ماہ رمضان، دوسرے مہینوں سے افضل مہینہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ دوسرا مضمون ہے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیامُهُ أَفْضَلُ الْأَیامِ وَ لَیالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ”، “ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب مہینوں سے افضل ہے اور اس کے دن سب دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں سب راتوں سے افضل ہیں اور اس کی گھڑیاں سب گھڑیوں سے افضل ہیں”۔

تشریح
ماہ رمضان کی دوسرے مہینوں پر افضلیت
جب ایک جنس کے کئی افراد پائے جاتے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ایک فرد، کچھ صفات کی وجہ سے باقی افراد پر فضیلت اور برتری کا حامل ہو۔ جیسے زمین پر مختلف مقدس جگہیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان میں سے سب سے افضل جگہ مکہ ہے، آسمانی کتابیں سب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، لیکن ان میں سے سب سے افضل قرآن کریم ہے،  سب انبیاء اور مرسلین (علیہم السلام) فضائل اور مقامات کے حامل ہیں، لیکن پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سید الانبیاء و المرسلین ہیں، اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سید الوصیین اور ابوالائمہ (علیہم السلام) ہیں۔
اسی طرح رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خطبہ شعبانیہ میں جو ارشاد فرمایا ہے: “شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ “، “ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب مہینوں سے افضل ہے”، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں ایسی صفات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ماہ رمضان دوسرے مہینوں سے افضل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی دوسرے مقام پر حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: “أمّا سَيِّدُ الشُّهورِ فَشَهرُ رَمَضانَ، وأمّا سَيِّدُ الوَصِيِّينَ فَأَنتَ يا عَلِيُّ”[1]، ” مہینوں کا سید ماہ رمضان ہے، اور وصیوں کے سید آپؑ ہیں یا علیؑ”۔ نیز آپؐ نے ایک اور خطبہ میں فرمایا: شَهرُ رَمَضانَ لَيسَ كَالشُّهورِ ؛ لِما تُضاعَفُ فيهِ مِنَ الاُجورِ[2]، “ماہ رمضان (دوسرے) مہینوں کی طرح نہیں ہے، اس لیے کہ اس مہینہ میں ثواب دُگنے ہوجاتے ہیں۔ ایک اور خطبہ میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: ولا يَكونَنَّ شَهرُ رَمَضانَ عِندَكُم كَغَيرِهِ مِنَ الشُّهورِ؛ فَإِنَّ لَهُ عِندَ اللّه ِ حُرمَةً وفَضلاً عَلى سائِرِ الشُّهورِ”[3]، اور ماہ رمضان تمہاری نظر میں دوسرے مہینوں کی طرح نہ ہو، کیونکہ اس کا اللہ کے نزدیک دوسرے مہینوں کی بہ نسبت احترام اور فضیلت ہے“۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے مسجد کوفہ میں ماہ رمضان کے پہلے دن خطبہ دیتے ہوئے حمد و ثنائے الہی اور صلوات کے بعد ارشاد فرمایا: أيُّهَا النّاسُ، إنَّ هذَا الشَّهرَ شَهرٌ فَضَّلَهُ اللّه ُ عَلى سائِرِ الشُّهورِ كَفَضلِنا أهلَ البَيتِ عَلى سائِرِ النّاسِ“، “اے لوگو! بیشک یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دوسرے مہینوں پر فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیتؑ کو دوسرے لوگوں پر فضیلت دی ہے”۔

