مسئلہ قیامت اور مسئلہ رو ح کا با ہمی رابطہ

زندہ مو جود ا ت کی وحد ت کا معیا ر۔

تمام حیوا نو ں کی طر ح انسان کا بد ن بھی زند ہ اور متحر ک اجزا ء اور عناصر کا ایک مجمو عہ ہے کہ جس میں سے ہر ایک عنصر مسلسل تبدیلی و تغیر کا شکار ہے، اور اس کا یہ اندا ز پیدا ئش کے وقت سے لیکر زندگی کے خا تمہ تک بدلتا نہیں ہے یا یہ کہ ان عناصر اور اجزاء کی تعدا د ہمیشہ ایک حالت پر باقی ہے ۔

اس تبد یلی اور تغیرا ت کو دیکھتے ہو ئے جو حیو انا ت بلکہ خا ص طو رسے انسانوں کے بدن میں جا ری ہے یہ سوال پید ا ہو تا ہے کہ وہ کو ن سا معیا ر ہے جس کی بنیا د پر متغیر اور بدلے ہو ئے عنا صر واجزا ء کے مجمو عہ کو موجو د ِ واحد کا نام دیا جا ئے، جبکہ ممکن ہے کہ پو ری زندگی میں متعدد مر تبہ وہ اجزا ء اور عنا صر تبدیل ہو جا ئیں اور ان کی جگہ ا سی طرح کے دو سرے عنا صر آجا ئیں ؟(١)

…………………………

١۔اس سوال سے پہلے ایک دوسرا سوال سا منے آ تاہے کہ بنیادی طور سے ثا بت اوربند مجمو عے میں وحد ت کا  معیا ر کیا ہے ؟اور کیمیا ئی تر کیب کو کس معیار کے مطا بق مو جو د واحد شما ر کیا جا سکتا ہے ؟ لیکن بحث و گفتگو کے زیا دہ  طولانی ہو جانے کی وجہ سے اس کو یہا ں چھیڑ نے سے پر ہیز کیا جا رہا ہے، ضرور ت مند حضرا ت آمو زش فلسفہ جلد اول درس نمبر ٢٩ کی  طر ف رجو ع کر یں ۔

اس سوال کا سب سے آسان اور سا دہ جو اب جو دیا جا تا ہے وہ یہ ہے کہ زند ہ مو جودا ت میں وحد ت کا معیا ر ان اجزا ء کا ایک دوسرے سے ایک ہی زما نے میں یا الگ الگ متصل ہو نا جبکہ وہ عناصر تدریجی طو ر سے ناپدید اور ختم ہو تے رہتے ہیں اور اس جگہ دوسرے عنا صر پیدا ہوجا تے ہیں لیکن پیو ستگی اور  اتصا ل کے سبب جو مسلسل تبد ل و تغیر کے ساتھ ہے مو جو د وا حد کا نام دیا جاتا ہے ۔

لیکن یہ جو اب اطمینان بخش نہیںہے کیو ں کہ اگر ایک مکا ن فر ض کرلیں کہ جو مختلف اور متعدد اینٹو ں سے مل کر تیا ر ہو ا ہو، اور اس کی اینٹو ں کو آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے تبد یل کر تے رہیں، اس طر ح کی کچھ مد ت کے بعد پہلے کی ایک اینٹ بھی با قی نہ رہ جا ئے تو ایسی صو رت میں اس نئی اینٹوں کے مجمو عے کو وہی پہلے والا مکا ن نہیں کہا جا سکتا، اگر چہ سہل انگا ری کی بنا پراعتبار سے ایسی   تعبیرا ت کا استعما ل کیا جا تا ہے بالخصوص ان لو گو ں کی جا نب سے جو اس مجمو عے کے اجزاء کی تبد یلی کی اطلا ع نہیں رکھتے ۔

گذشتہ جو ا ب کو اس طر ح مکمل کیا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی اس مجمو عے کی وحدت کے لئے نقصا ن دہ نہیں ہے کہ جب ایک فطر ی اور اندرونی سبب کی بنیا دوا قع ہو جیسا کہ زند ہ مو جودا ت میں دیکھا جا تاہے ،لیکن کسی مکا ن کی اینٹو ں کی تبد یلی ایک با ہر ی اور خا رجی سبب کی بنیا د پر واقع ہو ئی ہے لہٰذا اس پو ر ی مد ت میں جس دو ران اس کے اجزاء تبدیل ہو تے ہیں اس کی طر ف حقیقی وحد ت کی نسبت نہیں دی جا سکتی ۔

