ماہ رمضان میں توبہ اور استغفار اہل بیت (علیہم السلام) کی نظر میں

خلاصہ: ماہ رمضان گناہوں سے توبہ اور مغفرت کا بہترین موقع ہے، اہل بیت علیہم السلام کی روایات اور دعاوں میں ماہ رمضان میں اس سلسلے میں مختلف بیانات نقل ہوئے ہیں، استغفار صرف یہ نہیں کہ زبان سے استغفار کیا جائے بلکہ عمل کی صورت میں بھی ظاہر ہونا چاہیے اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ماہ رمضان میں توبہ اور استغفار اہل بیت (علیہم السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کچھ واجبات کو فوراً بجالانا ہوتا ہے اور بعض واجبات میں کچھ فرصت ہوتی ہے جس میں اس واجب کو بجالایا جاسکتا ہے، گناہ سے توبہ کرنا واجب فوری ہے، یعنی اگر انسان سے گناہ سرزد ہو تو واجب ہے کہ فوراً توبہ کرے اور توبہ کا مطلب یہ ہے کہ آیندہ اس گناہ کا ارتکاب ہرگز نہ کرے، اگرچہ گناہ سے توبہ کرنا فوری طور پر واجب ہے لیکن توبہ اور استغفار کے کچھ خاص اوقات بھی بتائےگئے ہیں، ان میں سے ایک ماہ رمضان ہے جو استغفار کرنے کا بہترین موقع ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خطبہ شعبانیہ کی ابتدا میں فرمایا: ” أَیهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیکمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَکةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ“[1]، “اے لوگو! بیشک اللہ کے مہینہ نے برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف رخ کیا ہے۔
اور اسی خطبہ کے ایک اور فقرہ میں فرمایا: “وَ تُوبُوا إِلَی اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِکمْ“[2]، “اور اپنے گناہوں سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو”۔ اور نیز کچھ فقروں کے بعد فرمایا: “أَیهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْکمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِی هَذَا الشَّهْرِ کانَ لَهُ بِذَلِک عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عِتْقُ رَقَبَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَی مِنْ ذُنُوبِهِ“، ” اے لوگو! تم میں سے جو شخص، روزہ دار مومن کو اس مہینہ میں افطار دے، اس کے لئے اس کے بدلے میں اللہ کی بارگاہ میں ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے اور گذشتہ گناہوں کی بخشش ہے”۔
کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! ہم سب کی تو اس عمل کے انجام دینے پر طاقت نہیں ہے۔ رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ اگرچہ آدھی کھجور سے ہی کیوں نہ ہو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ سے ہی کیوں نہ ہو۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ دوزخ کی آگ سے نجات پانے کا راستہ اس مبارک مہینہ میں ہموار کریں، پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے مذکورہ بالا ارشادات اور نیز جو اس سائل کو آپؐ نے جواب دیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مہینہ میں اپنے آپ کو صرف استغفار کرنے کے ذریعے نہیں بلکہ توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ عملی طریقہ کار بھی پایا جاتا ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسان جہنم کی آگ سے بچنے کا ذریعہ فراہم کرسکتا ہے۔
