عظمت حضرت زینب سلام اللہ علیھا(۱)

مقدمہ

روایتی راہوں سے حضرت زینب کو پہنچاننا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے۔ کیونکہ کسی کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسکی زندگی کے تمام پہلوئوں سے پر احاطہ رکھتے ہوں، مگر ایسی عظیم ھستی جو زندگی کے ہر شعبہ مں بے نظیر اور بے مثل ہو، سمجھنے کے لئے اسکی زندگی کے ہر گوشہ اور پہلو پر تسلط رکھنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ قوت امکانی سے خارج ہے۔
لہٰذا ہم اس طرح کی شخصیت کو اسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب کسی ایسی ذات کے ذریعے اسکو پہنچانیں جو آپ کی زندگی کے تمام پہلوئوں سے آگاہ ہو اور ایسی ذات صرف ائمہ اطہارؑ کی ہوسکتی ہیں جو علم لدنی کے مالک ہیں جن کے علم کی معراج یہ ہوتی ہے ”لو كشف‏ الغطاء لما ازددت يقينا”[1] کے مصداق بن جاتے ہیں، جن کے دل میں علم کا اس قدر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے کہ منبروں پر اعلام عام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ” سَلُونِي‏ سَلُونِي‏ قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي‏”[2] یہی وہ حضرات ہیں جو کسی اعلیٰ شخصیت کو سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں اس لئے کہ قدر گوہر کو جوہری ہی سمجھ سکتا ہے۔
ہم آپ کی عظمت میں صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ اس عالی مقام امام کی بیٹی ہیں جس کا کلام انسان کی دنیوی اور اخروی سعادت پر مشتمل ہے اور قیامت تک لوگوں کے چیلنج اور ہادی ہے۔آپ دختر نبی کی بیٹی تھیں جس کا کوئی ثانی نہیں ہے، آپ نے تاریخ میں ایسے کردار پیش کئے کہ لوگ تو درکنار ائمہ علیھم السلام نے بھی آپ کو ثانی زہرا کے لقب سے یاد فرمایا۔
آپ ان بھائیوں کی چہتی بہن تھیں جو نواسہ رسول ﷺ ہونے کے ساتھ ساتھ محافظ دین اسلام بھی تھے آپ ان کے شانہ بشانہ رہ کر اسلام کی خصوصاً اپنے بھتیجہ امام سجادؑ کی حفاظت کی اور امام حسین کی شہادت کے بعد پیغام حسینی کی محافظ بن کر رہتی دنیا پر احسان کر گئیں، اسی لئے جب خدا و رسول اور ائمہ اطہارؑ کا ذکر ہوتا ہے ساتھ میں آپ کا بھی ذکر خیر ہوتا ہے۔

آپ کی عظمت کو اجمالاً بیان کرنے کے لئے آپ آپ کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ۱۔ عظمت حضرت زینب کربلا سے پہلے، ۲۔ آپ کی عظمت کربلا میں اور ۳۔ آپ کی عظمت کربلا کے بعد۔ مگر مقالہ ھذا کی ظرفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم  ”آپ کی عظمت بچپنے کے عالم میں ”بیان کریں گے۔

الف: ولادت اور آسمانی نام۔

بعثت کے پانچویں سال خداوند کریم نے رحمۃ العالمین کو اپنے خزانۂ  قدرت سے ایک بیٹی عطا کی، یوں تو خدا نے آپ کو کو بیٹوں کی نعمت سے بھی نوازا تھا مگر بعض مصلحت کی بناء پر کچھ مہینہ یا چند سال کے بعد انہیں واپس لے لیا تھا۔ مگر بیٹی کی محبت خدا نے آپ کے دل میں اس طرح ودیعت فرمائی تھی کہ آپ کو کبھی بیٹوں کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا رحمۃ اللعالمین نبی کے گھر میں رحمت بن کر نازل ہوئیں تھیں، آپ نے بھی اپنے شفیق پدر بزرگوار کو اس قدر مھر و الفت سے نوازا کہ انہیں آپ کو ’’ام ابیھا‘‘(باپ کی ماں)کے لقب سے نوازنا پڑا، آپ کی محبتیں رسول پر اس قدر اثر انداز ہوئیں کہ حبیب خدا کو ’’فاطمۃ بضعۃ منی‘‘ کی حدیث ارشاد فرمانا پڑی ، اور محبت اس حد کمال تک پہونچ چکی تھی کہ رسول جب آپ کا دیدار نہیں کر لیتے تھے سکون نہیں ملتا تھا اسی لئے ہر روز ’’ السلام علیک یا فاطمۃ الزہراء‘‘ کی آواز ’’وما ینطق عن الھویٰ‘‘ کے لبہای مبارک سے نکلتی تھی اور مدینہ کی فضا کو معطر کر دیتی تھی۔

