ماہ رمضان میں لوگ اللہ کے مہمان – خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ تیسرا مضمون ہے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ “وَ هُوَ شَهْرٌ دُعِیتُمْ فِیهِ إِلَی ضِیافَةِ اللَّهِ”[1]، “اور وہ (ماہ رمضان) ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں اللہ کی مہمانی کی دعوت دی گئی ہے اور اس میں تمہیں اللہ کے کرامت والوں میں سے قرار دیا گیا ہے”۔

تشریح:
ضیافت کے معنی مہمان داری اور مہمان نوازی کے ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ شاید “ضیافت” ماہ رمضان کی اہم ترین صفت ہو اور اگر ہم ماہ رمضان کی حقیقت کو واضح کرنا چاہیں تو اسی صفت سے آغاز کرنا ہوگا کہ جو اِس مہینہ کے تمام اوصاف کی بنیاد ہے۔ ماہ رمضان میں ہم اللہ کے مہمان ہیں اور اللہ ہمارا میزبان ہے۔ اگرچہ ہم آغازِ خلقت سے ہی اللہ کے مہمان رہے ہیں اور ہمیشہ اس کے خوانِ نعمت پر بیٹھے رہیں گے، مگر ماہ رمضان میں اس کے خاص مہمان ہیں۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس دگنا مہمان نوازی میں ہمارے لیے کیا پیغام پایا جاتا ہے اور ماہ رمضان کے بارے میں ہمارے تصور میں کون سی لطافت ڈالنا چاہتے ہیں؟
ماہ رمضان کو ضیافت کی صفت، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے دی ہے جو کائنات کے تمام حقائق سے واقف ہیں۔ لہذا اس صفت پر غور کرنا چاہیے اور اس تشبیہ کے ذریعہ، ماہ رمضان کو سمجھنے کے لئے بہترین فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بنابریں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر مہمان نوازی کو اپنی دینی ثقافت میں ترجمہ کیا جائے تو مہمان نوازی میں کون سی خصوصیات پائی جاتی ہیں، حتی اپنے دلوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہیے کہ جب ہم مہمان نوازی کا نام سنتے ہیں یا مہمان اور میزبان کے باہمی تعلق کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں کیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ مہمان نوازی کے بارے میں مندرجہ ذیل نکات، قابل غور ہیں:
۱۔ مہمان کی عزت افزائی: مہمان نوازی میں مقصد، مہربانی کرنا اور عزت افزائی کرنا ہے۔ میزبان اگر خود کریم اور محترم ہو تو مہمان کے احترام کے لئے مہمان کی لیاقت کو دیکھنے سے زیادہ، مہمان نوازی کے معنی کو دیکھے گا، اور مہمان کے مقام کو دیکھنے اور مہمان کے مقام کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے سے زیادہ مہمان نوازی کو فخر کی بنیاد سمجھے گا۔ یہ جو ہمیں کہا گیا ہے کہ کافر مہمان کا بھی احترام کریں، یہ مہمان نوازی کے احترام کا خیال رکھنے کی اہمیت کے لئے ہے۔

۲۔ تعلّقات، نئے اور خاص معنی پاجاتے ہیں: مہمان ایک دوسرے سے دوستانہ تعلق رکھتے ہیں اور منافع پر مقابلہ، زیادہ تر تعادل اور تفاہم میں بدل جاتا ہے، کیونکہ سب کی پذیرائی کی جاتی ہے اور زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے میزبان کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اگر میزبان مالدار اور سخی ہو تو کسی قسم کی کمی کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں پائی جاتی۔
مہمانوں کے باہمی دوستانہ تعلق کے علاوہ، مہمان اور میزبان کا تعلق بھی نئی کیفیت پاجاتا ہے، اگر مہمان کا میزبان سے سابقہ تعلق اچھا نہ ہو تو میزبان کا کردار، سابقہ کو نظرانداز کردیتا ہے اور ہرگز میزبان اس کی سابقہ غلطی کی وجہ سے اس کا مواخذہ نہیں کرتا۔

۳۔ چھوٹے بھی عزت پاتے ہیں: مہمان نوازی میں لوگوں کا مقام بدل جاتا ہے، اس کے بغیر کہ بڑوں کے احترام میں سے کمی ہو، چھوٹوں کی بھی عزت ہوتی ہے اور ان کا مقام بڑھ جاتا ہے، سب ایک دوسرے کے قریب ہوجاتے ہیں اور مہمان اور میزبان چاہے مقام اور عمر کے لحاظ سے جتنا ایک دوسرے سے دور ہوں، لیکن دعوت میں ایک دوسرے سے قربت محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ “مہمان” کا عنوان ایسا مستقل عنوان ہے جو جس کو دے دیا جائے، وہ قابل احترام بن جاتا ہے اور بھائی اور دوست ہونے اور رشتہ داری کے ساتھ، مہمان کا عنوان خاص احترام کا حامل ہے۔

۴۔ مہمان کی زحمت کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے: اگر مہمان، دعوت میں زحمت اٹھائے تو اس سے دگنا شکریہ ادا کیا جائے گا اور اگر زحمت نہ کرے تو بھی اس کے احترام میں کمی نہیں آتی، دوسری طرف سے میزبان بھی اس سے کوئی توقع نہیں رکھتا اور میزبان پذیرائی کے دوران صرف مہمانوں کے لطف اندوز ہونے کی سوچ میں رہتا ہے۔ مہمان کی مسکراہٹ سے خوش ہوتا ہے اور مسلسل ان کے سیراب ہونے اور لبریز ہونے کی صورتحال دریافت کرتا رہتا ہے۔

