ماہ رمضان میں لوگوں پر کرامت الہی – خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ چوتھا مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ وجُعِلتُم فيهِ مِن أهلِ كَرامَةِ اللّه[1]، “اور تم اس (ماہ رمضان) میں اللہ کی کرامت والوں میں سے قرار دئیے گئے ہو”۔

تشریح
کرامت کا مفہوم:
کرامت کے معنی سخاوت، شرافت، نفاست  اور عزت کے ہیں۔[2] راغب کا کہنا ہے کہ کرم اگر اللہ کی صفت ہو تو اس سے مراد اللہ کا کھلم کھلا احسان اور نعمت ہے اور اگر انسان کی صفت ہو تو اس کے اچھے اخلاق اور افعال کا نام ہے جو اس سے ظاہر ہوتے ہیں، کسی کو کریم نہیں کہا جاتا مگر اس سے ان اخلاق اور افعال کے ظاہر ہونے کے بعد۔ اور جو چیز اپنی جنس میں شریف ہو اسے کرم سے بیان کیا جاتا ہے۔[3]
لہذا قرآن میں جہاں بھی لفظ کریم یا کرامت یا اس کا فعل آیا ہے، وہاں موقع کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ چار معانی میں سے اسے کسی ایک معنی میں لیا جاسکتا ہے۔[4]
آیت اللہ جوادی آملی (حَفَظَہُ اللہ) کے قول کے مطابق، کرامت، پستی اور ذلت سے دوری اختیار کرنے کے معنی میں ہے اور عظیم اور ہر پستی سے پاک روح کو کریم کہا جاتا ہے۔[5] لئامت اور دنائت کے ایک معنی ہیں، لہذا دنائت، کرامت کے مدمقابل ہے اور دنی، کریم کے مقابلہ میں ہے۔[6]
خطبہ شعبانیہ میں کرامۃ اللہ سے مراد: اس فقرہ میں “کرامۃ اللہ” سے ظاہراً مراد “لطفِ مقرِّب الہی” ہے، یعنی اللہ تعالی ماہ رمضان میں لوگوں پر ایسا لطف کرتا ہے جس کے ذریعہ سے لوگ اللہ کی طرف قریب ہوتے ہیں۔ یہاں پر “کرامۃ اللہ” بمعنیٔ “تکریم اللہ” ہے، یعنی اللہ تعالی نے اس مبارک مہینہ میں عبادت کے راستہ کو طے کرنا آسان کردیا ہے اور پروردگار عبادت و اطاعت پر ثواب بھی دگنا عطا فرماتا ہے۔
کرامت کا سلسلہ اللہ سے انسانوں تک: غور طلب بات یہ ہے کہ کرم کی صفت ایسی صفت ہے جو قرآن کی نظر میں اللہ تعالی، کریم، اکرم اور ذوالجلال والاکرام ہے اور زیارت جامعہ کبیرہ کے مطابق اہل بیت (علیہم السلام)، “اصول الکرم”، “کرم کی بنیادیں” ہیں۔ لہذا یہ بات مدنظررہنی چاہیے کہ اس کا رب کریم، اکرم اور ذوالجلال والاکرام ہے اورہدایت کے راستے میں اس کے راہنما اور پیشوا کرم کی بنیادیں اور جڑیں ہیں، بنابریں انسان کو چاہیے کہ کریم بننے کے لئے انتہائی کوشش کرے۔ یہ بات اگلے مطالب میں مزید واضح ہوگی۔
انسان کی کرامت: انسان کے وجود کی ساخت، خلقت کی بہترین ساخت ہے اور انسان عظیم ظرفیت، گنجائش اور طاقتوں کا حامل ہے،  لہذا لامحدود تک پہنچنے کا خواہاں ہے۔ قرآن تعلیمات کے مطابق انسان ایسی مخلوق ہے جس میں اللہ کی روح پھونکی گئی ہے۔ انسان کا وجود ایسے گوہر کا حامل ہے کہ خالق کائنات نے زمین پر جو کچھ ہے اسے انسان کے لئے خلق کیا ہے اور اللہ تعالی نے کائنات کو ایسا خلق کیا ہے کہ انسان کمال تک پہنچنے کے لئے اس کو استعمال کرسکے اور پروردگار عالم نے انسان کو اس حد تک فضیلت اور برتری دے دی ہے کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ان مذکورہ تعلیمات سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کرامت اور فضیلت کا حامل ہے۔ یہ کرامت بالقوہ اور طاقت کے طور پر ہر انسان میں پائی جاتی ہے تا کہ وہ کمال کے راستوں کو طے کرتا ہوا، اس قوت کو فعلیت اور نکھار دیدے۔
کرامت دو طرح کی ہے: تکوینی کرامت اور کسبی کرامت اور قرآن کریم میں ان دونوں کرامتوں کا تذکرہ ہوا ہے۔
تکوینی کرامت: تکوینی کرامت وہ صلاحیتیں اور طاقتیں ہیں جو انبیاء اور آسمانی کتب کے ہدایت کرنے سے نکھر سکتی ہیں اور انسان کی ترقی اور مقامات کے کمال کا باعث بن سکتی ہیں، لہذا تکوینی کرامت انسان میں قرار دی گئی ہے۔ ارشاد الہی ہے: وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا[7]، ” اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے”۔[8]
