دحو الارض اور اس کے اعمال

خلاصہ: دحوالارض یعنی جس دن زمین بچھائی گئی، اس دن کی اسلام کی نظر میں بہت اہمیت ہے، اس دن سے مخصوص کچھ اعمال ہیں جن کو اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے۔

دحو الارض اور اس کے اعمال

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     دحو الارض کے معنی زمین کو پہیلانے کے ہیں چونکہ لغت میں دحو کے معنی پھیلانے کے ہیں اور بعض اہل لغت نے اس کے معنی پھینکنے کے کئے ہیں اور چونکہ یہ دونوں معنی لازم اور ملزوم ہیں لہذا ایک ہی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں، اس بنا پر دحو الارض کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں سطح زمین طوفانی بارشوں سے بھری ہوئی تھی اس کے بعد یہ پانی دھیرے دھیرے زمین کے سوراخوں میں چلا گیا اور زمین کی خشکی سامنے آگئی یہاں تک کہ موجودہ حالت میں آگئی[۱]۔
     سورہ نازعات کی ۳۰ویں آیت میں«وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا[سورہ نازعات، آیت:۳۰]اس کے بعد زمین کا فرش بچھایا ہے »، زمین کے پھیلائے جانے کی طرف اشارہ ہے، بعض روایات میں آیا ہے کہ زمین کو سب سے پہلے کعبہ کے نیچے سے پھیلانا شروع کیا گیا، جیسا کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس حدیث میں فرمایا: «دُحِیَتِ الْأَرْضُ مِنْ مَكَّةَ وَ كَانَتِ الْمَلَائِكَةُ تَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَ هِیَ أَوَّلُ مَنْ طَافَ بِهِ وَ هِیَ الْأَرْضُ الَّتِی قَالَ اللَّهُ إِنِّی جاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَةً [۲] زمین مکہ سے بچھنا شروع ہوئی، فرشتہ خانہ کعبہ کے اطراف طواف کررہے تھے، وہ سب سے پہلی جگہ ہے جہاں پر طواف کیا گیا»۔
     حضرت علی(علیہ السلام) سے کسی نے سوال کیا کہ مکہ کو مکہ کیوں کہتے ہیں؟  آپ نے فرمایا: «لأن الله مك الأرض من تحتها، أي دحاها[۳]اس لئے کہ زمین، مکہ کے نیچے سے پھیلنا شروع ہوئی»۔
     امام رضا(علیہ السلام )نے جب خراسان کا سفر کیا، اس سفر کے دوران پچیس ذیقعدہ کو آپ مرو میں پہنچے اور  آپ نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے، راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول آج کونسا دن ہے؟  فرمایا: وہ دن جس میں اللہ کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا[۴]۔

اس دن کے اعمال
یہ دن بہت بابرکت دن ہے اور اس کے کچھ مخصوص اعمال ہیں:
۱: روزہ رکھنا(اس دن کا روزہ ستر سال کا کفارہ ہے)[۵]۔
۲: شب دحوالارض کو بیدار رہنا[۶]۔
۳: اس دن کی مخصوص دعائیں پڑھنا[۷]۔
۴: اس دن غسل کرنا اور ظہر کے نزدیک اس طریقے سے نماز پڑھنا۔
ہررکعت میں سورہ حمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ الشمس پڑھے اور سلام کے بعد کہے: لا حَوْلَ و لا قوَّهَ اِلّا بِالله العلي العظيم”  اور اس دعا کو پڑھے ” يا مُقيلَ الْعَثَراتِ اَقِلْني عَثْرَتي يا مُجيبَ الدَّعَواتِ اَجِبْ دَعْوَتي يا سامِعَ الْاَصْواتِ اِسْمَعْ صَوْتي وَ ارْحَمْني و تَجاوَزْ عَنْ سَيئاتي وَ ما عِنْدي يا ذَالْجَلالِ وَ الْاِکْرام[۸]۔
۵: مفاتیح الجنان میں موجود اس دن کی دعا پڑھنا جو ان کلمات سے شروع ہوتی ہے: للّهمّ يا داحِي الْکعبهَ وَ فالِقَ الْحَبَّه..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴  ش، ج ۲۶، ص۱۰۰.
[۲]۔ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، اسلامیه، ج‏۵۴، ص۲۰۶.
[۳]۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی،۱۴۰۳ق،ج۵۴، ص۶۴۔
[۴]۔ «خرج علينا أبو الحسن يعني الرضا (علیه السّلام) بمرو في يوم خمسة و عشرين من ذي القعدة، فقال: صوموا، فإني أصبحت صائما، قلنا: جعلنا الله فداك أي يوم هو؟ قال: يوم نشرت فيه الرحمة و دحيت فيه الأرض» علی ابن موسی (ابن طاووس)،  الاقبال بالاعمال الحسنہ، دفتر تبلغات اسلامی،۱۳۷۶ش، ج۲، ص۲۳۔  
[۵]۔ الاقبال بالاعمال الحسنہ، ج۲، ص۲۴۔  
[۶]۔  مذکورہ حوالہ، ص۲۷۔
[۷]۔ مذکورہ حوالہ.
[۸]۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ماه ذی قعده کے اعمال۔

 

تبصرے
Loading...