰي۔‘‘(2)
جو کوئي بھي راہِ حق واضح ہونے کے بعد ‘ رسولِ خدا کي مخالفت کرے گا ‘ پيغمبر سے جدا ہوگااور اپني راہ کو راہِ نبوت (وہي راہ جس کے بارے ميں ہم نے پہلے پ کو بتايا ہے ) سے جدا کرے گا اور مومنين اور اسلامي معاشرے اور ايماني مقاصد سے ہٹ کر کوئي اور راہ اختيار کرے گا‘ وہ اپنے پ کو مسلمانوں کے گروہ سے عليحدہ کرلے گا ۔ پھرہم اُسي طوق کو جسے خود اُس نے اپني گردن ميں ڈالا ہے‘اُسکي گردن ميںاور مضبوط کرديں گے ۔وہي ولآيت جسے اس نے خود اپنے
ہاتھوں قبول کيا ہے ‘ اور جس حلقے ميں وہ خود اپنے قدموں سے چل کر گيا ہے ‘ اور جسے اُس نے اپنا مسکن بنايا ہے ‘ ہم اسے وہيں پھنسا ديں گے ۔ کيونکہ يہ قرآن :اِنَّ اَ لااَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۔(3)کے مطابق تم نے اپني لگام شيطان کے ہاتھ ميں دے دي ہے ‘ پس اس لگام کو شيطان ہي کے ہاتھ ميں رہنے دو ‘ يہ خدا کي سنت ہے ‘يا قانونِ خلقت ہے ۔
اس آيت ميں يہاں تک اِس دنيا سے متعلق تھا‘ گے چل کرآيت اُس دنيا(خرت) کے بارے ميں کہتي ہے کہ:
وَنُصْلِہ جَہَنَّمَ وَ سَآئَتْ مَصِيْرًا۔ (4)
يہاں سے وہ سيدھا دوزخ ميں جائے گا اور پروردگار کے قہر اور خدا کے دائمي عذاب کا مزا چکھے گا ۔
جب انسان تاريخ پر نظر دوڑاتا ہے ‘ تو ديکھتا ہے کہ با لکل ايسا ہي ہے ۔يہ بات بہت اہم اور انتہائي اہم ترين اجتماعي مسائل ميں سے ہے ۔ان مسائل پر قرآن کے نکتہ نظرکے بارے ميں ہمارا کام بہت کم ہے‘ اورہم نے انہيں تاريخِ اسلام سے بہت کم منطبق کيا ہے۔ کتنا اچھا ہو اگر قرآن کريم سے شغف رکھنے والے اور اجتماعي مسائل اور خصوصاً قرآن کے تاريخي مسائل ميں غور و فکر کرنے والے افراد ان مسائل ميں زيادہ سے زيادہ غور وخوض کريں اور اُنہيں تاريخي حقائق پر منطبق کريں ۔
اس آيت کي تفسير واضح کرنے کي غرض سے ‘ ج ہم پ کے سامنے کچھ تاريخ بيان کرنا چاہتے ہيں۔
١۔’’دوست‘‘نے ميري گردن ميں ايک طوق ڈال ديا ہے‘اور جہاں اُس کا دل چاہتا ہے مجھے گھسيٹے پھرتا ہے۔

٢۔سورہ نسائئ٤۔ آيت
3۔اورخدا کسي قوم کے حالات کو اُس وقت تک نہيں بدلتا جب تک وہ خود اپنے پ کو نہ بدل لے۔(سورہ رعد١٣۔آيت١١)
4۔اور اسے جہنم ميں جھونک ديں گے جو بدترين ٹھکانہ ہے۔(سورہ نسا٤۔آيت١١٥)

تبصرے
Loading...