۵۔ میزبان کا دعوت سے مقصد، صرف احترام ہے: اگر میزبان کو مہمان اور مہمان نوازی کی کوئی ضرورت نہ ہو اور مہمان نوازی اپنے حقیقی معنی اور مقام میں وقوع پذیر ہوئی ہو تو میزبان کا دعوت اور پذیرائی کرنے سے مقصد، مہمان کے احترام کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، اور میزبان جتنا زیادہ بے نیاز ہوگا، اتنی زیادہ دعوت اور مہمان نوازی اس کی محبت اور احترام کی نشاندہی کرے گی۔

۶۔ کسی “بزرگ” کی مہمان نوازی، اس کی انکساری کے لمحات ہیں: اگر میزبان، بزرگ اور بلند مقام والا ہو اور مہمانوں کا مقام اس سے بہت کم ہو تو مہمان نوازی، میزبان کے تواضع اور انکساری کے لمحات ہیں۔ وہ وقت جب عظیم مقام والا میزبان، مہمانوں کے سامنے آتا ہے تو وہ وقت مہمانوں کے لئے یادگار اور خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ بزرگوں کی دعوت میں جانا، بزرگی اور عزت کا باعث بنتا ہے اور حقارتوں کو انسان کی روح سے نکال دیتا ہے۔

۷۔ دعوت گذرگاہ ہے اور اس کی قدردانی کرنا چاہیے: دعوت ایسی خوبصورت اور میٹھی گذرگاہ ہے جس کی قدردانی کرنا چاہیے اور اس کی مختصر فرصت سے فائدہ اٹھانے کے لئے کافی ہمت کرنی چاہیے، دعوت میں مدہوشی کا موقع نہیں ہے، بلکہ ہوش میں رہنا چاہیے اور اس کے لمحوں سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔

۸۔ اجنبیت کا ازالہ اور تفریح و تبدیلی کا موقع: دعوت پر جانے کے کم ترین فائدے یہ ہیں کہ مہمان اور میزبان کے درمیان اجنبیت اور دوری زائل ہوجاتی ہے۔ مہمان اپنے گھر کے تھکا دینے والے ماحول سے نکلتا ہے اور میزبان کے گھر میں داخل ہوتا ہے جو اس کے لئے تازگی کا باعث ہے۔ دعوت تفریح اور تبدیلی کی فرصت ہے اور میزبان کی دیدار، مہمان کے لئے نوازش اور تسکین کا باعث ہے۔

۹۔ دعوت کے درجات: مذکورہ بالا نکات اس پر موقوف ہیں کہ آپ کی کس شخص نے دعوت کی ہے، یا آپ کیسی کیفیت میں ہیں، آپ کتنے پیاسے ہیں اور میزبان کیسا ساقی ہے، آپ کی اداسی اور میزبان کا دلاسہ ، آپ کا غم زدہ ہونا اور میزبان کا غم خوار اور ہمدرد ہونا، آپ کی محبت اور میزبان کی محبت۔ یعنی دعوتوں کا آپس میں فرق ہوتا ہے، لہذا یہ انسان کو خود دیکھنا چاہیے کہ وہ ماہ رمضان کی ضیافت اور دعوت کا کس حد تک ادراک کرتا ہے۔

۱۰۔ اولیاء اللہ کے ساتھ کچھ لمحات: اس ضیافت اور دعوت کے لئے اہم ترین احتمال یہ ہے کہ انسان اس ضیافت میں اللہ کے اولیاء سے قرب حاصل کرلیتا ہے، گویا اللہ چاہتا ہے کہ لوگوں کا اس کے اولیاء اور خاص دوستوں کے ساتھ فاصلہ کم ہوجائے تا کہ لوگ، اولیاء اللہ کے نور کے ذریعہ حق کا راستہ پائیں اور اولیاء کے نور کی لوگوں کے دلوں پر ضوء پاشی ہو اور اللہ لوگوں کو اپنے اولیاء دکھا کر، نزولِ قرآن اور لوگوں کی ہدایت کا مقصد واضح کرے اور ہمیں مکتب ولایت میں بٹھا کر اپنی نعمت کو تمام کردے، ورنہ اللہ تو ہمیشہ لوگوں کے ساتھ ہے اور لوگ ہمیشہ اس کے مہمان ہیں۔

نتیجہ: جب دعوت کی جاتی ہے تو اس سے مختلف مقاصد مدنظر ہوسکتے ہیں، اگر میزبان بے غرضی کے ساتھ مہمان نوازی کرے تو تبھی اپنی کرامت اور سخاوت کو مہمانوں پر نچھاور کرسکتا ہے، ایسی صورتحال میں، مہمان کا مختلف فائدوں اور الطاف سے دامن بھر جاتا ہے  اور ضیافت و دعوت کے مقاصد تب پورے ہوں گے۔ اللہ تعالی نے ماہ رمضان کو اپنی ضیافت اور دعوت کا مہینہ قرار دیا ہے، اگر بے نیاز پروردگار لوگوں کو اپنے خوانِ رحمت پر آنے کی دعوت دے رہا ہے تو اس سے مخلوق کے ہی فائدے مدنظر ہیں، لہذا سب لوگوں کو چاہیے کہ ماہ رمضان کی دعوت کے شرائط کو پورا کرکے رحمت پروردگار سے اپنا دامن بھرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.

تبصرے
Loading...