اس مہر محبت کا مشاہدہ علیؑ بھی فرمارہے تھے، باپ بیٹی کی محبتوں کا بے مثال نمونہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ لہٰذا آپ بھی ایک بیٹی کے منتظر تھے ایسی بیٹی کہ جو آپ کو اتنی مہر و الفت سے نوازے کہ جسے آپ خود ایسے لقب سے ملقب کریں کہ جو ام ابیھا کی عکاسی کرسکے، ایسی بیٹی جو دین کی پاسباں ہو، آپ کی آنکھوں کا نور ہو اور دل کا سکون ہو، جو عصمت کبریٰ پر جائز زہرا نہیں تو عصمت صغریٰ پر فائز ثانی زہراء ہو، جسمیں آپ کا لہجہ ہو، صبرہو اور شجاعت ہو۔

کچھ مہینہ بعد آپ کی انتظار کی گھڑی ختم ہوگئی، سن 6/ہجری ۵جمادی الاول کو پنجتن ؑ کے نور سے منور بیت الشرف میں ایک دختر نیک اختر نور علی نور بن کر آئیں، یہ بیٹی جہاں رحمۃ اللعالمین کی نواسی تھی وہیں رحمۃ اللعالمین کے داماد کے لئے رحمت ہونے کے ساتھ ساتھ خود دختر نبی کے لئے بھی رحمت بن کر آئی ، علی نے سوچا تھا کہ اپنی بیٹی کو ایسا نام دیں گے جو ام ابیھا کی عکاسی کرے مگر ’’رسول ﷺ کے احترام نے آپ کو اس کام سے باز رکھا، رسول علی کی چہتی بیٹی کی ولادت کے معقع پر سفر پرتھے، لہٰذا آپ نے ان کا انتظار فرمایا، جب رسول مدینہ تشریف لے آئے تو آپ نے رسولﷺ کو اپنی رحمت کی آمد سے مطلع کیا اور رسول سے نام گذاری کی درخواست کی‘‘[3]آپ گھر میں تشریف لائے، حضرت علی اپنی بیٹی کی آمد پر بہت خوش تھے خصوصاً رسول کی ﷺ کی زبان سے ایسے نام کو جو واقعاً ام ابیھا کی عکاسی کر رہاتھا سن کر شیر خدا کی خوشی میں اضافہ ہوگیا، اور آپ کی خوشی میںاس وقت  چار چاند گئے جب زبان وحی سے یہ الفاظ سنے کہ ’’اس کا نام میں نے نہیں رکھا ہے بلکہ جبریل نے مجھ پر درود و سلام کے بعد کہا ہے کہ خدا نے اس بچی کا نام لوح محفوظ پر زینب (باپ کی زینت)رقم کیا ہے‘‘[4]
آپ کی عظمت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رسول جو وحی الہی کے بغیر زبان نہیں کھولتےاور بغیر مرضی الہی کے کلام نہیں کرتے انہوں نے آپ کا نام رکھا ٹھیک اسی طرح جس طرح امام حسن و حسین کا رکھا تھا یعنی جس طرح حسنین شریفینؑ کے نام خدا کی جانب سے تھے اسی طرح سے آپ کا نام بھی من جانب اللہ تھا۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1] منھاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، ج13، ص136۔

[2] بحار الانوار، ج۳۶، ص 400۔

[3] ریاحین الشریعہ، ج۲، ص38۔

[4] ریاحین الشریعہ، ج۲، ص 38۔

تبصرے
Loading...