واقعہ کربلا کے دورانیہ میں امام حسین (علیہ السلام) کا تعارف اپنی زبانی

حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے واقعہ کربلا کے سلسلے میں مختلف مقامات پر اپنا تعارف فرمایا، جن سے دشمن پر حجت تمام کرنا واضح ہوتا ہے، کیونکہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) وہ عظیم بلند رتبہ شخصیت ہیں جنہیں ہر مسلمان جانتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے دوران، امام حسین (علیہ السلام) کا بچپن اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنحضرت سے محبت اور آب وحی میں دھلی ہوئی زبان سے بیان کردہ فضائل و کمالات کو سب جانتے تھے۔ نیز حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے دور خلافت میں ہونے والی جنگوں میں جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) نے، حیدر کرار کی زیرنگرانی شجاعانہ اور بہادرانہ کردار ادا کیا، اسے لوگ پہچان چکے تھے۔ لوگ یہ بھی روز روشن کی طرح جانتے تھے کہ حسن و حسین (علیہما السلام) رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو بیٹے اور نواسے تھے، ان میں سے ایک تو شہید کردیئے گئے، اب صرف دوسرے زندہ ہیں۔ نیز آپؑ کی ساری زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے رہے کہ لوگ آپؑ کے حضور میں شرفیاب ہوکر اپنی مشکلات اور ضروریات بتاتے تو آپؑ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے ان کی ضروریات پوری کرتے اور لوگ آپؑ کی کرم نوازی سے اپنا دامن بھر کر جاتے اور دوسرے لوگوں تک بھی یہ بات پہنچ جاتی، لہذا امام حسین (علیہ السلام) کے کمالات اور فضائل سے سب مسلمان روشناس تھے، لیکن جب دنیا نے ان کو دھوکہ دے دیا اور وہ نصرت امامؑ کے بجائے، قتل امامؑ پر تُل گئے تو آنحضرتؑ نے ان کو اپنا تعارف اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی نسبت اور قرابتداری کی یاددہانی کرائی، جن میں سے بعض فقروں کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے، نیز پہلے دو ان فقروں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو آنحضرتؑ نے اپنا تعارف رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر فرماتے ہوئے آپؐ سے شکوہ کیا:

۱۔  حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے جب مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی کا ارادہ کیا تو رات کے وقت اپنے جد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، مندرجہ ذیل فقرے آپؑ کے اس ارادہ کے بعد پہلی زیارت کے فقرے ہیں، آپؑ نے عرض کیا:
السَّلامُ عَلَيكَ يا رَسولَ اللّه ِ ، أنَا الحُسَينُ ابنُ فاطِمَةَ ، أنَا فَرخُكَ وَابنُ فَرخَتِكَ ، وسِبطُكَ فِي الخَلَفِ الَّذي خَلَفتَ عَلى اُمَّتِكَ ، فَاشهَد عَلَيهِم يا نَبِيَّ اللّه ِ أنَّهُم قَد خَذَلوني وضَيَّعوني وأنَّهُم لَم يَحفَظوني ، وهذا شَكوايَ إلَيكَ حَتّى ألقاكَ ، صَلَّى اللّه ُ عَلَيكَ وَسلَّمَ“.[1]
سلام ہو آپ پر یا رسول اللہ! میں حسین، فاطمہؑ کا بیٹا ہوں، میں آپؐ کا بیٹا اور آپؐ کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور آپؐ کا نواسہ ہوں جسے آپؐ نے اپنی امت میں چھوڑا۔ اے اللہ کے نبی! ان پر گواہ رہیں کہ انہوں نے مجھے خوار کیا اور برباد کردیا اور میرا احترام نہیں رکھا، یہ میرا آپؐ سے شکوہ ہے جب تک آپؐ سے ملاقات کروں۔ اللہ کا درود و سلام ہو آپؐ پر۔
پھر حضرت امام حسین (علیہ السلام) نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلسل رکوع و سجدہ میں مصروف رہے اور آپؑ صبح کے وقت گھر واپس تشریف لائے۔

۲۔ جب دوسری رات ہوئی تو آپؑ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: اللّهُمَّ إنَّ هذا قَبرُ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ وأنَا ابنُ بِنتِ مُحَمَّدٍ ، وقَد حَضَرَني مِنَ الأَمرِ ما قَد عَلِمتَ ، اللّهُمَّ وإنّي اُحِبُّ المَعروفَ وأكرَهُ المُنكَرَ ، وأنَا أسأَ لُكَ يا ذا الجَلالِ وَالإِكرامِ بِحقِّ هذَا القَبرِ ومَن فيهِ مَا اختَرتَ مِن أمري هذا ما هُوَ لَكَ رِضىً“۔[2]
“بارالہا! بیشک یہ تیرے نبی محمدؐ کی قبر ہے اور میں محمدؐ کی بیٹی کا بیٹا ہوں اور میرے لیے واقعہ پیش آیا ہے جسے تو جانتا ہے۔ بارالہا! یقیناً میں نیکی (معروف) سے محبت کرتا ہوں اور برائی (مُنکر) سے بیزار ہوں، اور میں تجھ سے طلبگار ہوں اے ذوالجلال والاکرام اس قبر کی حرمت سے اور جو اس میں (دفن) ہے کہ اس واقعہ میں جو تیری رضامندی ہے میرے لئے وقوع پذیر فرما”۔

