حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کی عہدشکنی)

خلاصہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کوفیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہوئے ان کو اس عورت سے تشبیہ دے رہی ہیں جس عورت کے مذمت آمیز کام جیسا کام کرنے سے منع کیا ہے، اس سے قرآن کریم یہ درس دینا چاہتا ہے کہ بیعت اور عہد کو مت توڑو، اور آنحضرتؑ اس تشبیہ کے ذریعہ یہ سمجھانا چاہ رہی ہیں کہ تم اہل کوفہ عہد شکن ہو۔

حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کوفہ کی تشریح (کوفیوں کی عہدشکنی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے کوفہ کے لوگوں کے سامنے خطبہ کا اللہ کی حمد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آنحضرتؐ کی پاک اور نیک آل پر صلوات بھیجتے ہوئے آغاز کیا، اس کے بعد کوفیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کی اس طرح مذمت کی: أَمّا بَعْدُ يا أَهْلَ الْكُوفَةِ، يا اهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ أَتَبکُونَ فَلا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لا هَدَأَتِ الرّنّةُ إِنَّما مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ[1]،“اما بعد، اے اہل کوفہ، اے دھوکہ کرنے والو اور عہد توڑ دینے والو کیا گریہ کرتے ہو؟ تمہارے آنسو نہ رُکیں اور تمہاری آہ و فغان بند نہ ہو، تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو”۔
تشریح: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے کوفہ میں خطبہ کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے یہ چوتھا مضمون نذرانہ عقیدت کے طور پر تحریر کیا جارہا ہے، جس میں کوفیوں کی عہدشکنی کے سلسلے میں گفتگو ہورہی ہے۔
حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) اہل کوفہ کی عہدشکنی کو قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں بیان فرمارہی ہیں اور قرآن کریم نے ایک تاریخی واقعہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو اس طرح کے کام سے منع کیا ہے۔ آپؑ فرماتی ہیں: “تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان مکر و فریب کا ذریعہ بناتے ہو”۔
قرآن مجید میں ارشاد الہی ہورہا ہے:وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ  .وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ  .وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ  .وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ . وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا إِنَّمَا عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ[2]، “اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہرگز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بناچکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے۔ اور خبردار اس عورت کے مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا-کیا تم اپنے معاہدے کو اس چالاکی کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے-اللہ تمہیں ان ہی باتوں کے ذریعے آزما رہا ہے اور یقینا روزِ قیامت اس امر کی وضاحت کردے گا جس میں تم آپس میں اختلاف کررہے تھے۔ اور اگر پروردگار چاہتا تو جبراتم سب کو ایک قوم بنادیتا لیکن وہ اختیار دے کر جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچادیتاہے اور تم سے یقینا ان اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جوتم دنیا میں انجام دے رہے تھے۔ اور خبردار اپنی قسموں کو فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کہ نو مسلم افراد کے قدم ثابت ہونے کے بعد پھر اکھڑ جائیں اور تمہیں راہ خدا سے روکنے کی پاداش میں بڑے عذاب کا مزہ چکھنا پڑے اور تمہارے لئے عذابِ عظیم ہوجائے۔ اور خبردار اللہ کے عہد کے عوض معمولی قیمت (مال دنیا) نہ لو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے بوجھتے ہو”۔[3]
جس عورت کے مذمت آمیز کام کو قرآن کریم نے مدنظر رکھتے ہوئے، ایسے کام سے منع کیا ہے، اس عورت (رابطہ یا ریطہ) کا تاریخی لحاظ سے واقعہ یہ ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں صبح سے دوپہر تک خود اور اس کی کنیزیں اون اور بالوں کو کاتتی تھیں، اور اس کے بعد اپنی کنیزوں سے کہتی تھی کہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردو اور روزانہ اس کا کام یہی رہتا تھا، اسی لیے عربوں میں “بیوقوف عورت” کے نام سے مشہور ہوگئی۔ لہذا قرآن کریم ان لوگوں کو جو اللہ سے عہد کرنے کے بعد عہد شکنی کردیتے ہیں، ان کو اس مثال کے ذریعے عہدشکنی کرنے سے منع کررہا ہے۔