ماہ رمضان کے دن، رات اور گھڑیوں کی افضیلت
پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ماہ رمضان کے دن کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا: ولا يَكونَنَّ شَهرُ رَمَضانَ يَومُ صَومِكُم كَيَومِ فِطرِكُم”[4]، ” اور ماہ رمضان میں تمہارے روزہ کا دن، کھانے کے دن کی طرح نہ ہو”۔ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جابر ابن عبداللہ سے فرمایا: يا جابِرُ، هذا شَهرُ رَمَضانَ؛ مَن صامَ نَهارَهُ وقامَ وِردا مِن لَيلِهِ وعَفَّ بَطنَهُ وفَرجَهُ وكَفَّ لِسانَهُ ، خَرَجَ مِن ذُنوبِهِ كَخُروجِهِ مِنَ الشَّهرِ. فَقالَ جابِرٌ : يا رَسولَ اللّه ِ ، ما أحسَنَ هذَا الحَديثَ! فَقالَ رَسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : يا جابِرُ ، وما أشَدَّ هذِهِ الشُّروطَ[5]، “اے جابر! یہ، ماہ رمضان ہے، جو شخص اس کے دن کو روزہ رکھے اور اس کی رات کے کچھ حصہ میں عبادت کے لیے کھڑا ہو اور اپنے پیٹ اور شرمگاہ کو پاک رکھے اور اپنی زبان کو محفوظ رکھے تو وہ اپنے گناہوں سے یوں نکل جائے گا جیسے اس مہینہ سے نکلے گا۔ جابر نے کہا: یارسول اللہؐ! “یہ بات کتنی اچھی ہے” تو رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: “اے جابر! اور یہ شرطیں کتنی مشکل ہیں!”
مسجد کوفہ والا مذکورہ بالا خطبہ جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا، اس میں سے آپؑ کے بعض وہ جملات جو ماہ رمضان کے دن رات سے متعلق ہیں، درج ذیل ان کو ذکر کیا جارہا ہے، آپؑ فرماتے ہیں: وهُوَ شَهرٌ فيهِ لَيلَةٌ نَزَلَتِ المَلائِكَةُ فيها مِنَ السَّماءِ ؛ فَتُسَلِّمُ عَلَى الصّائِمينَ وَالصّائِماتِ بِإِذنِ رَبِّهِم إلى مَطلَعِ الفَجرِ ، وهِيَ لَيلَةُ القَدرِ ؛ قُدِّرَ فيها وِلايَتي قَبلَ أن خُلِقَ آدَمُ عليه السلام بِأَلفَي عامٍ ، صِيامُ يَومِها أفضَلُ مِن صِيامِ ألفِ شَهرٍ ، وَالعَمَلُ فيها أفضَلُ مِنَ العَمَلِ في ألفِ شَهرٍ أيُّهَا النّاسُ ، إنَّ شُموسَ شَهرِ رَمَضانَ لَتَطلُعُ عَلَى الصّائِمينَ وَالصّائِماتِ ، وإنَّ أقمارَهُ لَيَطلُعُ عَلَيهِم بِالرَّحمَةِ ، وما مِن يَومٍ ولَيلَةٍ مِنَ الشَّهرِ إلاّ وَالبِرُّ مِنَ اللّه ِ تَعالى يَتَناثَرُ مِنَ السَّماءِ عَلى هذِهِ الاُمَّةِ ، فَمَن ظَفِرَ مِن نِثارِ اللّه ِ بِدُرَّةٍ كَرُمَ عَلَى اللّه ِ يَومَ يَلقاها ، وما كَرُمَ عَبدٌ عَلَى اللّه ِ إلاّ جَعَلَ الجَنَّةَ مَثواهُ . عِبادَ اللّه ِ ، إنَّ شَهرَكُم لَيسَ كَالشُّهورِ ؛ أيّامُهُ أفضَلُ الأَيّامِ ، ولَياليهِ أفضَلُ اللَّيالي ، وساعاتُهُ أفضَلُ السّاعاتِ“، “اور وہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایسی رات ہے جس میں ملائکہ نے آسمان سے نازل ہوکر، روزہ دار مردوں اور عورتوں کو ان کے پروردگار کے اذن سے طلوع فجر تک سلام دیا اور وہ شب قدر ہے۔ اِس رات میں میری ولایت، آدم (علیہ السلام) کی خلقت سے دو ہزار سال پہلے مقدر ہوئی۔ اس رات کے دن کا روزہ ہزار مہینوں کے روزوں سے افضل ہے اور اس رات میں عمل، ہزار مہینوں کے عمل سے افضل ہے، اے لوگو! بیشک ماہ رمضان کے سورجوں نے روزہ دار مردوں اور عورتوں پر طلوع کیا ہے اور بیشک اس کے چاندوں نے ان پر رحمت کے ساتھ طلوع کیا ہے، اور اس مہینہ کا کوئی دن اور رات نہیں ہے مگر نیکی اللہ تعالی کی طرف سے آسمان سے اِس امت پر نچھاور ہوتی ہے، تو جو شخص، اللہ (کی نعمت) کے نچھاور کرنے سے ذرہ[6] برابر بھی بہرہ مند ہوجائے وہ اللہ کی بارگاہ میں اس کی ملاقات کے دن معزز ہوگا، اور کوئی بندہ اللہ کی بارگاہ میں معزز نہیں ہوتا مگر اللہ جنت کو اس کا ٹھکانہ بنا دیتا ہے۔ اللہ کے بندو! بیشک تمہارا مہینہ دوسرے مہینوں کی طرح نہیں، اس کے دن دوسرے دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں دوسری راتوں سے افضل ہیں اور اس کی گھڑیاں دوسری گھڑیوں سے افضل ہیں”۔
“أيُّهَا الصّائِمُ ، تَدَبَّر أمرَكَ ؛ فَإِنَّكَ في شَهرِكَ هذا ضَيفُ رَبِّكَ ، اُنظُر كَيفَ تَكونُ في لَيلِكَ ونَهارِكَ؟ وكَيفَ تَحفَظُ جَوارِحَكَ عَن مَعاصي رَبِّكَ؟ اُنظُر ألاّ تَكونَ بِاللَّيلِ نائِما وبِالنَّهارِ غافِلاً ؛ فَيَنقَضِيَ شَهرُكَ وقَد بَقِيَ عَلَيكَ وِزرُكَ”، “اے روزہ دار! اپنے کام کے بارے میں غور کرو، کیونکہ بیشک تم اپنے اس مہینہ میں اپنے پروردگار کے مہمان ہو، غور کرو کہ اپنی رات اور دن میں کیسے رہتے ہو؟ اور کیسے اپنے (اعضاء و) جوارح کو اپنے رب کی نافرمانیوں سے بچاتے ہو؟ غور کرو کہ رات کو سوئے نہ رہو اور دن کو غافل نہ رہو کہ تمہارا مہینہ گزر جائے اور تمہارا (گناہوں کا) بوجھ تم پر باقی رہ جائے”۔
“أيُّهَا الصّائِمُ ، تَقَرَّب إلَى اللّه ِ بِتِلاوَةِ كِتابِهِ في لَيلِكَ ونَهارِكَ”[7]، “اے روزہ دار!  اللہ کا تقرب پاؤ، اپنے رات اور دن میں اس کی کتاب کی تلاوت کرنے کے ذریعہ”۔

