حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کی دھوکہ بازی)

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس کی تشریح و وضاحت لکھتے ہوئے اس فقرہ پر گفتگو ہورہی ہے کہ آنحضرتؑ نے کوفیوں کی دھوکہ بازی اور عہدشکنی کی یاددہانی کی، فرمایا: “اے اہل کوفہ، اے دھوکہ دینے والو اور عہد توڑ دینے والو “

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کی دھوکہ بازی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی پاک اور نیک آل پر صلوات بھیج کر کوفیوں کی یوں مذمت کی: أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ [1]، “اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ دینے والو اور عہد توڑ دینے والو “۔
تشریح: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے یہ دوسرا مضمون نذرانہ عقیدت کے طور پر تحریر کیا جارہا ہے، جس میں آپ (سلام اللہ علیہا) نے اہل کوفہ کو دھوکہ باز اور عہدشکن کہا ہے۔
“اما بعد جو خطبوں کی ابتداء میں بیان کیا جاتا ہے، عموماً اس کے بعد حمد و صلوات کے الفاظ مدنظر ہوتے ہیں جن کو بولا نہیں جاتا،  یعنی “اما بعد الحمد و الصلوة ” اس  کا مطلب یہ ہے: “اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی آلؑ پر صلوات کے بعد”…۔
لفظ “اھل” کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دھوکہ بازی اور عہدشکنی ان کی عادت بن چکی تھی۔ ختل لغت میں دھوکہ کے معنی میں ہے اور غدر خیانت اور عہدشکنی کے معنی میں ہے۔ یہ صفات کوفیوں میں پہلے سے پائی جاتی تھیں، اسی لیے حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے ان الفاظ کے ذریعے اہل کوفہ کو ان کے برے اعمال کی طرف متوجہ کیا اور یہ مذمت ان لوگوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے کہ وہ کئی تاریخی موقعوں پر خیانت کرتے رہے۔
کوفیوں کی چند خیانتیں:
ایک خیانت: جنگ صفین میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے لشکر نے نہر کے کنارے قیام اختیار کیا اور معاویہ کی پانی تک رسائی نہیں تھی، اس نے عجیب دھوکہ اور خاص حربہ استعمال کیا۔ اس نے ایک خط لکھا اور اس کو تیر پر باندھ کر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے قیام گاہ کی طرف پھینکا، اس نے اس خط میں لکھا تھا: میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس جگہ کو چھوڑ دو، کیونکہ معاویہ کا ارادہ ہے کہ ایک راستہ بنائے اور اس علاقہ کو پانی میں ڈبو دے اور تم سب کو غرق کرکے نابود کردے۔ حضرت علی (علیہ السلام) کے اصحاب اس خط کو پا کر معاویہ کے دھوکہ میں آگئے اور انہوں نے فوراً اپنی قیام گاہ کو تبدیل کردیا جبکہ حضرتؑ نے ان لوگوں کو معاویہ کی اس دھوکہ بازی اور اس علاقہ پر قبضہ کرنے کے مقصد سے اور ایسے کام کے نہ کرپانے سےآگاہ کیا، لیکن ان لوگوں نے مولاؑ کی اس بات کو تسلیم نہ کیا اور جونہی انہوں نے اس قیام گاہ کو چھوڑا تو فوراً معاویہ نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا جو جناب مالک اشتر (علیہ السلام) نے دیگر مجاہدین کی مدد سے اُس جگہ کو واپس لے لیا۔[2]
دوسری خیانت: جب جنگ صفین آخری مراحل پر پہنچی ہوئی تھی اور معاویہ فرار کررہا تھا تو اس نے عمروعاص سے کہا کہ کوئی چارہ جوئی کرو۔ عمروعاص نے کہا: حکم دو کہ قرآنوں کو نیزوں پر چڑھایا جائے، کیونکہ یہ کام ہماری فتح اور علی کے لشکر کے بکھر جانے کا باعث بنے گا۔ انہوں نے جنگ سے فرار کرنے کے لئے قرآن کو بہانہ بنالیا کہ قرآن ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ کوفی اس حربہ سے دھوکہ کا شکار ہوگئے جبکہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ان کو اس کام کے دھوکہ ہونے پر اصرار کرتے رہے ، لیکن کوفی اپنی غلطی پر ڈٹے رہے، بلکہ انہوں نے آپؑ کو قتل کی دھمکی دی کہ اگر آپؑ جنگ بند نہ کریں اور مالک اشتر کو صف اول سے واپس نہ منگوائیں تو ہم آپؑ کو قتل کردیں گے۔[3]
تیسری خیانت: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی شہادت اور امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے بیعت کرنے کے بعد، انہوں نے معاویہ سے جنگ کرنے کے سلسلہ میں امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کو تنہا چھوڑ دیا اور آپؑ کی مدد نہ کی۔ معاویہ نے حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی فوج کے گورنروں کو دھوکہ دے کر اور بعض کے فرار کرجانے سے یوں ماحول بنا دیا کہ کوفیوں نے سمجھا کہ امامؑ، معاویہ سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا جب امامؑ نے شہر ساباط میں اپنی فوج کو آزمانے کے لئے خطاب کیا تو انہوں نے معاویہ کی کارستانیوں سے متاثر ہوکر امامؑ کے مخالف ہنگامہ کرتے ہوئے امامؑ کے خیمہ پر حملہ کیا اور خیمہ میں جو کچھ امامؑ کا تھا، لوٹ لیا اور آنحضرتؑ کو زخمی کردیا۔[4]