قرآن کی اسی مثال کو حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ میں استعمال کرتے ہوئے کوفیوں کو اس عورت جیسا سمجھا ہے کہ وہ عہد کرکے توڑ دیتے ہیں، پھر دوبارہ عہد کرکے توڑ دیتے ہیں اور وہ اس کام کو دہراتے رہتے ہیں۔ انہوں نے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے بیعت کی تو عہدشکنی کردی، حضرت امام حسن (علیہ السلام) سے بیعت کی تو بیعت توڑ دی، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو کثیر تعداد میں خطوط تحریر کرکے بھیجے اور کوفہ آنے کی دعوت دی تو اس موقع پر بھی عہدشکنی کردی کہ آنحضرتؑ کے سفیر حضرت مسلم ابن عقیل (علیہ السلام) کی شہادت میں اور حضرت امام حسین (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کے اصحاب کو شہید کرنے میں بھی وہ حصہ دار بن گئے۔ جیسا کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے منزل بیضہ میں اور نیز عاشورا کے دن کوفیوں کی عہدشکنی کے سلسلے میں ان کی مذمت کی۔[4]
عہد شکنی اور بیعت توڑنے کی مذمت قرآن کی نظر میں: قرآن کریم بنی اسرائیل کی عہدشکنی پر یوں مذمت کررہا ہے: فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا[5]، “پس ان کے عہد کو توڑ دینے، آیات خدا کے انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کر دینے اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارے دلوں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدا نے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے اور اب چند ایک کے علاوہ کوئی ایمان نہ لائے گا”۔
قرآن مدینہ کے یہودیوں کی مذمت کرتا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد کرتے تھے اور پھر اسے توڑ دیتے تھے، فرمایا: إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ . الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ[6]، “زمین پر چلنے والوں میں بدترین افراد وہ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کرلیا اور اب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ جن سے آپ نے عہد لیا اور اس کے بعد وہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور خدا کا خوف نہیں کرتے”۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرکے بیعت کو توڑنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا[7]، “بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہٰی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسی کو اجر عظیم عطا کرے گا”۔
عہد شکنی اور بیعت توڑنے کی مذمت روایات کی نظر میں:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: ثلاثةٌ لا يُكلِّمُهُمُ اللّه ُ … رجُلٌ بايَعَ إماما لا يُبايِعُهُ إلاّ للدُّنيا، إنْ أعْطاهُ مِنها ما يُريدُ وَفى لَهُ، و إلاّ كَفَّ[8]، “تین افراد ایسے ہیں جن سے اللہ کلام نہیں کرے گا … وہ مرد جس نے کسی امام سے بیعت کی، اس نے بیعت صرف دنیا کے لئے کی ہو، اگر امام نے اسے دنیا میں سے عطا کردیا جو وہ چاہتا تھا تو وہ امام سے وفا کرے گا ورنہ اس سے کنارہ کشی کرلے گا”۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: إنّ في النّارِ لَمدينةً يُقالُ لها الحَصِينةُ ، أ فَلا تَسْألونّي ما فِيها ؟ فقيلَ لَهُ : و ما فِيها يا أميرَ المؤمنينَ؟ قالَ: فيها أيْدي النّاكِثينَ[9]، “یقیناً آگ (دوزخ) میں ایک شہر ہے جس کو حصینہ کہا جاتا ہے، کیا مجھ سے نہیں پوچھتے ہو کہ اس شہر میں کیا ہے؟ تو آپؑ سے عرض کیا گیا: اس میں کیا ہے یا امیرالمومنین؟ آپؑ نے فرمایا: اس میں عہد شکنی کرنے والوں کے ہاتھ ہیں۔
نتیجہ: حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) قرآنی مثال کو کوفہ کے لئے استعمال کرتی ہوئیں ان کو بیعت توڑنے والے اور عہد شکنی کرنے والے ثابت کررہی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے حضرت امیرالمومنین، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام اجمعین) سے بیعت اور عہد کیا، لیکن بعد میں توڑ دیا، یعنی ایک دفعہ بیعت نہیں توڑی، بلکہ جتنی دفعہ بیعت کی توڑ دی اسی لیے حضرت زینب عالیہ (سلام اللہ علیہا) ان کی اس گھٹیا کام پر مذمت کررہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص109۔
[2] سورہ نحل، آیت 91 سے 95 تک۔
[3] ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[4] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج45، ص8۔
[5] سورہ نساء، آیت 155۔
[6] سورہ انفال، آیت 55، 56۔
[7] سورہ فتح، آیت 10۔
[8] الخصال، شیخ صدوق، ص107، ح70۔
[9] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج67، ص187۔

تبصرے
Loading...