حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کا ولایت کے تحفظ میں کردار

خلاصہ: حضرت ام البنین وہ باعظمت خاتون ہیں جنہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی اولاد کی دیکھ بھال کی اور پروان چڑھایا اور جب امام حسین (علیہ السلام) نے قیام کیا تو آپؑ نے اپنے چاروں بیٹوں کو امام حسین (علیہ السلام) پر قربان کردیا، نیز آپؑ نے گریہ و زاری اور نوحہ خوانی کرکے واقعہ کربلا کو زندہ رکھا اور مرثیہ خوانی کے ذریعے لوگوں کو بنی امیہ کے ظلم و ستم سے آگاہ کیا۔

حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کا ولایت کے تحفظ میں کردار

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقام ولایت کی معرفت: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کو ادیب، فصیح شاعرہ اور علم و فضیلت کی حامل خاتون پہچانا گیا۔[1]  آپؑ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی زوجہ ہیں جو اہل بیت (علیہم السلام) کی امامت اور ولایت کی معرفت رکھنے کی وجہ سے تاریخ اسلام اور تاریخ شیعہ میں عظیم مقام کی مالک ہیں۔
آپؑ کی قربانیاں زبان زد عام و خاص ہیں جیسا آپؑ نے حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کی اولاد کی دیکھ بھال کی اور اپنے چار بیٹوں کو امام حسین (علیہ السلام) کے الہی مقصد پر قربان کردیا اور جناب صدیقہ طاہرہ (علیہاالسلام) کی اولاد کو اپنی اولاد پر ترجیح دی، آپؑ کی یہ قربانیاں اس امر کی دلیل ہیں کہ آپؑ اہل بیت (علیہم السلام) کے عظیم مقامِ امامت و ولایت کی معرفت کے درجہ پر فائز تھیں۔
زوجہ کی تلاش واقعہ کربلا کے پیش نظر: جناب عقیل (علیہ السلام) کیونکہ علم انساب کے ماہر تھے تو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے حضرت عقیل (علیہ السلام) سے فرمایا: اُنظر لی اِمرأة ولدتها الفحولة من العرب لاتزوّجها فتلد لی غلاما فارسا [2]، “میرے لیے ایسی خاتون تلاش کرو  جو عرب کے شجاعوں کی اولاد میں سے ہو تا کہ میں اس سے شادی کروں اور وہ میرے لیے گھوڑا سوار (شجاع) بیٹا پیدا کرے”۔ حضرت عقیل (علیہ السلام) نے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے عرض کیا: تزوّج ام البنین الکلابیة فانه لیس فی العرب اشجعُ من آبائها ، “ام البنین کلابیہ سے شادی کیجیے کیونکہ عرب میں ان کے باپ داداوں سے زیادہ شجاع کوئی نہیں ہے”۔
حسنین شریفینؑ کی دیکھ بھال: مورخین نے لکھا ہے کہ جب جناب فاطمہ کلابیہ ام البنین (علیہاالسلام) حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائیں تو امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) مریض تھے، آپؑ ان سے پیار سے بات کرتیں اور دل کی گہرائی سے ان کی دیکھ بھال کرتیں اور بالکل حقیقی ماں کی طرح ان سے برتاو کرتیں، وہ حضراتؑ بھی آپؑ سے محبت کرتے اور حضرت زینب (علیہاالسلام) واقعہ کربلا کے بعد آپؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لائیں اور آپؑ کو تسلی دی اگرچہ حضرت زینب (علیہاالسلام) نے خود زیادہ مصائب کو جھیلا تھا، اور عیدوں کے موقع پر بھی یہ حضراتؑ آپؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لاتے جیسا کہ اگر ان حضراتؑ کی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) موجود ہوتیں تو ان کی ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے”۔[3]
مورخین کا کہنا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد جب بشیر نے مدینہ میں آکر حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کو ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی تو آپؑ نے امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھا، بشیر نے کہا: عباس کو قتل کردیا گیا۔ آپؑ نے پھر امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھا تو بشیر نے چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر دی، لیکن ام البنین (علیہاالسلام) نے فرمایا کہ مجھے ابی عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دو تو جب بشیر نے خبر دی تو آپؑ نے فرمایا: “قد قطعت نياط قلبي، اولادي ومن تحت الخضراء كلهم فداء لأبي عبدالله الحسين [4]”، ” تو نے میرے دل کی رگوں کو کاٹ دیا، میری اولاد اور جو آسمان کے نیچے ہیں سب ابی عبداللہ الحسین (علیہ السلام) پر قربان ہوں”۔