۳۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) جب “بیضہ” کے مقام پر پہنچے، وہاں پر آپؑ نے اپنے اصحاب اور حُر کے لشکر کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا، جس کے کچھ فقروں کے بعد اپنا تعارف اس طرح کروایا: ” … فَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه و آله، نَفْسي مَعَ أَنْفُسِكُمْ، وَ أَهْلي مَعَ أَهْليكُمْ، فَلَكُمْ فِىَّ أُسْوَةٌ“[3]، “میں حسین، علی کا بیٹا ہوں اور رسول اللہ کی بیٹی فاطمہ کا بیٹا ہوں، میں تمہارے ساتھ اور میرا خاندان تمہارے خاندان کے ساتھ ہے، تو تمہارے لیے مجھ میں نمونہ عمل ہے”۔

۴۔ “فَانسُبوني فَانظُروا مَن أنَا ، ثُمَّ ارجِعوا إلى أنفُسِكُم وعاتِبوها ، فَانظُروا هَل يَحِلُّ لَكُم قَتلي وَانتِهاكُ حُرمَتي ؟ ألَستُ ابنَ بِنتِ نَبِيِّكُم صلى الله عليه و آله وَابنَ وَصِيِّهِ وَابنِ عَمِّهِ ، وأوَّلِ المُؤمِنينَ بِاللّه ِ وَالمُصَدِّقِ لِرَسولِهِ بِما جاءَ بِهِ مِن عِندِ رَبِّهِ ؟ أوَلَيسَ حَمزَةُ سَيِّدُ الشُّهَداءِ عَمَّ أبي ؟ أوَلَيسَ جَعفَرٌ الشَّهيدُ الطَّيّارُ ذُو الجَناحَينِ عَمّي ؟ أوَلَم يَبلُغكُم قَولٌ مُستَفيضٌ فيكُم : إنَّ رَسولَ اللّه ِ صلى الله عليه و آله قالَ لي ولِأَخي : «هذانِ سَيِّدا شَبابِ أهِلِ الجَنَّةِ؟“[4]، “میرے نسب کو بیان کرو اور غور کرو کہ میں کون ہوں، پھر اپنے دلوں کی طرف رجوع کرو اور انہیں ملامت کرو، پھر غور کرو کہ کیا میرا قتل کرنا اور میری حرمت کو پامال کرنا، تمہارے لیے جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں اور آنحضرتؐ کے وصی کا بیٹا نہیں ہوں اور آنحضرتؐ کے چچازاد بھائی اور اللہ پر ایمان لانے والے پہلے شخص اور اسکے رسولؐ کی، اس بارے میں جو وہ اپنے رب کی طرف سے لائے ہیں، پہلے تصدیق کرنے والے شخص کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا حمزہ سید الشہدا میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟ کیا شہید اور دو پنکھ سے (جنت میں) پرواز کرنے والے جعفر میرے چچا نہیں ہیں؟ کیا یہ مکرر روایت تم تک نہیں پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا: یہ دو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟”۔

۵۔ خوارزمی نے مقتل میں لکھا ہے کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) آگے بڑھے یہاں تک کہ دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور ان کی سیلاب جیسی فراوان صفوں کی طرف دیکھا، اور آپؑ ابن سعد کی طرف جو کوفہ کے بڑوں کے درمیان کھڑا تھا، دیکھا اور فرمایا: …”أفَتَشُكّونَ أنِّي ابنُ بِنتِ نَبِيِّكُم ، فَوَاللّهِ، ما بَينَ المَشرِقَينِ وَالمَغرِبَينِ ابنُ بِنتِ نَبِيٍّ غَيري“[5]،”کیا تم (لوگوں) کو شک ہے کہ میں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا بیٹا ہوں؟ اللہ کی قسم! مشرق و مغرب کے درمیان پیغمبرؐ کی بیٹی کا میرے علاوہ کوئی بیٹا نہیں ہے”۔
نتیجہ: مذکورہ فقروں میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے نسب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی قرابتداری پر تاکید کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا تاکہ وہ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام کی وجہ سے ہی اپنے آپ کو قتل امامؑ سے بچا لیں، مگر ان کے ضمیر اتنی حیوانیت کی پستی میں گر چکے تھے کہ اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا بھی انہیں ضروری محسوس نہیں ہورہا تھا، تو ایسی جاہلیت میں غرق ہونے والے درندوں پر نہ قرآن ناطق کے ارشادات کا کوئی اثر تھا اور نہ قرآن صامت کی ہدایات کا، جس کی وجہ سے نہ انہیں امامت کی کوئی پرواہ تھی، نہ نبوت کی، نہ توحید اور عدل الہی کی اور نہ ہی قیامت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحار الأنوار : ج 44 ص 327 .
[2] بحار الأنوار : ج 44 ص 327 .
[3] تاريخ طبرى، ج 4، ص 304؛ كامل ابن اثير، ج 4، ص 48 و فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 144- 145.
[4] تاريخ الطبري : ج 5 ص 424 ، الكامل في التاريخ : ج 2 ص 561 ، البداية والنهاية : ج 8 ص 178 ؛ الإرشاد : ج 2 ص 97۔
[5] مثيرالأحزان : ص51 وكشف الغمة : ج2 ص225 وص 267 والمناقب لابن شهرآشوب : ج 4 ص 100 .

تبصرے
Loading...