عمر کا حضرت زہراء کو طمانچہ مارنا

طبری  دلائل الامامۃ میں لکھتا ہے کہ عمر نے معاویہ کو خط لکھا جس میں بیان کیا کہسقیفہ بنی ساعدہ میں اور بیعت ابوبکر کے لیے ہم نے فاطمہ بنت رسول کے ساتھ کیسا سلوک کیا:

 ہم فاطمہ کے گھر گئے فاطمہ علیھا السلام دروازے کے پیچھے تھیں تو میں نے کہا کہ اگر علی باہر نہ آئے تو ہم اس گھر کو آگ لگا دیں گے اور گھر والوں کو جلا دیں گے علی کو بیعت کے لیے مسجدکی  طرف کھیچ کر لے جائیں گے، تب میں نے خالد بن ولید سے کہا تم اور مروان جاؤ لکڑیاں لے آؤ، میں نے فاطمہ سے کہا میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔

اسی وقت انہوں نے ہاتھ سے دروازے کو دبایا تاکہ مجھے دروازے سے دور کریں، میں نے ہاتھ پر تازیانے مارے تو وہ زور زور سے رونے لگیں تاکہ میرا دل نرم ہو اور منصرف ہو جاوں لیکن بغض علی یاد آیا تو پاوں سے ایسی ٹھوکر ماری کہ چیخ بلند ہوئی اور آواز دی یا ابتاه! یارسول الله! هکذا یُفعل بحبیبتک وا بنتک، آه! یا فضَّةُ الیکِ فخذینی فقدوا… قُتِلَ ما فی احشائی من حملٍ۔
یا رسول اللہ آؤ دیکھو تمھاری بیٹی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے فضہ آؤ میری مدد کرو میرا محسن شھید ہو گیا۔ پھر بھی میں نے زور سے دھکہ دیا، دروازہ کھلا جب گھر میں داخل ہوا تو دیکھا زمین پر گری ہوئیں تھیں، اسی حالت میں اٹھیں تو میں نے ایسا طمانچہ مارا کہ زمین پر جا گری ۔[1]

 خصیبی (الہدایۃ الکبری ) بحرانی(العوالم) اور اسی طرح بہت سارے روایوں نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:
عمر نے ایسی لات ماری کہ دروازہ  فاطمہ کے پہلو پر گرا ، اس حال میں کہ چھ ماہ کا بچہ کہ جس کا نام محسن تھا ساقط ہو گیا۔
اس وقت عمر،قنفذ،خالد بن ولید اندر آئے، عمر نے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو پہر ایسا طمانچہ مارا کہ گوشوارہ ٹوٹ گیا اور فاطمہؐ کی چیخ بلند ہوئی کہا: ابتاه، وا رسول الله!! ابنتک فاطمة تکذّب و تضرب و یقتل جنین فی بطنها.
ہائے بابا، یا رسول اللہ ،تیری بیٹی کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں اسے مارتے ہیں اس کے بیٹے کو شکم میں قتل کرتے ہیں ۔
امیر المؤمنین نے اس وقت فضہ سے کہا: اپنی آقا زادی فاطمہ کی مدد کرو ایسے جیسے حاملہ عورتوں کی مدد کی جاتی ہے کیونکہ عمر نے جو لات ماری ہے اس سے فاطمہ کا محسن شھید ہو گیا ہے ۔

راوی کہتا ہے :امام صادق علیہ السلام اس طرح  سے رو رہے تھے کہ آپؑ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئ ۔[2]

شیخ صدوق  نے (الامالی ) میں امیرالمؤمنین علیہ السلام  سے پیغمبر (ص) کی حدیث نقل کی :
فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ پیغمبر (ص) کے پاس گئے تو جیسے ہی پیغمبر (ص) کی نگاہ ہم پر پڑی تو رونا شروع کر دیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہوا ؟
فرمایا: أبکی من ضربتک علی قرن، و لطم فاطمه سلام الله علیها خدّها
تمھاری پیشانی پر تلوار کی ضربت اور فاطمہ کے چہرے پر دشمن کے طمانچے کو یاد کر کے رو رہا ہوں ۔[3]

حضرت زهرا سلام الله علیها اس طرح بیان فرماتی ہیں :
میرے دروازے پر لکڑیاں لے کر جمع ہوئے تاکہ ہمیں اور ہمارے گھر کو جلا دیں ۔ میں دروازے پر کھڑی خدا اور پیغمبر کا واسطہ دیتی رہی لیکن عمر نے قنفذ سے تازیانہ لیا اور مجھے مارنے لگایہاں تک کہ میرے بازو  پر ورم آگیا۔
پھر اس نے دروازے کو لات مار کر مجھ پر گرا دیا  اور میں حاملہ تھی اسی حالت میں زمین پر جا گری  جبکہ آگ شعلہ ور تھی اور میرےرخسار  زمین پر تھےاور اس نےمیرے چہرے پر طمانچہ مارا،میرا گوشوارا ٹوٹ گیا میرا محسن شھید ہو گیا ۔[4]

 شیخ مفید لکھتے ہیں:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی الله علیه وآله اس دنیا سے رخصت ہوئے، ابوبکر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا  اور کسی کو نمائندہ بنا کر فدک میں بھیجا اور اس نے نمائندۂ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو وہاں سے نکال دیا پھر فاطمہؐ اس کے پاس آئیں اور کہا اے ابوبکر تم میرے بابا کی جانشینی کا دعوی کرتے ہو اور ان کی جگہ پر بیٹھے ہو، میرے نمائندہ کو وہاں سے کیوں نکالا جبکہ تم جانتے ہو کہ فدک میرا حق ہے اور میرے پاس گواہ بھی ہیں، پھر علی علیہ السلام نے فرمایا:اے فاطمہ جاؤ ابوبکر سے کہو کہ فدک میرا حق ہے اور اگر نہ بھی ہوتا تو تم مجھے دے دیتے میرے بابا کے احترام میں ، پس جب فاطمہ علیھا السلام ابوبکر کے پاس گئیں اور ان کلمات کو کہا تب ابوبکر نے جواب دیا : ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو وہ سند مجھے دو اور اس سند پر لکھ دیا ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں فاطمہ سلام اللہ علیھا وہاں سے باہر آئیں  تو عمر نے روک لیا اور کہا : اے بنت رسول اس سند کو مجھے دو فاطمہ نے کہا یہ سند مجھے ابوبکر نے دی ہے، پھر کہا کہ مجھے دو اسے، فاطمہ نے انکار کیا تو عمر نے ان کے پیٹ پر لات ماری  اور محسن شھید ہو گیا، جب اٹھیں تو ایسا طمانچہ مارا کہ گوشوارا ٹوٹ گیا رخسار نیلے ہو گئے ۔یہی وجہ تھی کہ زیادہ دن زندہ نہ رہ سکی اور اسی درد کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔[5]

 

منابع

[1] طبری، دلائل الامامه، ج 2؛  شیخ عباس قمی, بیت الأحزان،‌ص 96 و 97
[2] خصیبی، الهدایه الکبری، ص 408، بحرانی، العوالم، ج 11، ص 442
[3] امالی شیخ صدوق, ص 198 ،: ابن شهر آشوب در مناقب آل ابی طالب ج 2, ص 51؛ ابن نما حلی در ذوب النضار ص 11؛ علامه مجلسی در بحار الانوار ج 44, ص 149.
[4] محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعه، ج 1، ص 271
[5] الاختصاص , الشیخ المفید , ص 183

تبصرے
Loading...