ماہ رمضان میں گناہوں سے توبہ اور طلب مغفرت کی اتنی اہمیت ہے کہ جو طویل خطبہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے جو آپؑ نے ماہ رمضان کی فضیلت کے سلسلے میں مسجد کوفہ میں ماہ رمضان کے پہلے دن ارشاد فرمایا، اس کے ایک فقرہ میں فرمایا: ” وذُنوبُكَ فيهِ مَغفورَةٌ“،[3] “اور اس مہینہ میں تمہارے گناہ معاف ہوتے ہیں”۔
آپؑ اسی خطبہ میں لوگوں کو ہوشیار کرتے ہوئے تاکہ اس مہینہ میں گناہوں کا بوجھ ان کے ذمہ نہ رہ جائے، فرماتے ہیں: ” اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ ونَهارِكَ؟ وكَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما وبِالنَّهارِ غافِلاً؛ فَيَنقَضِيَ شَهرُكَ وقَد بَقِيَ عَلَيكَ وِزرُكَ“، ” غور کرو کہ اپنے رات و دن میں کیسے ہو اور کیسے اپنے اعضاء کو اپنے پروردگار کی نافرمانیوں سے محفوظ کرتے ہو، غور کرو کہ ایسا نہ ہو کہ رات کو نیند میں رہو اور دن کو غفلت میں، پس تمہارا مہینہ گزر جائے اور تمہارا (گناہ کا) بوجھ تمہارے ذمہ رہ جائے”۔
آدمی اس مبارک مہینہ میں دن اور رات کا خیال رکھے کہ رات صرف نیند میں ہی نہ گزر جائے بلکہ راتوں میں عبادت بھی ہو جیسے نماز، تلاوت قرآن کریم، دعا و مناجات اور استغفار۔ اور دن غفلت میں نہ گزرنے پائے بلکہ کوشش کرے کہ روزہ کے ساتھ ساتھ ان اعمال کو بجالاتا رہے جن کا حکم دیا گیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس مہینہ میں غافل رہے یہاں تک کہ ماہ رمضان اختتام پذیر ہوجائے اور اس کے گناہوں کا بوجھ اس کے ذمہ رہ جائے، جبکہ گناہوں کی بخشش کا ایک خاص موقع یہی مہینہ ہے، جب اللہ تعالی نے گناہ کی مغفرت آسان کردی تو یہ شخص غفلت کی نیند میں رہا اور جب عام وقت آگیا تو اب ماہ رمضان سے پہلے کی طرح ہی اس کے گناہ اس پر لدے ہوئے رہ گئے، جیسا کہ پیاسا آدمی چشمہ کے پاس پہنچنے کے باوجود ہاتھ بڑھا کر چلو میں پانی لینے سے غفلت کرے لیکن جب چشمہ سے کوسوں دور ہوجائے تو اس وقت پیاس کی شدت سے تڑپتا ہوا ہر طرف کوشش کرتا پھرے، لیکن جب پانی سے اتنا دور ہوگیا ہے تو اب اتنی تیزی اور آسانی سے پانی کیسے ملے؟، مل تو جائے گا، لیکن مشکل اور دیر سے۔ ماہ رمضان میں بھی چونکہ اللہ تعالی گنہگاروں کو خاص طور پر معاف کرتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ مغفرت کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے آبِ توبہ میں غسل کرکے اپنے وجود پر تقوی و عصمت کا لباس اوڑھ لیں اور گناہوں کا بوجھ اتارکر بارگاہِ ربوبیت میں مکمل طور پر بندگی اور عبودیت کا راستہ اختیار کرلیں۔
نیز مذکورہ خطبہ میں، آپؑ گناہوں کی بخشش کی امید کو صرف اللہ تعالی سے مختص کرتے ہیں، آپؑ فرماتے ہیں: “وإن لَم يُقِلكَ عَثرَتَكَ فَمَن تَرجو لِغُفرانِ ذُنوبِكَ؟“، ” اور اگر اس نے تمہاری خطا کو معاف نہ کیا تو تم اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے کس پر امید رکھوگے؟”۔
حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) دعائے استقبال ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: “وَ شَهْرَ التَّمْحِيصِ“[4]، “(گناہوں سے) پاک ہونے کا مہینہ” نیز آپؑ اسی دعا میں عرض کرتے ہیں: “… وَ أَنْ نَتَقَرَّبَ إِلَيْكَ فِيهِ مِنَ الْأَعْمَالِ الزَّاكِيَةِ بِمَا تُطَهِّرُنَا بِهِ مِنَ الذُّنُوبِ، وَ تَعْصِمُنَا فِيهِ مِمَّا نَسْتَأْنِفُ‏ مِنَ الْعُيُوبِ، حَتَّى‏…
