حق و باطل کی جنگ 3

عمر بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کو ایک خط لکھا جس میں امام حسین ؑ کے مذکورہ کلمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کوشش کی کہ عبیداللہ کو امام ؑ کے ساتھ جنگ سے روک سکے، لیکن عبیداللہ سمجھ گیا کہ عمر بن سعد امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ کرنے سے کترا رہا ہے لہذا اُس کی سربراہی گویا وقت ضائع کرنے کا باعث ہے چنانچہ اُس نے شمر بن ذی الجوشن کے ہاتھوں ایک خط بھیجا جس میں عمر سعد کو تاکید کی گئی کہ فرزندِ رسولؐ کے خلافت جنگی کاروائی جلدی شروع کی جائے، اور اُس خط میں یہ بھی وضاحت کی کہ اگر عمر سعد اس حکم کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا تو لشکر کی سرپرستی شمر بن ذی الجوشن کے حوالے کر دے تا کہ وہ جلد از جلد اس ڈیوٹی کو انجام دے(1)۔

اب عمر بن سعد کیلئے جنگ سے بچاؤ یا صلح کیلئے مزید کوششیں کرنا ممکن نہیں تھا، اُس کی خواہش تھی کہ وہ لشکر کی سرپرستی کے عہدہ پر باقی رہے اور اپنی ڈیوٹی کو اس طرح انجام دے کہ اس کے بعد رَی کی حکومت حاصل کر سکے، چنانچہ اُس نے امام حسین ؑ کے ساتھ جنگ کا مظبوط ارادہ کر لیا۔

امام حسین ؑ نے عمر بن سعد کی اندرونی کیفیت کو پرکھتے ہوئے اُس کی فکر کی تبدیلی اور آزاد اندیشی کی خاطر ایک مہلت فراہم کی اور ایک وفد بھیج کر اُس سے ملاقات کا پیغام پہنچایا۔

عمر بن سعد بھی امام حسین ؑ کے ساتھ ملاقات پر راضی ہو گیا اور جب ملاقات میں گفتگو شروع ہوئی تو امام حسین ؑ نے عمر سعد کو یزید کا لشکر چھوڑنے اور حق کے گروہ کے ساتھ ملنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:

اے سعد کے بیٹے، کیا تم اُس خدا سے نہیں ڈرتے جس کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے؟ کیا مجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہو؟ جبکہ تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کون ہوں اور کس کا بیٹا ہوں؟ کیا تم بنی امیہ کو چھوڑ کر میرا ساتھ نہیں دینا چاہتے کیونکہ یہی کام خداوند کی قربت کا ذریعہ ہے؟

عمر سعد نے اقتدار ومنصب کے لالچ کو مدنظر رکھتے ہوئے امام حسین ؑ کے سامنے بہانہ تراشی سے کام لیا اور کہا: اگر میں آپ کے مشورہ پر عمل کروں تو مجھے خوف ہے کہ میرا گھر برباد کر دیا جائے گا۔

امام حسین ؑ نے فرمایا: میں دوبارہ تمہارا گھر بہترین حالت میں بنوا دوں گا۔

عمر سعد نے کہا:میری جائیداد چھین لی جائے گی۔

امام حسین ؑ نے فرمایا: جتنی جائیداد تجھ سے چھینی جائے گی اُس سے زیادہ میں تجھے دوں گا۔

عمر سعد نے کہا: میں اپنے بیوی بچوں کی وجہ سے بھی پریشان ہوں۔

امام حسین ؑ نے فرمایا: میں اُن کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہوں۔

لیکن جب حق کو قبول کرنے اور باطل کو چھوڑنے سے عمر سعد کی یہ بہانہ تراشی حد سے بڑھی تو امام حسین ؑ نے عمر سعد کو اسکے حال پر چھوڑتے ہوئے فرمایا: آخر شیطان کی اطاعت پر اتنا اصرار کیوں کر رہے ہو؟!(2)

ایک اور ملاقات میں امام حسین ؑ نے عمر بن سعد سے فرمایا: ”اے سعد کے فرزند، کیا تم اس امید پر مجھے قتل کرنا چاہتے ہو کہ حرام زادہ ابن زیاد تجھے رَی کی حکومت دے دے گا؟! خدا کی قسم وہ ہرگز تجھے رَی کی حکومت نہیں دیں گے” (3)۔

پھر عمر بن سعد نے عبیداللہ کی طرف سے بھیجے گئے حکم کے تحت آل رسولؐ پر پانی بن کر دیا، عاشور کے دن اُس نے جنگ کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے امام حسین ؑ کے لشکر کی طرف تیر چلایا اور اپنے سپاہیوں سے کہا: ”امیر عبیداللہ بن زیاد کے سامنے گواہی دینا کہ حسین ؑ کے لشکر پر سب سے پہلے میں نے تیر چلایا ہے”(4)۔

عمر بن سعد ہی نے قساوت کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر عمل کیا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ امام حسین ؑ کے لاشہ اقدس پر گھوڑے دوڑائیں اور آپؑ کے لاشہ کو پامال کریں(5)۔

حوالہ جات:
(1) ارشاد مفید:ج٢س٨٩
(2) فرھنگ سخنان امام حسینؑ ص٥٨٦
(3) جلاء العیون:ص٦٦٠
(4) ارشاد مفید:ج٢ص١٠٤
(5) حوالہ سابق

تبصرے
Loading...