زیارت اربعین کی عرفانی تعلیمات

 امام خداوندمتعال کی صفات اور اسماء کا وہ آئینہ ہے کہ جس میں جمال اور جلال الھی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ آئینے کی ایک خصوصیت اس کی شفافیت ہوتی ہے کہ خود اس میں کوئی چیز نہیں ہوتی جو چیز اس کے سامنے آئے گی وہی دکھائے گا اور اس کو دکھانے میں بخل اور کنجوسی سے کام نہیں لیتا ۔ کیونکہ معصومین علیھم السلام بھی اس شفاف آئینہ کی طرح ہیں اور قول و فعل میں وہ جمال و جلال خداوندمتعال کے آئینہ دار ہیں ۔خلیفہ خدا ،امام اور دین کے پیشوا اور حجت خدا کا یہی معنی ہے  ۔

خدا کا خلیفہ خدا وندمتعال کی عظمت و جلال وجمال  جمال و جلال الھی کا آئینہ تام بھی ہے  اور خداوندمتعال  کی صفات اور  اسماء کا مظہر بھی ۔ وہ اسماء الھی کا دروازہ بھی ہے اور اسمای الھی کی حقیقت سے آشنا بھی ۔۔اسی وجہ سے انسان اور دوسری مخلوقات اس کے قریب ہوتی ہیں در حقیقت وہ خدا کے نزدیک ہوتی ہیں کیونکہ امام خدا تک پہنچنےکا ایک پل اور وسیلہ اور گمراھی اور جہالت سے دوری کا نام ہے ۔اسی لیے زیارت میں آیا ہے :” و منح الفصح بذل بھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجھالہ و حیرہ الضلالہ”۔

قرآن مجید اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی جو دینی احکامات بیان کیے گئے ہیں  ۔ فروع دین جیسے نماز، روزہ ، حج و دوسرے واجبات ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف قربت خداوندمتعال ہے ۔ دوسری طرف سے یہی قرآن اور سنت نے  امام کو خلیفہ کے عنوان سے یاد کیا ہے جس کا مطلب ہے صفات الھی کا مظھر کامل اور انہی کے  وسیلہ سے رحمت الھی انسان کے شامل حال ہوتی ہے اور امام کو خود تک پہنچنے کےلیے صراط مستقیم سے تعبیر کیا ہے ۔اس صورت میں کمال اور نماز اور تمام عبادات کی قبولیت کی شرط خداوندمتعال کی اطاعت ہے ۔ قرآن کریم میں خدا کی اطاعت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ان سے جدا نہیں ۔

اور یہ اولی الامر کی اطاعت اس وقت حاصل ہوتی ہے کہ جب مودت اور محبت کے ساتھ ہو ۔کیونکہ امام حسین علیہ السلام کا اپنے بیٹوں سے تعلق اور رشتہ  ،امام حسین علیہ السلام کے بھائیوں کا آپ سے تعلق اور اصحاب کا آپ سے تعلق اور رشتہ ،  مودت اور محبت کا ہے  اور اس کو صرف واجب کی ادائیگی اور عقل کی کسوٹی پر نہِں پرکھا جا سکتا اگرچہ یہ بھی ہے لیکن منحصر نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ دسویں محرم کو جتنے واقعات امام کی اطاعت میں رونما ہوئے ان سب سے یہ کہہ کر چشم پوشی نہیں کر سکتے کہ صرف وہ اپنے اوپر جھاد واجب سمجھتے تھے یا عقل نے ان کو امام کی اطاعت کا حکم دیا ۔

اس لیے کہ اصحاب امام حسین علیہ السلام سے ایسے افعال اور کام ہوئے ہیں جو صرف جہنم کے خوف یا جنت کی لالچ میں جو عقل کا حکم ہے سے ربط نہیں رکھتے اور تاویل نہیں کیے جاسکتےبلکہ اگر اس کی تفسیر اور تاویل کرنی ہے تو اس جملے  کی روشنی میں کریں ۔”وجدتک اھلا للعبادۃ فعبدک “۔

درحقیقت اس ایثار اور خلوص کا سرچشمہ وہ محبت ہے جو اس طاقت اور مصمم ارادوں کو جنم دیتی ہے ۔ اسی لیے زیارت اربعین میں عاشق اور عارف خدا کو گواہ بناتے ہوئے امام معصوم کو اس طرح خطاب کرتا ہے :”اللھم انی اشھدک انی ولی لمن والاہ و عدوہ لم عاداہ “۔ یہاں پر عرفان اور محبت کا حسین امتزاج سامنے آتا ہے اور انسان حاضر ہو جاتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دے اور تمام روابط کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردے تاکہ ان کے جمال کے نور سے مستفید ہو سکے ۔”بابی انت و امی یابن رسول اللہ “۔روایات میں آیا ہے کہ زائرین اور پرہیزگار لوگ جو امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتےہوں گےانہیں قیامت کے دن ایک عظیم لذت حاصل ہوگی اور وہ یہ  کہ امام حسین علیہ السلام کے وجود کے نور اور جمال کے دیکھنے میں مشغول ہوں گے ۔

