رازق اور ناصر صرف اللہ ہے ۔ مناجات شعبانیہ کی تشریح

رازق اور ناصر صرف اللہ ہے ۔ مناجات شعبانیہ کی تشریح

مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس مناجات کے سلسلہ میں گیارہواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ ابوالائمہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اس فقرہ میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: إِلَهِی إِنْ حَرَمْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی یرْزُقُنِی وَ إِنْ خَذَلْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی ینْصُرُنِی، “میرے معبود! اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے رزق دے گا اور اگر تو مجھے چھوڑ دے تو کون ہے جو میری مدد کرے گا”۔

الفاظ کی تشریح
حرمان:
محروم کرنا۔
خذلان: چھوڑ دینا، مدد نہ کرنا۔ راغب کی نظر میں، خذلان یہ ہے کہ انسان اپنے کسی دوست کی مدد پر امیدوار ہو اور وہ اسے چھوڑ دے۔[1]
رزق: رزق لغوی لحاظ سے الرِّزْقُ: ما یُنْتَفَعُ به و الجمع الْأَرْزَاقُ[2]، “وہ چیز ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس کا جمع، ارزاق ہے۔
نصرت: مدد اور فتح۔

مناجات کی تشریح
کائنات کے مشکل کشا کا بھی رازق و ناصر، اللہ ہے: حضرت امام المتقین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) جنہوں نے ساری زندگی اللہ کے سوا کسی کے سامنے سجدہ نہیں کیا اور سوائے حکم پروردگار کے کسی کی بات کے سامنے سر نہیں جھکایا اور ان کی روٹی جو کی ہوا کرتی تھی، مالک کائنات کی بارگاہ میں رازونیاز اور مناجات کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے روزی دے گا۔
جس حیدر کرارؑ نے عرب کے بڑے بڑے پہلوانوں اور دلیروں کو بحکم خدا ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور کسی کے سامنے عجز کا اظہار نہیں کیا تھا، وہ علی کل شی قدیر ذات کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں: اگر تو مجھے چھوڑ دے تو کون میری نصرت کرے گا۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی دعاوں، مناجات اور رازونیاز سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پاک و مقدس ہستیاں اللہ کی بارگاہ میں حددرجہ اپنی محتاجی اور ضرورت کو بیان کرتی ہیں جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ہر انسان اور ہر مخلوق اس بے نیاز خالق کی فقیر، محتاج اور ضرورتمند ہے۔
مقام عصمت اور لوگوں کو اللہ سے رازونیاز کرنے کی تعلیم: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اور اہل بیت (علیہم السلام) معصوم ہیں، وہ تواضع اور انکساری کی حالت میں اپنے آپ کو صرف اللہ کا حقیقی محتاج سمجھتے ہوئے دل کی اتھاہ گہرائی سے اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: “میرے معبود! اگر تو مجھے محروم کردے تو کون ہے جو مجھے رزق دے گا اور اگر تو مجھے چھوڑ دے تو کون ہے جو میری مدد کرے گا”، ورنہ یہ معصومین حضراتؑ سے کوئی خطا (نعوذباللہ) سرزد ہوتی ہی نہیں جس کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجائیں یا اللہ انہیں چھوڑ دے اور ان کی نصرت نہ کرے”۔ بلکہ کیونکہ ہم لوگ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو زبانِ عصمت سے جاری ہونے والا یہ کلام، ہمارے لیے درس آموز ہے اور ہمیں عجز و ناتوانی کے اظہار کا طریقہ سکھلاتا ہے کہ ہم صرف اللہ کو حقیقی رازق سمجھیں اور رزق سے محرومیت کے اسباب فراہم نہ کریں، ورنہ اللہ جو رزاق ہے، اگر اس نے رزق دینا بند کردیا تو پھر کوئی بھی نہیں ہے جو رزق دے پائے اور اگر اس نے ہمارے برے اعمال کی وجہ سے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تو پھر اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے جس کی مدد ہم تک پہنچ پائے۔
مناجات کے اس فقرے سے چند ماخوذہ نکات:
۱۔ توحید افعالی کا درس اور وسیلہ، وسیلہ کی حد تک ہے: یعنی ساری کائنات میں صرف اللہ کی حکومت قائم و دائم ہے، اسی لیے اس کے علاوہ نہ کوئی رزق دے سکتا ہے اور نہ کوئی نصرت کرسکتا ہے۔ ظاہری طور پر جو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں فلاں شخص کھانے پینے کے لئے کچھ دے رہا ہے یا ہماری نصرت و مدد کررہا ہے تو اسے اللہ تعالی نے ہی وسیلہ اور واسطہ بنایا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے ہمیں رزق اور مدد پہنچائے، یہی وجہ تو ہے کہ جب اللہ رزق یا مدد نہیں دینا چاہتا تو جس طرف اور جس شخص اور جس چیز کا انسان سہارا لیتا ہے اس سے ناامیدی کا سامنا ہوتا ہے اور خالی ہاتھ لوٹ آتا ہے اور صرف خالی ہاتھ نہیں بلکہ شرمندگی اور بےعزتی کا داغ بھی اس کے دامن پر پڑجاتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں اللہ کے علاوہ سب مخلوقات کی عجز و ناتوانی کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور انسان سب سے ناامید ہوکر ایک ذات پر اپنی ساری امید جما لیتا ہے اور اسی کو رازق و ناصر سمجھ کر صرف اسی سے اپنا رزق و نصرت طلب کرتا ہے، البتہ جس طریقہ سے طلب کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
۲۔ اللہ عطا کرنے میں مختار ہے اور عطا کرنے میں اس پر نہ کسی کا جبر ہے اور نہ ہی انسان اس سے ناامید ہو کر کوئی دوسرا راستہ تلاش کرسکتا ہے، بلکہ اسی کی رحمت پر امیدوار رہنا، کامیابی اور حصول رحمت کا باعث ہے۔
۳۔ جو انسان صرف اللہ کو اپنا رازق و مددگار سمجھتا ہے، وہ اس کی نافرمانی کرنے اور محرومیت کے اسباب فراہم کرنے سے دوری اختیار کرتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مجھے جس سے رزق اور  مدد نصیب ہونی ہے وہ ایک ہی تو ذات ہےاور اگر میں نے اسی کی نافرمانی کردی تو رزق سے محرومیت ہوجائے گی اور اگر اس نے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیا تو میری مدد کرنے پر سوائے اسی ذات کے کوئی قادر نہیں، لہذا وہ شخص اللہ کی فرمانبرداری کرنے اور نافرمانی سے بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
۴۔ ضروری نہیں ہے کہ انسان تب اللہ کی بارگاہ میں اس انداز اور گڑگڑاہٹ سے رازونیاز کرے جب محرومیت ہوگئی اور اللہ نے اسے اسی کے حال پر چھوڑ دیا، بلکہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بھی اسے چاہیے کہ اللہ سے اس طرح مناجات کرے، کیونکہ جب سب کچھ انسان کے پاس موجود ہے اور پھر بھی اللہ کی بارگاہ میں یوں گڑگڑا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ سے بے نیاز نہیں سمجھ رہا، بلکہ اپنے آپ کو اللہ کا محتاج، ضرورتمند اور فقیر سمجھتا ہے، لہذا اگر اس پر امتحان کے طور پر ایسے حالات بھی  آگئے کہ موجودہ اسباب و سہولیات کھو بیٹھا تو اپنے پورے وجود سے اپنی نظروں کو اللہ کی رحمت کے دروازے پر جمائے رکھے گا اور پھر بھی یہی کہے گا کہ بارالہا! تیرے سوا مجھے نہ کوئی رزق دے سکتا ہے اور نہ میری مدد کرسکتا ہے۔