کسبی کرامت: یہ کرامت اختیاری ہے اور انسان اپنے ارادہ اور اختیار کے ساتھ اس کرامت کو حاصل کرسکتا ہے۔ کسبی کرامت میں انسان کوشش و محنت کے ذریعہ بلند درجات تک پہنچ سکتا ہے۔ ارشاد پروردگار ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ”[9]، “خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے”۔
لیکن بعض لوگ، اللہ تعالی کی نافرمانی اور عصیان کرتے ہوئے ان عطاکردہ طاقتوں کو ضائع کرکے اسفل سافلین تک پہنچ جاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باریتعالی ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ . ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ . إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ”[10]، ” ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے۔ پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا ہے۔ علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیئے تو ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے”۔
کسبی کرامت کا واحد معیار: مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے اپنی بارگاہ میں کرامت و احترام پانے کا واحد طریقہ “تقوا اختیار کرنا” قرار دیا ہے، جہاں فرمایا: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ”[11]، “خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے”۔ لہذا کرامت حاصل کرنے کے لئے تقوی پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔ اسی مناسبت سے تقوی کے بارے میں چند آیات کا تذکرہ کیے دیتے ہیں تاکہ تقوی کی اہمیت واضح ہونے سے کرامت کی اہمیت بھی زیادہ واضح ہوجائے۔
ارشاد الہی ہے: “وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى‏”[12]، “اور (آخرت کے سفر کے لئے) زادِ راہ مہیا کرو (اور سمجھ لو) کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ (پرہیزگاری) ہے”۔ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ[13]، “اور تقویٰ و پرہیزگاری کا لباس یہ سب سے بہتر ہے یہ (لباس بھی) اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں”۔ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ[14]، “عدل کرو کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔ بنابریں تقویٰ، کرامت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، نیز تقویٰ بہترین زادِراہ اور بہترین لباس ہے اور عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
نتیجہ: اللہ تعالی نے ہر انسان میں کرامت کا سرمایہ قرار دیدیا ہے، اس کرامت کی بنیاد پر انسان تقوا اختیار کرتا ہوا اَکرم اور زیادہ محترم بن سکتا ہے،  پروردگار عالم ماہ رمضان میں لوگوں پر اپنا خاص کرم نچھاور کرتا ہے اور اس مبارک مہینہ میں لوگوں کے لئے تقوا اختیار کرنا اور اللہ کی عبادت و اطاعت کرنا زیادہ آسان ہوجاتی ہے اور اللہ تعالی اپنے اس مہینہ میں دگنا ثواب عطا فرماتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] قاموس قرآن، قرشی، ج6، ص103۔
[3] قاموس قرآن، قرشی، ج6، ص103۔
[4] قاموس قرآن، قرشی، ج6، ص103۔
[5] کرامت در قرآن، آیت اللہ جوادی آملی، ص22۔
[6] کرامت در قرآن، آیت اللہ جوادی آملی، ص22۔
[7] سورہ اسراء، آیت 70۔
[8] ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[9] سورہ حجرات، آیت 13۔
[10] سورہ تین، آیات 4 سے 6 تک۔
[11] سورہ حجرات، آیت 13۔
[12] سورہ بقره،  197۔
[13] سورہ اعراف،  26۔
[14] سورہ مائدہ، آیت 8۔

تبصرے
Loading...