“…اور ہمیں اس مہینہ میں ایسے پاک و پاکیزہ اعمال کے وسیلہ سے تقرّب حاصل کرنے کی توفیق دے جن کے ذریعہ تو ہمیں گناہوں سے پاک کردے اور از سرِ نو برائیوں کے ارتکاب سے بچالے جائے، یہاں تک کہ …”۔
آپؑ اس دعا میں گناہوں سے پرہیز کرنے کے بارے میں عرض کرتے ہیں:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ فَضْلِهِ وَ إِجْلَالَ حُرْمَتِهِ، وَ التَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِيهِ، وَ أَعِنَّا عَلَى صِيَامِهِ بِكَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَعَاصِيكَ، وَ اسْتِعْمَالِهَا فِيهِ بِمَا يُرْضِيكَ حَتَّى لَا نُصْغِيَ بِأَسْمَاعِنَا إِلَى لَغْوٍ، وَ لَا نُسْرِعَ بِأَبْصَارِنَا إِلَى لَهْوٍ ۔ وَ حَتَّى لَا نَبْسُطَ أَيْدِيَنَا إِلَى مَحْظُورٍ، وَ لَا نَخْطُوَ بِأَقْدَامِنَا إِلَى مَحْجُورٍ، وَ حَتَّى لَا تَعِيَ بُطُونُنَا إِلَّا مَا أَحْلَلْتَ، وَ لَا تَنْطِقَ أَلْسِنَتُنَا إِلَّا بِمَا مَثَّلْتَ، وَ لَا نَتَكَلَّفَ إِلَّا مَا يُدْنِي مِنْ ثَوَابِكَ، وَ لَا نَتَعَاطَى إِلَّا الَّذِي يَقِي مِنْ عِقَابِك‏‏‏”، “اے اللہ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ہدایت فرما کہ ہم اس مہینہ کے فضل و شرف کو پہچانیں، اس کی عزّت و حرمت کو بلند جانیں اور اس میں ان چیزوں سے جن سے تو نے منع کیا ہے اجتناب کریں اور اس کے روزے رکھنے مین ہمارے اعضا کو نافرمانیون سے روکنے اور ان کاموں میں مصروف رکھنے سے جو تیری خوشنودی کا باعث ہوں، ہماری اعانت فرما تاکہ ہم نہ بے فائدہ باتوں کی طرف کان لگائیں، نہ فضول چیزوں کی طرف نگاہیں اٹھائیں، نہ حرام کی طرف ہاتھ بڑھائیں، نہ امرِ ممنوع کی طرف پیش قدمی کریں، نہ تیری حلال کی ہوئی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو ہمارے شکم قبول کریں، اور نہ تیری بیان کی ہوئی باتوں کے سوا ہماری زبانیں گویا ہوں، صرف ان چیزوں کے بجالانے کا بار اٹھائیں جو تیرے ثواب سے قریب کریں اور صرف ان کاموں کو انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچا لے جائیں۔
آپؑ ماہ رمضان میں اللہ کی بخشش کے سلسلے میں اسی دعا میں عرض کرتے ہیں: “اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ إِذَا كَانَ لَكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ لَيَالِي شَهْرِنَا هَذَا رِقَابٌ يُعْتِقُهَا عَفْوُكَ، أَوْ يَهَبُهَا صَفْحُكَ فَاجْعَلْ رِقَابَنَا مِنْ تِلْكَ الرِّقَابِ، وَ اجْعَلْنَا لِشَهْرِنَا مِنْ خَيْرِ أَهْلٍ وَ أَصْحَابٍ. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ امْحَقْ ذُنُوبَنَا مَعَ امِّحَاقِ هِلَالِهِ، وَ اسْلَخْ عَنَّا تَبِعَاتِنَا مَعَ انْسِلَاخِ أَيَّامِهِ حَتَّى يَنْقَضِيَ عَنَّا وَ قَدْ صَفَّيْتَنَا فِيهِ مِنَ الْخَطِيئَاتِ، وَ أَخْلَصْتَنَا فِيهِ مِنَ السَّيِّئَاتِ”، “اے اللہ!  محمد اور اُن کی آل پر رحمت نازل فرما اور جب کہ اس مہینے کی راتوں میں ہر رات میں تیرے کچھ ایسے بندے ہوتے ہیں جنہیں تیرا عفو و کرم آزاد کرتا ہے یا تیری بخشش و درگزر انہیں بخش دیتی ہے تو ہمیں بھی انہی بندوں میں داخل کر اور اس مہینہ کے بہترین اہل و اصحاب میں قرار دے۔ اے اللہ! محمد اور اُن کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس چاند کے گھٹنے کے ساتھ ہمارے گناہوں کو بھی محو کردے اور جب اس کے دن ختم ہونے پر آئیں تو ہمارے گناہوں کا وبال ہم سے دور کردے تا کہ یہ مہینہ اس طرح تمام ہو کہ تو ہمیں خطاوں سے پاک اور گناہوں سے بری کرچکا ہو۔
حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) دعائے وداعِ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: “وَ تَلَقَّيْتَ مَنْ عَصَاكَ بِالْحِلْمِ، وَ أَمْهَلْتَ مَنْ قَصَدَ لِنَفْسِهِ بِالظُّلْمِ، تَسْتَنْظِرُهُمْ بِأَنَاتِكَ إِلَى الْإِنَابَةِ، وَ تَتْرُكُ مُعَاجَلَتَهُمْ إِلَى التَّوْبَةِ لِكَيْلَا يَهْلِكَ عَلَيْكَ هَالِكُهُمْ، وَ لَا يَشْقَى بِنِعْمَتِكَ شَقِيُّهُمْ إِلَّا عَنْ طُولِ الْإِعْذَارِ إِلَيْهِ، وَ بَعْدَ تَرَادُفِ الْحُجَّةِ عَلَيْهِ، كَرَماً مِنْ عَفْوِكَ يَا كَرِيمُ، وَ عَائِدَةً مِنْ عَطْفِكَ يَا حَلِيمُ. أَنْتَ الَّذِي فَتَحْتَ لِعِبَادِكَ بَاباً إِلَى عَفْوِكَ، وَ سَمَّيْتَهُ التَّوْبَةَ، وَ جَعَلْتَ عَلَى ذَلِكَ الْبَابِ دَلِيلًا مِنْ وَحْيِكَ لِئَلَّا يَضِلُّوا عَنْهُ، فَقُلْتَ- تَبَارَكَ اسْمُكَ-: تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسى‏ رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ”[5]، “اور جس کسی نے تیری نافرمانی کی، تو نے اس سے بردباری کا رویّہ اختیار کیا اور جس کسی نے اپنے نفس پر ظلم کا ارادہ کیا، تو نے اُسے مہلت دی تو اُن کے واپس آنے تک اپنے حِلم کی بنا پر مہلت دیتا ہے اور توبہ کرنے تک انہیں سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا تا کہ تیری منشاء کے خلاف تباہ ہونے والا تباہ نہ ہو اور تیری نعمت کی وجہ سے بدبخت ہونے والا بدبخت نہ ہو مگر اس وقت کہ جب اس پر اتمامِ حجّت ہوجائے۔ اے کریم! یہ (اتمامِ حجّت) تیرے عفو و درگزر کا کرم، اور اے بردبار تیری شفقت و مہربانی کا فیض ہے، تو ہی ہے وہ جس نے اپنے بندوں کے لئے عفو و بخشش کا دروازہ کھولا ہے اور اُس کا نام توبہ رکھا ہے اور تو نے اس دروازہ کی نشاندہی کے لئے اپنی وحی کو رہبر قرار دیا ہے تا کہ وہ اس دروازہ سے بھٹک نہ جائیں، چنانچہ اے مبارک نام والے تو نے فرمایا ہے کہ “خدا کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہوں کو محو کردے اور تمہیں اس بہشت میں داخل کرے جس کے (محلّات و باغات کے) نیچے نہریں بہتی ہیں۔
نتیجہ: ہمیں چاہیے کہ روزہ رکھتے ہوئے گناہوں سے پرہیز کریں اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں سے توبہ اور استغفار کریں اور آیندہ اس گناہ کا پھر ارتکاب نہ کریں اور حقیقی توبہ کرتے ہوئے اللہ کی مغفرت سے اپنا دامن بھرلیں، نیز ماہ رمضان کے رات و دن کو غفلت میں نہ گزار دیں، بلکہ جو اعمال اس مہینہ میں بتائے گئے ہیں ان پر عمل کریں تا کہ اس مہینہ کی برکات سے بہرہمند ہوتے ہوئے انسانی کمالات کی منازل طے کرتے جائیں، اس مبارک مہینہ میں جو توبہ اور استغفار پر زور دیا گیا ہے، اس پر غور کریں اور اسے جامہ عمل پہنائیں۔ استغفار صرف یہ نہیں کہ زبان سے استغفار کیا جائے بلکہ عمل کی صورت میں بھی ظاہر ہونا چاہیے اور گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عیون أخبار الرضا، ج1، ص295۔
[2] عیون أخبار الرضا، ج1، ص295۔
[3] فضائل الأشهر الثلاثة : 107 / 101۔
[4] صحیفہ سجادیہ، دعا 44۔
[5] صحیفہ سجادیہ، دعا 45۔

تبصرے
Loading...