رزاقیت میں توحید: اللہ تعالی جیسے ذات میں واحد ہے اسی طرح اپنے افعال اور کاموں میں بھی واحد ہے اور کاموں میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ کے افعال کو کلی عناوین میں جیسے خلق، رزق، ہدایت وغیرہ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے توحید افعالی بھی افعالِ الہی کے تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے یعنی خالقیت میں توحید، رزاقیت میں توحید، ہدایت میں توحید وغیرہ وغیرہ۔
توحید افعالی یہ ہے کہ اولاً: اللہ تعالی اپنے کاموں میں ہر طرح کے شریک اور ناصر و مددگار سے بے نیاز ہے اور ثانیاً: اللہ کے علاوہ کوئی مخلوق اپنے کاموں میں مستقل نہیں ہے اور کائنات میں جو کام اور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ اللہ کے ارادہ اور مشیت کے مطابق ہیں۔ یہ جو توحید کی مشہور دعا میں پڑھا جاتا ہے: لااله‌الاالله وحده‌ وحده وحده، ایسا نہیں کہ وحدہ صرف دہرایا جارہا ہے، بلکہ اس سے مراد تین طرح کی توحید ہے۔ وحدہ ذات کے لحاظ سے، صفات کے لحاظ سے اور افعال کے لحاظ سے۔
لہذا رازق اور رزاق کا لفظ، حقیقی طور پر صرف اللہ تعالی پر بولا جاتا ہے اور اگر اس کے علاوہ کسی پر بولا جائے تو مجازاً ہے۔[3] جیسے:وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ[4]، “اور بچہ کے باپ پر (اس دوران) ان (ماؤں) کا کھانا اور کپڑا مناسب و معروف طریقہ پر لازم ہوگا”۔
رزق کی قسمیں: عام سوچ کے مطابق رزق، مادی اور کھانے پینے والی چیزوں کو سمجھا جاتا ہے، جبکہ یہ بھی رزق ہے، لیکن رزق صرف یہی مادی چیزیں نہیں ہیں، بلکہ قرآن و احادیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ معنوی اور روحانی توفیقات بھی رزق ہوتے ہیں، جیسے دعا میں ہے: اَللّهُمَّ ارْزُقْنا تَوْفيقَ الطّاعَةِ وَ بُعْدَ الْمَعْصِيَةِ وَ صِدْقَ النِّيَّةِ وَ عِرْفانَ الْحُرْمَةِ[5]، “بارالہا! ہمیں فرمانبرداری کی توفیق اور گناہ سے دوری اور نیت کی صداقت اور حرام کی پہچان کا رزق عطا فرما”۔ اور زیارت عاشورا کا آخری حصہ جو سجدہ میں پڑھا جاتا ہے، اس میں یہ دعا کی جاتی ہے: “أَللّهُمَّ ارْزُقْنی شَفاعَةَ الْحُسَیْنِ یَومَ الْوُرُودِ“، “بارالہا! (محشر کے میدان میں) داخل ہونے والے دن، امام حسین (علیہ السلام) کی شفاعت کا مجھے رزق عطا فرما”۔
نتیجہ: رزق اور نصرت اللہ کے قبضہ اقتدار میں ہے، اگر اللہ رزق بند کردے تو اس ذات کے سوا کوئی نہیں جو رزق عطا کرے اور اگر اللہ انسان کو چھوڑ دے تو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جو انسان کی نصرت کرے، لہذا انسان کو اللہ تعالی پر ہی بھروسہ رکھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مفردات راغب، ص144۔
[2] الصحاح، جوهرى، ج 4، ص1481۔
[3] تفسیر نمونہ، آیت اللہ مکارم شیرازی، ج8، ص276۔
[4] سورہ بقرہ، آیت 233۔
[5] المصباح، کفعمی، ص280۔

تبصرے
Loading...