رمضان کی فضیلت اور ہماری ذمہ داریاں

 مقالہ ھذا میں، ماہ مبارک رمضان کی فضیلت سے متعلق احادیث اور اس کے مقابلہ میں بندوں کے فرائض کو احادیث کی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس امید سے خدا ہم تمام لوگوں کو حقیقی روزہ دار اور اسکے حقیقی بندوں میں شمار کرے (آمین)

رمضان کی فضیلت اور ہماری ذمہ داریاں

رمضان المبارک قمری مہینوں میں سے نواں مہینہ ہے خداوند عالم  نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت دی ہے، حدیث مبارک میں ہے کہ ”رمضان شہر اﷲ“[1] رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک مہینے سے رب ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جدا ہے۔ اس ماہ سے خصوصی تعلق سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تجلیات خاصہ اس مبارک مہینہ میں اس درجہ ظاہر ہوتی ہیں گویا موسلا دھار بارش کی طرح برستی رہتی ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کے پہلے حصہ میں حق تعالیٰ کی رحمت برستی ہے جس کی وجہ سے انوار و اسرار کے ظاہر ہونے کی قابلیت و استعداد یپدا ہوکر گناہوں کے ظلمتوں اور معصیت کی کثافتوں سے نکلنا میسر ہوتا ہے اور اس مبارک ماہ کا درمیانی حصہ، گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے اور اس ماہ کے آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔[2]
یہ وہ مہینہ ہے جس میں آسمان جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں[3]۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ پس اے انسانو! تمہیں سوچنا چاہیئے کہ تم اس مہینے کے رات دن کس طرح گزارتے ہو اور اپنے اعضائے بدن کو خدا کی نافرمانی سے کیونکر بچاسکتے ہو، خبردار کوئی شخص اس مہینے کی راتوں میں سوتا نہ رہے اور اس کے دنوں میں حق تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ رہے۔
رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بےکار جانے نہیں دینا چاہیے، شب و روز کے اوقات کو صالح اعمال کے ساتھ مزین اور معمور رکھنے کی سعی اور کوشش میں مصروف رہنا چاہیے اور دوسرے مہینوں کی دائمی عبادت کے ساتھ بعض دوسری عبادات کو اس ماہ مبارک میں مقرر کرنے سے شریعت کی یہی غرض معلوم ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک کا ہر لمحہ اور گھڑی عبادت و ریاضت میں گزرے لیکن حاجت بشریہ میں گھرے ہوئے انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ اپنے کاروبار اور بشریت کے تقاضوں سے علیحدہ ہوکر ہمہ وقت عبادات میں مشغول ہوجاتا ہے اس لئے انسانوں کے ضعف اور ان کی فطری ضروریات پر نظر فرماتے ہوئے خداوند عالم کی رحمت نے دستگیری فرمائی اور اس ماہ مبارک میں ایسے انداز میں عبادت کو فرض کے طور پر معین فرمادیا کہ انسان اس عبادت کے ساتھ اپنی تمام ضروریات و حوائج میں بھی مصروف رہ سکتا ہے اور عین اسی خاص طریقہ عبادت میں بھی مشغول ہوسکتا ہے۔ ایسی خاص طریقہ کی عبادت کو روزہ کہا جاتا ہے جسے اس ماہ میں واجب کیا  گیا ہے، روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے روزہ رکھ کر صنعت و ہنر، تجارت و زیارت ہرکام بخوبی کرسکتا ہے اور پھر بڑی بات یہ کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خودبخود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغول ہونے کا ثواب ملتا رہتا ہے۔
چنانچہ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم )فرماتے ہیں: أَنْفَاسُكُمْ‏ فِيهِ‏ تَسْبِيحٌ‏ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِيهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِيهِ مُسْتَجَابٌ ‏.[4]
اس مہینہ میں (روزہ کے عالم میں) تمہاری سانسیں تسبیح خدا کے مانند ہیں، تمہارا سونا عبادت ہے، تمہارے تمام اعمال بارگاہ خداوندی میں قبول ہوتے ہیں اور تمہاری ہر دعا کو مستجاب کیا جاتا ہے۔
اس مہینہ جہاں بہت سی تاکیدیں ملتی ہیں وہیں ایک تاکید تلاوت قرآن پاک کی بھی ہے۔جيسا کہ امام علي (ع) فرماتے ہيں: تَعَلَّمُوا كِتَابَ‏ اللَّهِ‏ تَبَارَكَ‏ وَ تَعَالَى‏ فَإِنَّهُ‏ أَحْسَنُ‏ الْحَدِيثِ‏ وَ أَبْلَغُ‏ الْمَوْعِظَةِ وَ تَفَقَّهُوا فِيهِ‏ فَإِنَّهُ‏ رَبِيعُ‏ الْقُلُوب‏[5]
