حضرت عبد اللہ

خلاصہ: جناب عبد اللہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد تھے، آپ اپنے قبیلہ میں بہت زیادہ مشھور تھے، آپ حضرت ابراھیم(علیہ السلام) کے دین پر باقی تھے۔

حضرت عبد اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے والد کا نام عبداللہ ابن عبد المطلب ابن ہاشم تھا[۱] اور وہ قریش کے قبیلہ سے تھے[۲]، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی ولادت ہجرت سے۸۱سال قبل مدینہ میں ہوئی[۳] اور بعض تاریخ دانوں نے آپ کی ولادت کو انوشیروان کی سلطنت کی چوبیسوے(۲۴) سال میں لکھا ہے[۴]۔
     جناب عبداللہ اپنے خاندان اور اپنے زمانے کے لوگوں میں شھرت یافتہ شخص تھے، آپ کی شھرت کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے والد جناب عبدالمطلب نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے انھیں اولاد عطا کی اور وہ ان کی زندگی ہی میں جوان ہوجائیں تو وہ ان میں سے کسی ایک کی کعبہ کے سامنے قربانی دینگے، کیونکہ ان کی نذر پوری ہوگئی تھی انھوں نے اپنی اولاد کے درمیان قرعہ کشی کی کہ کس کی قربانی دیں، اس قرعہ کشی میں جناب عبداللہ کا نام نکلا، جناب عبدالمطلب جناب عبداللہ سے بہت محبت کرتے تھے اسی لئے ایک سو اونٹ جناب عبداللہ کے بدلے میں فدیہ کے طور پردئے، اسی سبب جناب عبداللہ’’الذبیح‘‘ کے نام سے معروف تھے[۵]۔
     آپ کی وفات کی تاریخ کے بارے میں بھی لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے لکھا ہے کہ ہجرت سے ۵۳، سال قبل ۲۵، سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی[۶] اور بعض نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ولادت سے ۲، مہینہ پہلے[۷] اور بعض نے ۸، مہینہ پہلے لکھا ہے[۸]۔
     آپ کی وفات کی علت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: جب آپ کی عمر ۲۵ سال کی تھی آپ تجارت کی غرض سے قریش کے کاروان کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوئے اور شام سے واپسی کے وقت بیماری کی وجہ سے قبیلہ بنی عدّی بن نجار کے یہاں رک گئے، ایک مہینہ آپ نے مرض کی حالت میں گذارا، جب قریش کا قافلہ مکہ پہونچا تو جناب عبدالمطلب نے آپ کے بارے میں ان لوگوں سے معلومات حاصل کی اور اس کے بعد اپنے بیٹے حارث کو ان کے پاس بھیجا لیکن جب تک حارث عبداللہ کے پاس پہنچتے جناب عبداللہ اس دنیا سے گذرچکے تھے[۹] آپ کا مقبرہ مسجد النبی کے غرب ’’باب السلام‘‘ کے پاس موجود ہے لیکن ۱۳۶۴شمسی میں مسجد النبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو وسعت دیتے وقت اسے توڑ دیا گیا[۱۰]۔

جناب عبدا للہ کا دین
     علامہ طباطبائی کہتے ہیں: حضرت ابراھیم(علیہ السلام) کا دین دو شعبوں میں تقسیم ہوا،  جس کا ایک شعبہ بنی اسرائیل کا تھا جس میں حضرت اسحاق(علیہ السلام) سے حضرت یعقوب، حضرت موسی، حضرت عیسی(علیہم السلام) یہ سب انبیاء شامل تھے، اور دوسرا شعبہ عرب کے درمیان تھا جس میں حضرت ابراہیم(علیہ السلام) سے حضرت یسع، اور ذوالکفل(علیہما السلام)  شامل تھے: «وَاذْكُرْ اِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْيَارِ[سورۂ ص، آیت:۴۸] اور اسماعیل( علیہ السلام) اور یسع(علیہ السلام) اور ذوالکفل( علیہ السلام) کو بھی یاد کیجئے اور یہ سب نیک بندے تھے».
     جناب عبداللہ کے دین میں حج  پہلے سے ایک فریضہ کے طور پر موجود تھا دوسرے شعبہ کے مقابل میں ان لوگوں کے پاس حج  فریضہ کے طور پر موجود نہیں تھا۔
     اس بات کی وضاحت: بنی اسرائیل کے بزرگ’’عمرو ابن لحہ‘‘ تھے جس نے طایفہ ’’تیمہا‘‘ سے جنگ کی تھی اور ان پر غلبہ حاصل کیا اور مکہ میں حکومت کی اور وہ تمام لوگ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کے دین پر تھے  لیکن عمرو ابن لحہ بیمار ہوگیا اور اطباء کے مشورہ پر  اس نے سوریہ کا سفر کیا وہاں کے لوگ بت پرست تھے وہ بھی وہاں پر پہونچ کر ان لوگوں کی طرح بت پرست ہوگیا اور  ’’ہبل‘‘ نام کے ایک بت کو اپنے ساتھ لیکر مکہ میں واپس آیا اور لوگوں کو بت پرستی کی دعوت دینے لگا جس کے نتیجہ میں سوائے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و  آلہ و سلم) کے اجداد کے تمام عربستان بت پرست ہوگیا تھا، اسی بناء پر رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بھی بعثت سے پہلے حضرت ابراھیم(علیہ السلام) کے دین پر تھے[۱۱]۔
……………………….
حوالے:
[۱] اعیان الشیعه، ج ، ‌ص ۳۱۲؛ البدایه و النهایه، ج۱-۲، ص۲۵۲.
[۲] دایره المعارف فارسی، ج۲، ص۱۶۷۳.
[۳] لغت نامه دهخدا، ج۹، ص۱۳۸۶۶.
[۴] دایره المعارف فارسی، ج۲، ص۱۶۷۳.
[۵] لغت نامه دهخدا، ج۹، ص۱۳۸۶۶؛ فروغ ابدیت، ج۱-۲، ص۱۳۹.
[۶] ابراهیم آیتی،‌ تاریخ پیامبر، ص۵۱-۵۲.
[۷] اصول كافی، ج۱، ص۴۳۹.
[۸] اسدالغابه، ج۱، ص۱۳؛ التنبیه والاشراف، ص۱۶۹؛ بحارالانوار، ج۱۵، ص۱۲۵.
[۹] اسدالغابه، ج۱، ص۱۳، بحارالانوار، ج ۱۵، ص۱۲۵
[۱۰] تاریخ زندگانی پیامبر اسلام؛ دکتر اصغر منتظرالقائم،ص۴۲.
[۱۱] ۶۶۵ پرسش و پاسخ در محضر علامه طباطبائی(ره)، ص۹۶ـ۹۷۔

منبع: http://www.soalcity.ir/node/775

تبصرے
Loading...