ماہ رمضان اور محاسبہ نفس

ماہ رمضان اور محاسبہ نفس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محاسبہ نفس یعنی انسان اپنے نفس سے حساب لے کہ کیا جو جو اس کی ذمہ داری تھی اس نے اسے ادا کیا اور جن کاموں کے ارتکاب سے اپنے آپ کو بچانا تھا بچایا؟ روایات میں محاسبہ نفس کے بارے میں تاکید کی گئی ہے:

حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) محاسبہ نفس کی اہمیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: ” ليس‏ منا من‏ لم‏ يحاسب‏ نفسه‏ في كل يوم فإن عمل خيرا استزاد الله منه و حمد الله عليه و إن عمل شرا استغفر الله منه و تاب إليه‏”[1]، “ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جو روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ لے، پس اگر اس نے نیکی کی ہو تو اللہ سے اس میں اضافہ طلب کرے اور اس بات پر اللہ کی حمد کرے اور اگر ان نے برائی کی ہو تو اس کے بارے میں اللہ سے معافی مانگے اور اللہ سے توبہ کرے”۔

مرحوم آیت الله حاج میرزا جواد ملکى تبریزى اپنی کتاب المراقبات میں تحریر فرماتے ہیں: اہم کاموں میں سے یہ ہے کہ شریک کی طرح جو کام کے اختتام پر اپنے شریک سے حساب بے باک کرتا ہے، اپنے نفس سے حساب لو اور اپنے سرمائے کو جو  عمر، ایمان اور ماہ رمضان کی برکات اور اس کے نور ہیں، کو مدنظر رکھے اور دیکھے کہ کیا اس کا، اللہ پر، اللہ کے رسولؐ پر، کتاب پر اور اس کی حجتوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان بڑھا ہے یا نہیں؟

اس کا اخلاق جو ان معارف سے جنم لیا ہے، کیسا ہے؟ خوف و امید، صبر، زہد، ذکر خدا کے لئے خلوت کرنا اور وہ تفکر جو باعث انس ہو، وہ معرفت جس کے نتیجہ میں محبت آئے اور وہ محبت جو رضایت، تسلیم اور توحید کی باعث بنے، معرفت کے نور سے جنم لیا ہوا شرح صدر، غیب کو دیکھنے اور مصیبتوں کو برداشت کرنے اور اسرار (رازوں) کو محفوظ کرنے میں اس کے دل کی وسعت کس حد تک ہے؟

کیسے دھوکہ کے عالم میں سکون نہیں لیا اور جاوید عالم کی طرف پلٹ گیا ہے؟

کیا ماہ رمضان اور اس مہینہ کے اعمال کا ان امور پر کوئی اثر پڑا ہے یا نہیں؟

اپنے جسم کے اعضاء کے افعال اور حرکات کے بارے میں غور کرے۔ کیا پہلے کی طرح ہے یا اس بارے میں احکام الہی پر اس نے زیادہ توجہ کی ہے؟

خاص طور پر بات کرنے کے وقت زبان کی حرکت کے سلسلے میں جس چیز کا اس سے تعلق نہیں تھا، فضول، جھوٹ، غیبت، الزام، مومنین کی عزت پامال کرنا، گالی گلوچ، اذیت وغیرہ کی باتیں۔ اگر دیکھے کہ یہ سب چیزیں پہلے کی طرح باقی ہیں تو اسے جان لینا چاہیے کہ اس چیز نے اس بابرکت مہینہ میں اس کے برے اعمال سے جنم لیا ہے اور اس کے گناہوں کا اندھیرا اس چمکتے ہوئے اور ضوء پاش مہینہ کے انوار پر غالب ہوگیا ہے، کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ماہ رمضان کے انوار، لیالی قدر اور قیمتی دعائیں اس کے دل کو روشن کریں لیکن پھر بھی اپنے سابقہ گناہ کو جاری رکھے۔

جس شخص نے ایسا نقصان کیا ہے اسے رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دعا سے ڈرنا چاہیے، جو آنحضرتؑ فرماتے ہیں: “اللہ اس شخص کو جو ماہ رمضان سے نکلے اور نہ بخشا جائے، معاف نہ کریں”، کیونکہ سخت ترین مصیبتوں میں سے ایک یہی ہے۔ اللہ کی مدد سے، اس کی رحمت کی پناہ لینا اور اس کی بارگاہ میں جانا، جبکہ زبان حال سے یہ کہتا ہو کہ

“اے وہ ذات جو بے چارہ کی فریاد سنتا ہے جب وہ تمہیں پکارے اور اس کی مشکل کو برطرف کردیتا ہے!” اپنی اصلاح کرے، اپنے گناہوں پر گریہ کرے اور اس سچے اعتراف کے اثرات اپنے اندر ظاہر کرے اور زبان حال سے کہے: “کوئی خدا تیرے سوا نہیں میں تجھے پاک و منزہ سمجھتا ہوں اور میں ہی ظالم ہوں”۔

کیفیت کی اصلاح کی نشانیوں میں سے ایک نشانی گنہگاروں کی علامت کا پایا جانا اور ان کا خوف اور خداوند متعال سے گناہوں کے برابر مغفرت طلب کرنا ہے۔ اور اگر اس کے نفس کو سستی کی عادت پرگئی ہے کہ اسے استغفار کا حق بجا لانے کے لئے مدد نہ کرسکے تو اسے چاہیے کہ جس دروازے سے شیطان داخل ہوا اور اپنے مقصد تک پہنچا جو وہی ناامید نہ ہونے کا دروازہ ہے

اسی دروازے سے خدا کی بارگاہ میں آئے اور آخرکار اس مہینہ کے آخر میں اسے تمام ان چیزوں کی جو اس نے اپنے دین کی ضائع کی ہیں، تلافی کرے تا کہ عید کے دن اور اللہ سے ملاقات کے لئے اس دن میں تیار ہوجائے اور اس کے فائدوں سے محروم نہ ہوجائے اور اس طریقہ سے ناقابل تلافی نقصان میں جکڑ نہ جائے۔[2]

نتیجہ

محاسبہ نفس یعنی آدمی نیکی اور برائی کا خیال رکھے کہ نیکی کرے اور برائی اس سے سرزد نہ ہونے پائے اور اگر نیکی کرے تو اس میں اضافہ اللہ سے طلب کرے اور اس بات پر اللہ کی حمد کرے اور اگر گناہ سرزد ہوں تو استغفار اور توبہ کرے اور آئندہ خیال رکھے کہ سرزد نہ ہو۔

ماہ رمضان کیونکہ تہذیب نفس کے لئے بہترین موقع ہے تو اس میں نیکیوں اور برائیوں کے سلسلے میں خاس طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ نیکیاں بڑھتی جائیں اور گناہ کا خاتمہ کرتا چلا جائے۔

حوالہ جات

[1] بحارالانوار، ج67، ص72۔
[2] المراقبات، ص100۔

تبصرے
Loading...