سید البطحاء حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے عظیم تاریخی کارنامے

خلاصہ: تاریخ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے مختلف بنیادی کارناموں کی گواہی دیتی ہے۔ آپؑ کے بعض کارنامے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالی نے اسلام میں بھی جاری کیا۔ بعض آپؑ کے موحد ہونے پر دلیل ہیں اور بعض کارنامے اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ آپؑ اللہ کے دین کے محافظ تھے۔

سید البطحاء حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے عظیم تاریخی کارنامے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

واضح ہے کہ انسان کی روح جتنی طاقتور ہو پھر بھی کچھ حد تک معاشرے کا رنگ پکڑ لیتی ہے اور سماج کی عادات و رسوم اس کی سوچ پر اثرانداز ہوجاتی ہیں، لیکن بعض اوقات ایسے مرد دکھائی دیتے ہیں جو کمالِ شجاعت کے ساتھ معاشرے کے گمراہ کن لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ کرلیتے ہیں اور لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتے ہوئے معاشرے کو اصلاحی پہلو اور اخلاقی اقدار پر گامزن کرتے ہیں اور ایسے کارنامے رونما کرتے ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کی جدوجہد کے اثرات باقی رہتے ہیں، بلکہ بعض شخصیات ایسے بنیادی کام کرجاتے ہیں کہ ان کی محنتوں کے اثرات خون کی طرح پورے عالمِ اسلام اور انسانی حیات کی رگوں میں دوڑتے رہتے ہیں۔ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) وہ باعزت اور شہرہ آفاق عظیم شخصیت ہیں جن کی کوششوں اور محنتوں نے صبح قیامت تک کی رہتی دنیا میں روحِ حیات پھونک دی، جن کی جدوجہد سے سرور کائنات اور اللہ کے سب سے افضل عبد اور رسولؐ پرورش پائے، رسالت الہیہ منزل مقصود تک پہنچی، بشریت، معراج انسانیت پر پہنچی اور فرش نشیں عرشی مخلوق، نفسِ مطمئنّہ کا خطاب سنتی ہوئی اپنے عرشی مقام کی طرف پلٹ گئی۔ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے کئی کارناموں میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کی پانچ سنتیں جنہیں اللہ نے اسلام میں جاری کیا: شیخ صدوق (علیہ الرحمہ) نے کتاب خصال میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: يَا عَلِيُّ إِنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ سَنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خَمْسَ سُنَنٍ أَجْرَاهَا اللَّهُ لَهُ فِي الْإِسْلَامِ حَرَّمَ نِسَاءَ الْآبَاءِ عَلَى الْأَبْنَاءِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ‏ عَزَّ وَ جَلَّ “وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء[1]، وَ وَجَدَ كَنْزاً فَأَخْرَجَ مِنْهُ الْخُمُسَ وَ تَصَدَّقَ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ” وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ الْآيَةَ [2] وَ لَمَّا حَفَرَ زَمْزَمَ سَمَّاهَا سِقَايَةَ الْحَاجِّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ[3] الْآيَةَ وَ سَنَّ فِي الْقَتْلِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ فَأَجْرَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ذَلِكَ فِي الْإِسْلَامِ وَ لَمْ يَكُنْ لِلطَّوَافِ عَدَدٌ عِنْدَ قُرَيْشٍ فَسَنَّ فِيهِمْ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ سَبْعَةَ أَشْوَاطٍ فَأَجْرَى اللَّهُ ذَلِكَ فِي الْإِسْلَامِ”،[4] “یا علیؑ! بیشک عبدالمطّلبؑ نے جاہلیت (کے زمانہ میں) پانچ سنتیں قائم کیں، اللہ نے ان سنتوں کو اسلام میں جاری کیا، عبدالمطّلبؑ نے باپ کی بیوی  کو بیٹوں پر حرام قرار دیا تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی: “اور خبردار جن عورتوں سے تمہارے باپ دادا نے نکاح (جماع) کیا ہے ان سے نکاح نہ کرنا” اور انہوں نے خزانہ پایا تو اس کا خمس نکالا اور صدقہ دیا تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت) نازل فرمائی: “اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ…”، اور جب زمزم (کا کنواں) کھودا تو اس کا نام سقایۃ الحاج رکھا، تو اللہ نے (یہ آیت) نازل فرمائی: “کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس کا جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے…”، اور انہوں نے قتل کی دیت سو اونٹ قرار دیئے تو اللہ عزوجل نے اس سنت کو اسلام میں جاری کیا، اور قریش کی نظر میں طواف کی تعداد (مقرر) نہیں تھی تو عبدالمطّلبؑ نے ان کے لئے سات چکر قرار دیئے تو اللہ نے اس کو اسلام میں جاری کیا”۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرپرستی: ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ رسم یہ تھی کہ عبدالمطّلبؑ کے لئے خانہ کعبہ کے پاس خاص قالین بچھایا جاتا تھا اور آپؑ کے بیٹے اس قالین کے اطراف پر  بیٹھ جاتے تا کہ عبدالمطّلبؑ آجائیں، اور آپؑ کے احترام کی خاطر اس قالین پر کوئی شخص نہیں بیٹھتا تھا۔ بعض اوقات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اس وقت بچپن میں تھے آکر اس قالین پر بیٹھ جاتے تھے، آپؐ کے چچے جب آپؐ کو قالین پر بیٹھے ہوئے دیکھتے تو آپؐ کو پکڑ لیتے تا کہ اس قالین سے دور کردیں، لیکن عبدالمطّلبؑ جب اس منظر کو دیکھتے تو ان سے فرماتے: “دعوا ابني فوالله ان له لشائا “، “میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم! یقیناً اس کا عظیم مقام ہے”، پھر آپؑ آنحضرتؐ کو اپنے پاس اس خاص قالین  پر بٹھا لیتے اور آنحضرتؐ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آنحضرتؐ کی حرکات اور کردار سے خوش ہوتے تھے۔[5]
زمزم کے کنویں کو کھودنا: جب سے زمزم کا کنواں نمودار ہوا، “جرہم” کا گروہ اس کے اردگرد اکٹھا ہوگیا اور کئی سالوں تک ان کے پاس جب مکہ کی حکومت تھی، اس کنویں سے فائدہ اٹھاتے رہے، لیکن مکہ کی تجارت کے رائج ہونے، لوگوں کی خوش اوقاتی اور لاپرواہی باعث بنی کہ آہستہ آہستہ زمزم کا پانی خشک ہوگیا۔کہا گیا ہے کہ کیونکہ قبیلہ جرہم کو قبیلہ خزاعہ کی طرف سے دھمکی دی گئی تو وہ مجبور ہوگئے کہ اپنے وطن کو چھوڑ دیں، جرہم کے بڑے اور معروف شخص “مضاض ابن عمرو” نے یقین کرلیا کہ عنقریب حکومت کی باگ ڈور کھو بیٹھے گا اور اس کی حکومت دشمن کے حملوں سے تباہ ہوجائے گی۔ اسی لیے اس نے حکم دیا کہ سونے کی دو ہَرَن اور تلواروں کے چند قیمتی قبضے جن کو کعبہ کے لئے ہدیہ کے طور پر لائے تھے، کنویں کی گہرائی میں رکھ دیں، پھر کنویں کو مکمل طور پر بھر دیں تا کہ دشمن اس جگہ کو معلوم نہ کرپائے اور اگر دوبارہ کھوئی ہوئی حکومت اور تخت کو حاصل کرپائے تو اس خزانہ کو استعمال کریں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد خزاعہ کے حملے شروع ہوگئے اور قبیلہ جرہم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بہت ساری اولاد مکہ کی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی اور یمن چلے گئے اور پھر ان میں سے کوئی مکہ واپس نہ آیا۔ اِس تاریخ کے بعد مکہ کی حکومت قبیلہ خزاعہ کے پاس آگئی یہاں تک کہ “قصی ابن کلاب” (پیغمبر اسلامؐ کے چوتھے جد) کے بروئے کار آنے سے قریش کے بخت کا ستارہ، زندگی کے آسمان میں چمک اٹھا۔ کچھ مدت کے بعد امور کی ذمہ داری حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کو ملی۔ آپؑ نے زمزم کے کنویں کو دوبارہ کھودنے کا ارادہ کیا، لیکن زمزم کے کنویں کی جگہ بالکل واضح نہیں تھی۔ آپؑ بہت تلاش کے بعد اس کی حقیقی جگہ سے مطلع ہوئے اور اپنے بیٹے حارث کے ساتھ کنویں کو کھودنے کی مقدمات فراہم کرنے کا ارادہ کیا۔[6]  تاریخی نقل کے مطابق آپؑ نے زمزم کے کنویں کو کھودا اور پانی تک پہنچ گئے۔ اس کے بعد لوگ اور کعبہ کے زائرین زمزم کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے تبرک کے طور پر لیتے اور پانی کے دوسرے کنووں کو نظرانداز کردیا۔
اصحاب فیل کا واقعہ: ابرہہ نے کعبہ کی تخریب کے لئے مکہ پر حملہ کیا۔ اس کے لشکر نے قریش کے اونٹوں کو چرا لیا۔ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) اپنے چند بیٹوں کے ساتھ ابرہہ کی طرف روانہ ہوئے، ابرہہ قریش کے سردار عبدالمطّلب (علیہ السلام) کی وقار، عظمت اور بزرگی سے تعجب کرنے لگا، یہاں تک کہ تخت سے اتر آیا اور حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا۔ حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) نے صرف اپنے اونٹوں کی رہائی طلب کی تو ابرہہ نے کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ تم کعبہ کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے آئے ہو، جناب عبدالمطّلب (علیہ السلام) نے فرمایا: “أنا ربّ الإبل؛ وللبيت ربّ يمنعه”، “میں اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا اپنا مالک ہے جو اسے نقصان سے بچائے گا”۔ رات کے وقت حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا مانگی۔ صبح کے وقت جب ابرہہ اور اس کی فوج مکہ کی طرف روانہ ہونے لگی تو اچانک پرندوں کے گروہ دریا کی طرف سے ظاہر ہوئے جو ہر ایک اپنی چونچ اور پاوں میں کنکریاں لیے ہوئے تھے، ان پرندوں نے اللہ کے حکم سے ابرہہ کے لشکر پر کنکریوں کی برسات کی، اسے یقین ہوگیا کہ اللہ کے قہر و غضب نے اس کا احاطہ کرلیا ہے، اس نے اپنی فوج کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ان کے جنازے درختوں کے پتوں کی طرح گرے پڑے ہیں، ان کنکریوں میں سے ایک کنکری ابرہہ کے سر پر جا لگی، خوف و ہراس نے اس کے سارے بدن کو گھیر لیا، جب وہ صنعاء پہنچا تو اس کے بدن کا گوشت گر گیا تھا اور اس کی موت عجیب انداز میں ہوئی۔
نتیجہ: حضرت عبدالمطّلب (علیہ السلام) کے کارنامے اسلام کےلئے بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔ آپؑ کی رکھی ہوئی سنتوں کو اللہ تعالی نے اسلام میں بھی جاری کردیا۔ آپؑ نے خاتم المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش کا شرف حاصل کیا، آپؑ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا یادگار زمزم کا کنواں انتہائی محنت کے ساتھ کھودا جسے تاریخ میں فراموش کیا جارہا تھا،نیز  آپؑ نے ابرہہ کے سامنے ایسا موقف اختیار کیا جس سے آپؑ کا موحد اور توحیدشناس ہونا بالکل ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ کارناموں کے علاوہ بھی آپؑ کے دیگر کارنامے پائے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ نساء، آیت 22.
[2] سورہ انفال، آیت 41.
[3] سورہ توبہ، آیت 19.
[4] خصال، شیخ صدوق، ج۱، ص 312.
[5] سيره ابن هشام، ج 1، ص 168.
[6] تاريخ يعقوبى، ج 1، ص 206؛ ابن هشام، ج 1، ص 45.

تبصرے
Loading...