قریش کی شہرت جناب ہاشم کے کردار سے

خلاصہ: بعض عظیم شخصیتوں کا کردار ایسا ہوتا ہے کہ پورے قبیلہ کی شہرت کا باعث بنتے ہیں۔ حضرت ہاشم ابن عبدالمطلب وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے اچھے کردار سے قبیلہ قریش کو مزید شہرت ملی۔

قریش کی شہرت جناب ہاشم کے کردار سے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب ہاشم نے اپنے والد جناب عبدمناف کے بعد عزت، عظمت اور شہرت پائی۔ آپ کا چہرہ نورانی اور روشن تھا، اور آپ حسب و نسب اور مکارم اخلاق کے لحاظ سے قبیلہ قریش کے سب افضل شخص تھے۔ آپ عظیم شخصیت، سخی اور مہمان نواز تھے اور سخاوت میں آپ کا چرچا عام تھا۔ آپ کے والد کی وفات کے بعد سقایت (حاجیوں کو پانی کی فراہمی) اور رفادت (حاجیوں کو کھانے کی فراہمی) کے دو منصب ملے۔
جناب ہاشم بیت اللہ الحرام کے زائرین سے تعاون کرنے کے لئے بہت کوشاں تھے۔ آپ اہل مکہ کو حاجیوں کے احترام کرنے کی ترغیب دلاتے تھے تاکہ لوگ اللہ کے گھر کے زوّاروں کی جو مدد کرسکتے ہیں، کریں۔[1] قریش اپنے مال کا کچھ حصہ جناب ہاشم کے حوالے کرتے تھے تاکہ آپ زوّاروں کی مدد میں خرچ کریں۔[2] آپ نے قریش کے حق میں بہت سارے احسان کیے اور سردی اور گرمی کے موسم کے تجارتی قافلوں کی بنیاد رکھی جن کا تذکرہ قرآن کریم نے سورہ قریش میں فرمایا ہے، اور قیصر سے قافلوں کے لئے امان نامہ بھی فراہم کروایا۔[3] آپ نے حبشہ کے حاکم نجاشی کو خط لکھتے ہوئے اس سے چاہا کہ قریش تجارتی امور کے لئے اس کے زیرحکومت علاقوں میں داخل ہوسکیں۔[4]
ابن عباس کا کہنا ہے کہ جب قریش مشکل اور بھوک میں وقت گزار رہے تھے تو جناب ہاشم نے ان کو اکٹھا کیا اور کام اور تجارت سے واقف کیا۔[5]
ظاہراً جناب ہاشم اس رواج کی بنیاد رکھنے والے تھے کہ ہر قریشی تاجر، اپنی آمدنی ایک غریب کے ساتھ تقسیم کرے۔ اس طریقہ کار سے سب غرباء، مالداروں کی طرح مالدار ہوگئے۔ یہ طریقہ کار ظہورِ اسلام تک جاری رہا، لہذا عرب کے قبائل میں کوئی قبیلہ، قریش کی طرح مالدار اور باعزت نہیں تھا۔[6]
آپ نے پانی پہنچانے کی ذمہ داری کو بہتر ادا کرنے کے لئے مکہ میں دو کنویں کھودے: “بذّر” اس کا پانی سب لوگوں کے لئے وقف کردیا، اور “سجلۃ” جو کتنے عرصے تک قبیلہ مطعم بن عدی ابن نوفل کے زیراستعمال رہا۔[7] قریش والے جناب ہاشم کی راہنمائیوں اور ان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پرسکون زندگی سے لطف اندوز ہوئے۔[8]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] نہایۃ الارب، ج16، ص34۔
[2] المنمق، ص11-12۔
[3] یعقوبی، ج1، ص243۔
[4] ابن سعد، الطبقات، ج1، ص78۔
[5] مجمع البیان، ج۱، ص546۔
[6] فخر رازی، التفسیر الکبیر، ج32، ص100۔
[7] ابن هشام، السیرة النبویة، ج1، ص149۔
[8] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج15، ص202۔

تبصرے
Loading...