یہ جوا ب اس ایک طبیعی و فطر ی سبب کے قبو ل کر نے پر مو قو ف ہے جو ان تما م تغیرا ت اور تبدیلی کے سا تھ ہمیشہ با قی رہتا ہے اور ان اجزا ء اور عناصر کے نظا م اور تر تیب کو محفو ظ رکھتا ہے ، پس دوبا رہ اس سبب کے با رے میں سوا ل پید ا ہو تا ہے کہ اس سبب کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کی وحد ت کا معیار کیا ہے ؟

معر و ف فلسفی نظر یہ کے مطا بق ہر طبیعی مو جو د میں وحد ت کا معیا ر ایک امر بسیط (غیر مر کب ) اور غیر محسو س شیء ہے اور وہ طبیعت ( فطر ت ) یا صورت (١)  یعنی اجزاء اور ذرات کے بد لنے سے تبدیل نہیں ہو تے اور زند ہ مو جو دا ت کہ جو مختلف افعال انجا م دیتے ہیں جیسے غذا حا صل کر نا اور رشد و نمو کرنا ، ایجاد و تولید کرنا وغیرہ ایک عامل کی وجہ سے ہے کہ جس کو نفس کوا جاتا ہے ۔

قدیم فلسفی علما ء نفس نبا تی اور نفس حیو ا ن کوما دّی اور نفس انسانی کو مجرد عن المادہ جا نتے تھے لیکن بہت سے اسلا می حکما ء منجملہ صدر المتألھین شیر ازی نے نفس حیوا نی کو بھی تجرد اور ما دہ سے خا لی ہونے کو ایک مر تبہ جا نا ہے او ر شعو ر وارا دہ کو اسی مجر د مو جو د کی علامت شما ر کیا ہے لیکن ما تر یا یسیم کہ جو وجود کو ما دّے اور اس کی خا صتیو ں میں منحصر جا نتے ہیں وہ رو ح مجر د کا انکا ر کر تے ہیں اور جدید ما دہ پر ست انسان (مادّیین) (جیسے پو زتیو لیسم بنیا دی طور سے ہر غیر محسو س چیز کا انکا ر کرتے ہیں اور جب کسی بھی غیر محسو س چیز کو قبو ل نہیں کر تے جس کے نتیجہ میں ان کے پا س زندہ مو جو دا ت ہیں وحد ت کے معیا ر کے سلسلے میں کو ئی  صحیح جو اب نہیں ہے۔

اس بنا پر کہ نبا تا ت کے اندر معیار وحدت اس کا نفس نبا تی ہوتا ہے لہٰذا نبا تی زند گی کا وجو د، مادہ مستعد میں صورت اور نفس نباتی خاص کی وجہ سے ہے ، اس طرح سے جس و قت ما دہ کی استعداد ختم ہو جا ئے گی اس وقت اس کا صورت اور نفس نبا تی ہونا بھی ختم ہو جا ئے گا اور اگر ہم یہ فر ض کرلیں کہ وہ  ما دّہ دو با رہ صو رت نبا تی کو قبو ل کر نے کی صلا حیت و استعداد کو  حاصل کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں ایک جدید نفس نباتی کا اس میں اضا فہ ہو گا ،لیکن دو (پرا نے اور نئے) سبزوں ( درخت یا پو دے) کے  درمیا ن مکمل شبا ہت کے با وجو د بھی حقیقی وحد ت نہیں پا ئی جا سکتی اور اگر دقیق نظر سے دیکھا جا ئے تو اس جدید سبزے کو پہلے والا سبزہ نہیں کہا جا سکتا ۔

…………………………………

١۔جا ننا چاہیے ان میں سے ہر ایک لفظ کے دوسرے اصطلا حی معنی بھی پا ئے جا تے ہیں اور یہا ں پر ان سے مراد وہی صو رت ِنو عیہ ہے ۔