چوتھی خیانت: عبیداللہ ابن زیاد نے کوفہ کے لوگوں کے ہنگامہ کی روک تھام کرنے کے لئے ان سے کہا کہ یزید کی فوج شام سے روانہ ہوچکی ہے اور اب راستے میں ہے، اس نے اس دھوکہ سے لوگوں کو حضرت مسلم ابن عقیل (علیہ السلام) سے دور کردیا،[5] جبکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی طرف بارہ ہزار خطوط بھیج کر امامؑ کو عراق آنے کی دعوت دی اور اپنے خطوط کو بڑی قسموں کے ساتھ مضبوط کیا۔ کوفیوں کے ہزاروں افراد نے امامؑ کے سفیر حضرت مسلم ابن عقیل (علیہ السلام) سے بیعت کی، لیکن تھوڑی ہی دیر میں ان لوگوں نے جناب مسلم ابن عقیل (علیہ السلام) کو تنہا چھوڑ دیا اور وہ ان لوگوں کی نظروں کے سامنے شہید کردیئے گئے، آپؑ کا لاشہ کوفہ کی گلیوں میں زمین پر کھینچا گیا اور اس کے بعد، حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کے اصحاب ان لوگوں کے دھوکہ، خیانت اور خاموشی کی وجہ سے شہید کردیئے گئے اور یہ لوگ اتنے بڑے ظلم و ستم کے تماشائی بنے رہے اور حتی بعض نے اس ظلم میں حصہ بھی لیا۔
احادیث میں “غدر اور عہدشکنی” کی سخت مذمت ہوئی ہے جیسا کہ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جانِبُوا الغَدرَ؛ فإنّهُ مُجانِبُ القرآنِ[6]، “عہدشکنی سے دوری اختیار کرو کیونکہ عہدشکنی قرآن سے دور ہے”۔ الغَدرُ يُضاعِفُ السَّيِّئاتِ[7]، “عہدشکنی گناہوں کو دگنا کردیتی ہے”۔
نتیجہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے جو کوفیوں کو دھوکہ باز اور عہدشکن کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت امیرالمومنین، امام حسن مجتبی اور امام حسین (علیہم الصلاۃ و السلام) سے دھوکہ، خیانت اور عہدشکنی کرتے رہے، جن کی وجہ سے یہ معصوم حضرات، دشمنوں  پر ظاہری طور پر غلبہ اور فتح حاصل نہ کرپائے یہاں تک کہ کوفیوں کی دھوکہ بازیاں اور خیانتیں ان حضرات کی شہادت کا باعث بنتی رہیں۔ کوفیوں نے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے بیعت کی، پھر مسئلہ حکمیت میں ایسی عہدشکنی اور ہٹ دھرمی کی کہ معاویہ کے حق میں فیصلہ ختم کروا دیا اور انہی کی خیانتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار دشمن نے آنحضرتؑ کو محراب عبادت میں زہرآلود تلوار سے شہید کردیا۔ پھر انہوں نے حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے بیعت کرنے کے بعد آنحضرتؑ پر ظلم کیا اور یوں تنہا چھوڑ دیا کہ آخرکار دشمن نے آنحضرتؑ کو زہر سے شہید کرکے، جنازے پر تیروں کی برسات کروادی۔ پھر حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو خطوط لکھ کر اور قسمیں کھا کر دعوت دی، پھر سفیرِ امامؑ کو اور اصحابِ امامؑ کو اور خود امامؑ کو ایسے تنہا چھوڑ دیا کہ آخرکار دشمن نے سفیرِ امامؑ کو سفاکانہ انداز میں شہید کردیا اور اصحابِ امامؑ کو اور خود امامؑ کو ایسی بے دردی اور بے رحمی سے شہید کیا کہ آج تک تاریخ ان شہادتوں پر گریہ کررہی ہے یہاں تک کہ پردہ غیبت میں حجت آخر بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) بھی شب و روز اپنے جد سیدالشہداء (علیہ السلام) پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ کوفیوں کی دھوکہ بازی اور عہدشکنی کے نتائج کربلا تک ہی اختتام پذیر نہ ہوئے، بلکہ وہاں سے آل رسولؐ کو قیدی کرکے کوفہ و شام میں لایا گیا، سلالہ رسالت کی بے حرمتی کی گئی اور اہل بیت (علیہم السلام) کے حق کو پامال کیا گیا تو جب ان خیانتکاروں کے شہر میں خاندان رسالت کو قیدی کرکے لایا گیا تو وہاں پہنچ کر جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ[8]، “اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ کرنے والو اور عہد توڑ دینے والو “۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
[2] صفين، نصر بن مزاحم، ص190 سے ماخوذ۔
[3] ارشاد مفيد، ص128سے ماخوذ۔
[4] ارشاد مفيد، ص171 سے ماخوذ۔
[5] الامام الحسين، ج2، ص429 سے ماخوذ۔
[6] غرر الحكم : 4741۔
[7] غرر الحكم : 643۔
[8] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔

تبصرے
Loading...