ماہ رمضان کی حرمت کو پامال کرنا سخت منع ہے

خلاصہ: ماہ رمضان اور روزہ رکھنے کی اہمیت کے سلسلے میں احادیث کو مدنظر رکھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کا احترام کرنا ضروری ہے اور جن لوگوں کے لئے روزہ رکھنا منع ہے یا روزہ نہیں رکھتے، انہیں چاہیے کہ سرعام کھانے پینے سے پرہیز کریں تاکہ ماہ رمضان اور روزہ کی بے حرمتی نہ ہو، نیز سرعام کھانے پینے والوں کی روک تھام کے لئے چند طریقے پیش کئے ہیں۔

ماہ رمضان کی حرمت کو پامال کرنا سخت منع ہے

۔بسم اللہ الرحمن الرحیم

ماہ رمضان کا مقام اور اسکی منزلت اتنی بلند ہے کہ ماہ شعبان کو ماہ رمضان کے روزوں کی تیاری کے لئے مقدمہ کے طور پر قرار دیا گیا ہے اور پھر روزوں کی فضیلت اور اہمیت اس قدر ہے کہ اس بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے: ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ”[1]، “صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ”۔
اس آیت کے علاوہ روزہ کے سلسلہ میں دیگر آیات بھی پائی جاتی ہیں، نیز روزہ کی فضیلت کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں، جن میں سے ایک روایت یہ ہے جو حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں: “بُنِيَ الْاسْلامُ عَلى‌ خَمْسَةِ اشْياءَ؛ عَلَى الصَّلاةِ وَ الزَّكاةِ وَ الصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَ اْلِولايةِ”[2]، “اسلام پانچ چیزوں پر قائم کیا گیا ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت”۔
مذکورہ بالا آیت اور روایت سے واضح ہوتا ہے کہ روزہ رکھنا مسلمانوں پر واجب ہے اور اس کا مقصد متقی بننا ہے، اور پانچ چیزوں میں سے ایک روزہ ہے جس پر اسلام کو قائم کیا گیا ہے۔ عموماً روزہ کا واجب ہونا ماہ رمضان سے متعلق ہے اور ماہ رمضان کی عظمت کے سلسلے میں قرآن کریم کا ارشاد ہے: “شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ”[3]، ” ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی واضح نشانیاں موجود ہیں”۔
یہ واجب کام یعنی روزہ، ایسے مہینہ میں بجالایا جاتا ہے جو خود احترام کا حامل ہے اور ہر بالغ مرد اور عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے سوائے وہ افراد جن کو شریعت نے منع کیا ہے۔ جو آدمی جانتے ہوئے روزہ توڑے، اللہ تعالی نے اس کے لئے بھاری کفارہ قرار دیا ہے، جو روزہ کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے، ایک دن کے روزہ کو شرعی وجہ کے بغیر توڑنے کا کفارہ، ساٹھ دن کے روزے ہیں، روزہ توڑنے کا یہ بھاری کفارہ باعث بنتا ہے کہ آدمی ایسے حرام کام سے پرہیز کرے۔
لہذا جس شخص پر روزہ رکھنا واجب ہے، اگر وہ روزہ نہ رکھے تو اس نے ماہ رمضان کی حرمت کو پامال کیا ہے۔ اکثر لوگ اور بعض ضعیف الایمان مسلمان جانتے ہوئے یا عدم توجہی سے بعض غلط افکار سے متاثر ہوکر اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض سے فرار کرنے کے لئے بہانہ جوئی کی کوشش میں رہتے ہیں، مثلاً جو چیز ان کے دل کی پسند کے مطابق نہ ہو، قرآنی دلائل کی تلاش کرتے ہوئے کہتے ہیں: “کیا قرآن میں یہ بات ہے؟” لیکن دراصل وہ جواب کی تلاش میں نہیں ہوتے کیونکہ وہ خود جانتے ہیں کہ بہت سارے متفق علیہ دینی مسائل اور احکام پائے جاتے ہیں جن سے مومنین کا مسلسل دن رات تعلق رہتا ہے مگر وہ قرآن کریم میں بالکل واضح اور کھلم کھلا بیان نہیں ہوئے بلکہ وہ پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی سنّت و سیرت میں بیان ہوئے ہیں، مثال کے طور پر یومیہ واجب نمازوں کی رکعات کی تعداد اور کیفیت کا قرآن مجید میں ذکر نہیں ہوا، لیکن روزہ کے سلسلے میں خاص آیاتِ احکام نازل ہوئی ہیں جن کے ذریعہ روزہ سے فرار کرنے والوں کے بہانے کی روک تھام ہوجاتی ہے اور سوائے ان افراد کے جن کے پاس عذر شرعی، جسمانی وغیرہ ہو، اس فریضہ کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی نازیبا بہانے پیش کرسکتے ہیں۔ لہذا ایسے افراد خیال رکھیں کہ اس حق اللہ (سال میں ایک مہینہ کے روزہ) سے بھاگنے کی سوچ کو دماغ سے نکال دیں کیونکہ “أَوَلا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ ما یُسِرُّونَ وَ ما یُعْلِنُونَ”[4]، “کیا انہیں نہیں معلوم کہ خدا سب کچھ جانتا ہے جس کا یہ اظہار کررہے ہیں اورجس کی یہ پردہ پوشی کررہے ہیں”۔
منظر عام پر اور کھلم کھلا کیوں اللہ کے مہینہ کی حرمت کو پامال کرتے ہیں؟ کیا اللہ سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ یا سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظام نے روزہ کو اپنی طرف سے بنایا ہے؟ اس الہی فریضہ سے بھاگنے کے لئے کیوں غیرمعقول دلیلیں پیش کرتے ہیں؟ لہذا ہم اب ان لوگوں کی ہدایت کے لئے جو شرعی وجہ کے بغیر روزہ توڑتے ہیں یا روزہ نہیں رکھتے، روایات کی روشنی میں ان کے ان کام کی اصلاح کرتے ہیں: حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اصول کافی کے باب عقل و جہل میں منقول روایت میں انھوں نے عقل و جہل کے سپاہیوں کو شمار کرتے ہوئے ان میں سے عقل کا ایک سپاہی روزہ اور اس کی ضدّ یعنی جہل کا ایک سپاہی روزہ توڑنا بتایا ہے: “… وَ الصَّوْمُ وَ ضِدَّهُ الْإِفْطَارَ”۔[5]
نجاشی نے ماہ رمضان میں شراب پی لی، اسے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے پاس لایا گیا۔ آپؑ نے اسے اسّی (۸۰) تازیانے مارے، پھر اسے قید میں ڈال دیا اور دوسرے دن باہر لائے اور اسے انتالیس (۳۹) تازیانے مارے۔ اس نے پوچھا: یاامیرالمومنینؑ! یہ اضافہ کیوں مارے؟ حضرتؑ نے فرمایا: کیونکہ تم نے اللہ کے سامنے جرات کی ہے اور ماہ رمضان میں روزہ توڑا ہے۔[6]
حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ” أَنَّ عَلِيّاً (ع) أُتِيَ‏ بِرَجُلٍ‏ مُفْطِرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ نَهَاراً مِنْ غَيْرِ عِلَّةٍ فَضَرَبَهُ تِسْعَةً وَ ثَلَاثِينَ سَوْطاً حَقَّ شَهْرِ رَمَضَانَ حَيْثُ أَفْطَرَ فِيهِ”[7]، “ایک آدمی کو حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس لایا گیا جس نے ماہ رمضان میں دن کے وقت بلاوجہ روزہ افطار کرلیا تھا تو آپؑ نے اسے ماہ رمضان کے حق کی وجہ سے کہ اس نے اس میں افطار کیا تھا، انتالیس (۳۹) تازیانے مارے”۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ہی ارشاد گرامی ہے: “مَنْ أَفْطَرَ يَوْماً مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ مُتَعَمِّداً خَرَجَ‏ مِنَ الْإِيمَانِ”[8]، “جو شخص ماہ رمضان کے ایک دن کو جانتے ہوئے روزہ توڑے، وہ ایمان سے نکل گیا ہے”۔
نیز “فِي رَجُلٍ أَفْطَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ مُتَعَمِّداً مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ قَالَ يُعْتِقُ‏ نَسَمَةً أَوْ يَصُومُ‏ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ أَوْ يُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِيناً فَإِنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى ذَلِكَ تَصَدَّقَ بِمَا يُطِيقُ”.[9]، “جس آدمی نے ماہ رمضان میں بلاوجہ جان بوجھ کر ہوئے روزہ توڑا تھا، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے اس کے بارے میں فرمایا: اس آدمی کو چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے پے در پے روزے رکھے یا ستّر مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر ان کاموں کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی طاقت کے مطابق صدقہ دے”۔