لیکن حیو ان اور انسان کے متعلق ،چو نکہ ان دو نو ں کی رو ح مجر د ہے ( ما دّہ سے خا لی ہے ) لہٰذا بد ن کے نا بود اور ختم ہو جا نے کے بعد بھی با قی رہ سکتی ہے ،اور جب دو با رہ بدن میں دا خل ہو گی تو اپنی وحد ت کو حفظ کر سکتی ہے چنا نچہ مو ت سے پہلے بھی یہی رو ح کی وحدت شخص کی وحد ت کا معیا ر تھی اور ما د ہ کا تبدیل ہو نا شخص کے بد ل جا نے کا سبب نہیں بنتا،لیکن اگر کو ئی انسان و حیوان کے وجود کو اسی بد ن اور اسکی خا صیتو ں میں منحصر جا نے ،اور رو ح کو بھی اسی بدن کی خا صیت یا خا صیتو ں کا مجمو عہ تسلیم کرے  یہا ں تک کہ اگر اس کو غیر محسو س لیکن ما دّی تصو ر کر ے، کہ جو بدن کے اعضا ء و جو ارح کے ختم ہو جا نے کے سا تھ سا تھ  وہ (روح)ختم ہو جا ئے گی تو ایسا انسان قیا مت کا صحیح تصور نہیں کر سکتا،کیو نکہ اس فر ض کے سا تھ کہ بدن دو بارہ حیا ت کی استعداد پید ا کر سکتا ہے ، کیونکہ نئی خا صیتیں اس کے اند ر پیدا  ہوں گی اور ایسی صو رت میں وحد ت کا حقیقی معیا ر وجود میں نہیں آسکتا، کیو نکہ فر ض یہ ہے کہ پہلے کی خا صیتیں با لکل ختم ہو چکی ہیں اور نئی خاصیتوں نے جنم لیا ہے ۔

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ُاس وقت موت کے بعد حیات کا صحیح تصور ممکن ہے جب روح کو بدن سے اور اس کی خاصیتوں سے ہٹ کر الگ سمجھیں اور یہاں تک اس کو ایک مادی صورت نہ سمجھیں جو بدن میں حلول کر گئی ہو اور بدن کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے،لہذا سب سے پہلے روح کو قبول کرنا ہوگا،اس کے بعد اس کو ایک امرِ جو ہری تسلیم کرنا ہو گانہ بدن کے اعراض کے مانند کوئی شیئ،(بدن کے اوپر عارض ہونے والی کیفیات)اور اس کے بعد پھر،اس کو بدن کے ختم ہو جانے کے بعد بھی قابل بقا اور قابل استقلال ماننا ہوگا نہ کہ حلول کرنے والی شیء کی طرح(اصطلاح میں مادہ کے مطابق)کہ جو بدن کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔

 انسان کے وجود میں روح کا مقام(کردار)

یہاںپر جس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا روح اور بدن سے مرکب ہونا، پانی میں آکسیجن اور ہیڈ روجن سے مرکب ہونے کے مانند نہیں ہے کہ ان دونوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے ساتھ ساتھ خود مرکب کا وجود بھی ایک کل کے عنوان سے ختم ہوجائے بلکہ روح، انسان کا ایک اصلی عنصر ہے اور جب تک یہ عنصر باقی ہے انسان کی انسانیت بھی باقی رہے گی اور شخص کی شخصیت بھی باقی رہے گی،اسی لئے بدن کے عناصر اور اجزاء کے بدل جانے کی وجہ سے شخص کی وحدت پر کوئی برُا اثر نہیں پڑتا ،کیوں کہ انسان کی وحدت کا حقیقی معیار اس کی روح ہے قرآن حکیم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن منکرین قیامت کے جواب میں جو کہتے تھے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان اپنے بدن کے سارے اجزاء ختم ہونے کے بعد دوبارہ نئی حیات پاجائے؟

خدا وندے عالم ارشاد فرماتا ہے۔

(قُلْ ےَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ اَلَّذِْ وُکِّلَ بِکُمْ)(١)

کہدو (کہ تم نابود نہیں ہوگے بلکہ) فرشتہ موت تمہیں اٹھائے گا

بس ہر انسانیت اور شخصیت کا قوام اور وجود اسی چیز سے وابستہ ہے جس کو ملک الموت(اٹھا لیتا)،قبض کر لیتا ہے،نہ کہ بدن اس اجزاء کے ذریعہ جو زمین میں بکھر جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے،

…………………

١۔سورہ سجدہ۔ آیت ۔١١

 

تبصرے
Loading...