کتاب خدا کو پڑھو کيونکہ اس کا کلام بہت لطيف و خوبصورت ہے اور اس کي نصيحت کامل ہے اور اسے سمجھو کيونکہ وہ دلوں کيلۓ بہار ہے-
دوسرے مقام پرامام باقر(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: لِكُلِ‏ شَيْ‏ءٍ رَبِيعٌ‏ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان‏[6]
 قرآن کو پڑھنے اور اسميں غور و فکر کر نے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حيات طيبہ تک پہنچ جاۓ اور شب قدر کو درک کر سکے-
اور پھر امام باقر (علیہ السلام) اس مہینہ کے تقاضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)- لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَا جَابِرُ هَذَا شَهْرُ رَمَضَانَ‏ مَنْ‏ صَامَ‏ نَهَارَهُ‏ وَ قَامَ‏ وِرْداً مِنْ‏ لَيْلِهِ‏ وَ عَفَّ بَطْنُهُ وَ فَرْجُهُ وَ كَفَّ لِسَانَهُ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَخُرُوجِهِ مِنَ الشَّهْرِ فَقَالَ جَابِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَحْسَنَ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) يَا جَابِرُ وَ مَا أَشَدَّ هَذِهِ الشُّرُوطَ.[7] رسول اﷲ نے جابر ابن عبد اﷲ(رض) سے فرمایا: اے جابر! یہ رمضان مبارک کا مہینہ ہے ، جو شخص اس کے دنوں میں روزہ رکھے اور اس کی راتوں کے کچھ حصے میں عبادت کرے۔ اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچائے رکھے اپنی زبان کو روکے رکھے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح باہر آئے گا جیسے وہ اس مہینہ باہر جاتا ہے ۔ جناب جابر (رض) نے عرض کیا یا رسول (ص) اﷲ! آپ(ص) نے بہت اچھی حدیث فرمائی ہے ، آپ(ص) نے فرمایا وہ شرطیں کتنی سخت ہیں جو میں نے روزے کیلئے بیان کی ہیں ۔
مندرجہ بالا روایات اور معروضات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے لطف و کرم سے رمضان جیسی نعمت  کومہینہ کی صورت میں تمام انسانوں کو ہدیہ کے طور پر دیا ہے   اور اسے اپنا مہینہ کہہ کر اس کی عظمت میں چار چاند لگادیئے ہیں تاکہ ہر انسان اس نعمت خداوندی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکے۔ اب چاہے وہ روزہ کے ساتھ دعائوں کی صورت میں ہو، تلاوت پاک کی صورت میں ہو یا  غریبوں کی امداد کی صورت میں ہو، یہ انسانوں کی توفیقات پر منحصر ہے۔ البتہ روزہ کی حقیقت کو بھی بتادیا کہ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر ان اعمال کے ترک کا نام ہے جس سے خدا وند عالم ناراض ہوتا ہے اور ہر اس اعمال کے انجام دینے کا نام ہے جس سے وہ راضی و خوشنود ہوتا ہے۔ خداوند عالم  ہمیں اس ماہِ مبارک کی صحیح قدر کرنے والا بندہ بنادے ، آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1] الکافی، ج۴، ص۶۹، كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق
[2] رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم): وَ هُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَ أَوْسَطُهُ‏ مَغْفِرَةٌ وَ آخِرُهُ‏ عِتْقٌ‏ مِنَ‏ النَّار.
فضائل الاشھر الثلاثۃ، ص۱۲۹، ابن بابويه، محمد بن على‏، محقق / مصحح: عرفانيان يزدى، غلامرضا، انتشارات كتاب فروشى داورى‏، قم‏، 1396 ق۔‏
[3] امام باقر (علیہ السلام): إِذَا طَلَعَ هِلَالُ شَهْرِ رَمَضَانَ‏ غُلَّتْ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ وَ فُتِحَتْ‏ أَبْوَابُ‏ السَّمَاءِ وَ أَبْوَابُ الْجِنَانِ وَ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَ غُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّار
الکافی، ج۴، ص۶۷۔ كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق
[4] وسائل الشیعہ، ج۱۰، ص۳۱۳، شيخ حر عاملى، محمد بن حسن‏، محقق / مصحح: مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، اتشارات مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، قم‏، 1409 ق‏۔
[5] بحار الانوار، ج۷۳، ۲۹۰، مجلسى،محمد باقر بن محمد تقى‏، محقق / مصحح: جمعى از محققان‏،ناشر دار إحياء التراث العربي‏،بيروت‏ 1403 ق‏۔
[6] الکافی، ج۲، ص630، كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق۔
[7] الکافی، ج۴، ص۸۷، كلينى، محمد بن يعقوب‏، محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى ، دار الكتب الإسلامية  تهران1407 ق۔

 

تبصرے
Loading...