ایک اور اہم موضوع جس پر معاشرے کو متوجہ کرنا بہت اہم اور ضروری ہے، یہ ہے کہ ماہ رمضان کے احترام کا خیال رکھنا لازمی ہے یعنی جس آدمی نے روزہ نہیں رکھا یا اسے نہیں رکھنا چاہیے، ماہ رمضان اور روزہ داروں کا احترام کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے اور سرعام کھانے پینے سے پرہیز کرے۔ جس معاشرے میں ایسی بےحرمتی ہوتی ہے وہاں نہی عن المنکر کے فریضہ کو بجالاتے ہوئے ایسے لوگوں کو منع کیا جائے جو ماہ رمضان میں کھلے عام کھاتے پیتے ہیں۔ اس بری ثقافت کی روک تھام کے لئے لوگ اور معاشرے کے مختلف گروہ، عملی اقدامات کرتے ہوئے ثقافت کو بدل سکتے ہیں، مثلاً:
خود ماں باپ دینی اور شرعی مسائل کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو بھی یہ تربیت دیں کہ وہ اس طریقہ سے ماہ مبارک رمضان کی حرمت پامال نہ ہونے دیں۔
اسکولوں اور مدارس کے اساتذہ کرام بچوں اور نوجوان نسل کو ماہ رمضان کے احترام کا خیال رکھنا سکھائیں تا کہ وہ بڑے ہوکر ماہ رمضان کی حرمت شکنی کا ارتکاب نہ کریں۔
میڈیا، عوام کو ماہ رمضان کے احترام کی ثقافت کی تعلیم دیتے ہوئے، سرعام کھانے پینے سے منع کرے۔
انتظامیہ کو چاہیے کہ ماہ رمضان میں شہر کے ماحول کو عام کھانے پینے سے آلودہ نہ ہونے دے۔
کھانے پینے والی دکانوں کے دکاندار ماہ رمضان کی حرمت کا خاص خیال رکھیں۔
لوگ جس آدمی کو منظرعام پر کھاتے پیتے دیکھیں اسے نہی عن المنکر کریں تا کہ یہ برائی پھیلتی نہ جائے۔
اگر معاشرے کے سب لوگ اپنے آپ کو شرعی احکام کے پابند اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضہ کے سامنے ذمہدار سمجھیں تو تھوڑے عرصہ میں ہی یہ برا رواج سماج سے مٹ جائے گا اور اس کی بجائے اسلامی ثقافت جو اسلامی احکام اور دینی فرائض کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے، معاشرے پر چھاجائے گی اور ہر آدمی کی کوشش یہ ہوگی کہ دین اسلام کے احکامات کو معاشرے میں جاری کرتے ہوئے اسلامی فرائض اور حقوق کو ہر جگہ، ہر دیہات، ہر علاقہ، ہر شہر، ہر ملک اور دنیا بھر میں اجاگر کرے۔ کیونکہ ہر شخص کو یہ فکر ہوگی کہ اس کو ایک دن معاشرے کے تمام لوگوں سے الگ ہوکر اللہ کی بارگاہ میں پہنچ کر اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے یا غفلت برتنے کے بارے میں جواب دینا ہے۔ نیز واضح رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا یہ فرمان نہج البلاغہ میں ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: “لَا تَتْرُكُوا الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ فَيُوَلَّى عَلَيْكُمْ [أَشْرَارُكُمْ‏] شِرَارُكُمْ ثُمَّ تَدْعُونَ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُم”‏[10]، “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظرانداز نہ کردینا کہ تم پر اشرار کی حکومت قائم ہوجائے اور تم فریاد بھی کرو تو اس کی سماعت نہ ہو”۔
نتیجہ: روزہ اور ماہ رمضان کی اہمیت آیات اور روایات کی روشنی میں بالکل واضح طور پر بیان کی گئی ہے تو اس مبارک مہینہ میں جس پر روزہ رکھنا واجب ہے، وہ روزہ رکھے اور جن پر واجب ہے لیکن روزہ نہیں رکھتے یا توڑ دیتے ہیں ان کو یاد رہے کہ ایسے کام کا اللہ تعالی نے سنگیں جرمانہ مقرر کیا ہے، اور جن پر واجب نہیں ہے یا نہیں رکھتے تو انہیں اس بات کا خیال رہنا چاہیے کہ سرعام کھانے پینے سے بالکل پرہیز کریں تا کہ ماہ رمضان کی حرمت شکنی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] سورہ بقرہ، آیت 183۔
[2] اصول كافى، جلد 3، صفحه 30، كتاب الايمان و الكفر، باب دعائم الاسلام، حديث 5.
[3] سورہ بقرہ، آیت 185۔
[4]سورہ بقرہ، آیت 77۔
[5]كافي (ط – دار الحديث)، ج‏1، ص: 48۔
[6] منابع فقه شيعه (ترجمه جامع أحاديث الشيعة)، ج‏30، ص: 875۔
[7]الجعفريات (الأشعثيات)، ص: 59۔
[8]وسائل الشيعة، ج‏15، ص: 323۔
[9]تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏4، ص: 321
[10]نہج البلاغہ، مکتوب 47۔

تبصرے
Loading...