اب اگر اس نکتہ کی طرف توجہ کریں کہ سن 62ھجری میں حکومت کی طرف سے روز عاشور پر پردہ ڈالنے بلکہ کلا اھل بیت علیھم السلام کے خلاف تمام تر وسایل ،امکانات اور پروپیگنڈا سے استفادہ کیا گیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ کیا ہوا اور اصل مسئلہ کیا تھا ۔1 اس سے اچھی طرح اندازا لگا سکتے ہیں کہ اھل بیت کی طرف سے تدبیر اور ذکاوت کے ساتھ شعائر کی بنیاد رکھنے کی وجہ سے تحریک حسینی ہمیشہ کےلیے زندہ و جاوید بن گئی ۔یہ بات اھل بیت اور بچے ہوئے قافلے کی اس عظیم بصیرت کی عکاس  ہے جسے خداوندمتعال کے عشق و عرفان اور اس شمع دین کو روشن رکھنے کی کوشش سے الہام لیا گیا ہے ۔

کیونکہ معصوم قرآن کا عدل ہے اور درحقیقت قرآن ناطق ہے اس لحاظ سے معصوم کی حالت(عرفان کی اصطلاح) ،قرآن و وحی اور شریعت کی حالت  ہے اب اگر معصوم بشر کی زندگی سے دور ہو جائے اور خدا کے خلیفہ کی اطاعت نہ ہو تو اس طرح ہے کہ قرآن کو ترک کر دیا گیا ہے۔ اھل بیت نے اسی وجہ سے قرآن اور دین کو زندہ رکھنے کےلیے بعض دینی شعائر کو جیسے زیارت اربعین ،کی بنیاد رکھی ۔شریعت میں جو چیز ان شعائر کے احترام کا ولولہ اور جذبہ پیدا کرتی ہے قرآن کی یہ آیت ہے :” قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی2 ۔ اور مودت کی شرط یہ ہے کہ ان کی خوشی میں خوشی اور ان کے غم میں غم منایا جائے اور اس مودت میں محب کی محبوب سے محبت کی صداقت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔(کیونکہ یہ صداقت) محبت کے ظاہر کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ اسی لیے ہم ان کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ان کی غمی میں غم مناتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ان کے احکام کے پیروکار اور ان کی مدد کے لیے ہروقت تیار ہیں اور “امری لامرکم متبع و نصرتی لکم مودہ ” زیارت اربعین زائر کی اس چیز کی طرف راھنمائی کرتی ہے۔جس کےلیے امام حسین علیہ السلام شھید ہوئے ۔”لم تنجسک الجاھلیۃ بانجاسھا و لم تلبسک المدلھمات من ثیابھا ،و اشھد انک من دعائم الدین و ارکان المسلمین ۔”اور یہ یاد دلاتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام وہی متقی اور پرہیزگار رھبر و پیشوا تھے کہ کبھی بھی یاد خدا سے غافل نہ رہے۔ اس طرح کہ دکھوں اور مصائب کے پہاڑ بھی ان میں شک و تردید اور خوف اور ڈر ایجاد نہ کر سکے ،بلکہ خوف بھی اپنے آپ سے خوف کھانے لگا اورخود پریشانی  پریشان ہو کر رہ گئی ۔ امام علیہ السلام کا تمام وجود خدا کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا اور یہ وہی سکون اور اطمینان ہے جو خداوندمتعال حقیقی مومنین کے دلوں پر نازل کرتا ہے ۔3

(ھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیزدادو ایمانا مع ایمانھم )4 اس لحاظ سے زیارت اربعین کو خدا اور اس کے رسول اور اھل بیت کی طرف ہجرت کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ وہ چیز جو قابل توجہ ہے کہ مکتب اھل بیت میں ثابت امور سے دین کی خاطر ہجرت اور دین کی مدد کا دوام ہے اور ہجرت کا فلسفہ اور مقصد انسان کا مادی زندگی کے تعلقات سے نکل کر الھی راہ پر چلنا اور خدا کے راستے میں حرکت کی حالت میں رہنا ہے۔