ماہ رمضان کی دیگر مہینوں پر افضلیت کی وجوہات
ماہ رمضان کی افضلیت کی وجوہات آیت اللہ ناصری (دام ظلہ العالی) کے بیانات سے یوں ماخوذ ہیں کہ ماہ رمضان میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شہادت، حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی ولادت، جناب خدیجۃ الکبری (سلام اللہ علیہا) کی وفات اور شب قدر کا پایا جانا ایک طرف سے اور دوسری طرف سے سب آسمانی کتب اس مہینہ میں نازل ہوئی ہیں، مثلاً صحف ابراہیمؑ ماہ رمضان کی پہلی رات کو نازل ہوئے ہیں، توریت چھٹی رات کو نازل ہوئی، انجیل تیرہویں رات کو نازل ہوئی، زبور اٹھارہویں رات کو نازل ہوئی اور اس مہینہ کا اہم ترین واقعہ قرآن کریم کا نزول ہے۔[8]

نتیجہ: انسان کی زندگی میں کچھ ایسے اوقات پیش آتے ہیں جن کا دوسرے اوقات سے بہت فرق ہوتا ہے، تو انسان ان قیمتی اوقات کو غنیمت سمجھ کر اس کے لمحہ لمحہ سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسی طرح ماہ رمضان وہ قیمتی مہینہ ہے جس کی ہر گھڑی قیمتی ہے، اس میں نیک اعمال انجام دے کر اس کے لمحوں سے بہترین فائدہ حاصل کرنا چاہیے اور کیونکہ یہ اللہ کا خاص مہینہ ہے تو خیال رکھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو، اس لیے کہ ہم اس مہینہ میں اللہ کے مہمان ہیں، تو ایسا نہ ہو کہ مہمان، میزبان کی نافرمانی کرتا ہوا اس کی رحمت سے اپنے آپ کو محروم کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] ماہ خدا، محمدی ری شہری، ج1، ص176 بنقل از: فضائل الأشهر الثلاثة۔
[2] فضائل الأشهر الثلاثة، ص 100، ح 86۔
[3] فضائل الأشهر الثلاثة، ص 95، ح 78۔
[4] فضائل الأشهر الثلاثة، ص 95، ح 78۔
[5] الكافي، ج 4، ص 87، ح 2۔
[6] حدیث میں لفظ “درّة” آیا ہے، لیکن لگتا ہے کہ در اصل، “ذرّة ” تھا اور اس کا نقطہ گر گیا ہے، کیونکہ لفظ “درّة” کے یہاں پر مناسب معنی نہیں ہیں۔ (ماہ خدا، محمدی ری شہری، ج1، ص177)۔
[7] ماہ خدا، محمدی ری شہری، ج1، ص176 بنقل از: فضائل الأشهر الثلاثة۔
[8] http://hawzahnews.com/TextVersionDetail/416650

تبصرے
Loading...