اس لحاظ سے کہ انسان ہمیشہ دنیوی تعلقات اور شیطانی ہتھکنڈوں سے چھٹکارے کےلیے محتاج ہے۔ اسی لیے دین میں ہجرت کو لازم کیا گیا  ،کیونکہ زندگی کی تاثیر اور دنیوی لذات انسان کے نفس اور روح کو جکڑ لیتی ہیں۔ دنیا کی آراستگی اور آسائشیں انسان کے سقوط کا سبب ہیں اور ہجرت اور خصوصا امام حسین علیہ السلام کی طرف ہجرت سے ان زنجیروں سے آزادی کی راہ ہموار ہوتی ہے   ۔قرآن کی آیات متواترہ اور مستفیض روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ زیارت امام حسین علیہ السلام اور ان کی اھل بیت کی زیارت کی طرف حرکت، ایک عظیم ہجرت اور دنیوی تعلقات کے چنگل سے آزادی کا نام ہے ۔(وجعلنا بینھم و بین القری التی بارکنا فیھا قری ظاھرۃ و قدرنا فیھا السیر سیروا فیھا لیالی و ایاما آمنین)5 ۔اس ہجرت میں نہ صرف جسم گھر اور اس شہر سے جدا ہو جاتا ہے جہاں وہ رہتا ہے بلکہ بری صفات سے جو انسان کے اندر راسخ ہو چکی

ہیں ان سے ان نیک اور پاک فضایل اور صفات کی طرف ہجرت ہے جو زائر حسین علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کے نور سے درک کرتا ہے اور یہ انسان کی ناپاک صفات سے زیارت ،تعلیمات ،صراط مستقیم اور اس بنیاد  کی طرف ہجرت ہے جس سے زیارت کے الفاظ سجائے گئے ہیں۔ ان میں ایک عہدوپیمان کی پایبندی، کمال دینداری اور خدا کے راستے میں جھاد  ہے ۔(اشھد انک وفیت بعھداللہ و جاھدت فی سبیلہ) زیارت امام حسین علیہ السلام سے روح تازہ اور نفس برائیوں اور پلیدگیوں سے پاک ہو جاتا ہے ۔

اب اگر اس دن معصوم کی پیروی کرتے ہوئے ان شعائر کر برپا کرنے کی کوشش کریں اور ان کے مقصد جو کلمہ توحید کا پرچار ہے کو سمجھیں تو یہ روح و جسم پر ایسی تاثیر کرتے ہیں جس سے شجاعت اور شھادت طلبی کی روح تازہ ہو جاتی ہے اور شاید اربعین کو منانے کی اہمیت اسی میں ہے کہ چہلم کو اس لحاظ سے کہ پہلی دفعہ قبرمطہر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی گئی ۔اب چاہے  اھل بیت کا قافلہ چہلم منانے اس دن کربلا آیا ہو یا نہ آیا ہو ۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری بعض برجستہ لوگوں کے ساتھ زیارت کے لیے (چہلم کےدن )کربلا پہنچا ہے ۔پس حسینی مقناطیس کی قوت جاذبہ کا عمل چہلم سے شروع ہوتا ہے ۔طول تاریخ میں امام حسین علیہ السلام کےلیےمجالس کا برپا کرنا اور ان کی قبر مطہر کی زیارت شیعہ اور مومنین کی شناخت کی علامت رہی ہے ۔6

اس لیے چہلم کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کےلیے ہجرت کرنا ایک قسم کی تعلیم و تربیت ہے دین کے دفاع اور میدان جھاد میں ایثار اور قربانی دینے کےلیے اور ایک قسم کی تجدید عھد اور امام معصوم سے تجدید میثاق ہے۔ان کے علم و پرچم کی تقویت اور دشمنوں کے سامنے مقاومت ہے ۔ زیارت اھل بیت میں پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ اھل بیت علیھم السلام مخلوق خدا کے درمیان نور اور آیت کبری ہیں کہ جن کی پیروی اور اطاعت ایک لامتناھی راستہ ہے اور ہمیشہ یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ انوار وحی اور انوار ناطق کی مدد سے دنیا کی آسائشوں اور پالایشوں کو پشت کی جا سکتی ہے اور زندگی کو توحیدی رنگ دیا جا سکتا ہے ۔

اس لیے خدا اور ان کے رسول اور اھل بیت کی طرف ہجرت اور ان کی طرف سے مدد ، دنیوی اور دینی عظمت و منزلت

کے وہ دو مقام ہیں جو صراط مسقتیم پر چلنے والوں کےلیے مینارہ ہدایت ہیں ۔

منابع                    

(بیانات رھبر29/6/68 )
(شوری/23)
( جوادی آملی ، حماسہ وعرفان ص 242)
(سورہ فتح /آیہ4)
(سبا/18-19)
(بیانات رھبری،1/1/85)

تبصرے
Loading...