واقعہ عاشورا کو زندہ رکھنے میں حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کا کردار: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ آپؑ زمانہ کے مسائل پر توجہ رکھتی تھیں۔ آپؑ نے واقعہ عاشورا کے بعد مرثیہ خوانی اور نوحہ خوانی کے ذریعے سے کربلا کے مظلوموں کی آواز کو مستقبل کی نسلوں تک پہنچایا جیسا کہ آج ہم تک آپؑ کے مرثیہ پہنچے ہیں۔ حضرت ام البنین (علیہاالسلام) پہلی خاتون ہیں جنہوں نے حضرت عباس (علیہ السلام) اور اپنے دیگر بیٹوں کی سوگ میں مرثیہ پڑھا۔ حضرت عباس (علیہ السلام) کے بیٹے جناب عُبیداللہ میدان کربلا میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ موجود تھے اور چشم دید گواہ تھے لہذا جناب عُبیداللہ عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے واضح ثبوت تھے۔ جناب ام البنین (علیہاالسلام) روزانہ اپنےپوتے عبیداللہ ابن عباس کے ساتھ قبرستان بقیع میں جاتیں اور اپنے بیٹوں کی سوگ مناتیں۔ آپؑ کی اس نوحہ خوانی اور غم انگیز اشعار کے ذریعہ کربلا کے واقعہ کی بھی یاددہانی ہوتی اور نیز عزاداری کے انداز میں حکومتِ وقت پر بھی ایک طرح کی تنقید ہوتی اور جو لوگ آپؑ کے اردگرد اکٹھے ہوجاتے، ان کو بنی امیہ کے ظلم و ستم کی پہچان ہونے لگتی۔
حضرت ام البنین (علیہماالسلام) کا گریہ: کہا گیا ہے کہ حضرت زینب کبری (علیہاالسلام) مدینہ میں داخل ہونے کے بعد، جناب ام البنین (علیہاالسلام) کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئیں اور آپؑ کو آپؑ کے بیٹوں کی شہادت کی تعزیت دی۔[5] حضرت زینب کبری (علیہاالسلام) کا آپؑ کی ملاقات کے لئے تشریف لے جانا، آپؑ کی عظمت اور بلند مقام پر دلیل ہے۔ اس ملاقات کے بعد جناب ام البنین (علیہاالسلام) روزانہ اپنے پوتے عُبیداللہ کے ساتھ قبرستان بقیع میں جاتیں اور جو اشعار آپؑ کے اپنے تھے، آپؑ وہاں پر ان اشعار کو پڑھتیں اور دردناک گریہ کرتیں۔ لوگ آپؑ کے اردگرد اکٹھے ہوجاتے اور آپؑ کے ساتھ روتے، حتی کہا گیا ہے کہ مروان ابن حکم بھی آتا اور وہاں پر روتا۔[6] امالی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) پر پانچ سال گریہ کیا گیا، اُمّ جعفر کلابی (امّ البنين) امام حسین (علیہ السلام) کے لئے مرثیہ پڑھتی تھیں اور روتی تھیں یہاں تک کہ آپؑ کی آنکھیں نابینا ہوگئیں، مروان مدینہ کا حاکم نامعلوم طریقہ سے آتا اور دروازہ کے پیچھے کھڑا ہوکر آپؑ کے گریہ کرنے اور مرثیہ خوانی کو سنتا۔
حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کے مقام کے بارے میں علماء کے تاثرات: شہید ثانی حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کے بارے میں فرماتے ہیں: و کانت ام البنین من النساء الفاضلات العارفات بحق اهل البیت مخلصة فی ولائهم ممحضة فی مودّتهم و لها عندهم الجاه الوجیه و المحلّ الرفیع، “ام البنین بامعرفت اور بافضیلت خواتین میں سے تھیں اور انہیں اہل بیتؑ کے حق کی معرفت تھی اور ان کی ولایت میں مخلص اور ان کی مودت میں مضبوط تھیں اور آپؑ کا اہل بیتؑ کی نظر میں خاص مقام اور بلند منزلت ہے”۔
علامہ محسن امین فرماتے ہیں: “ام البنین (علیہاالسلام) خوش بیان شاعرہ تھیں اور معزز اور شجاع گھرانہ سے تھیں”۔
علامہ مامقانی تحریر فرماتے ہیں: فَاِنّ علَقَتها بالحسین(ع) لیس اِلاّ لاِمامته علیه السلام،  “حضرت ام البنین کی امام حسین (علیہ السلام) سے محبت صرف آنحضرتؑ کی امامت کی وجہ سے تھی (نہ کہ اس لیے کہ آپؑ نے آنحضرتؑ کو اپنے دامن میں پروان چڑھایا تھا)”۔
علی محمد علی دُخَیِّل، عرب کے دور حاضر کے مصنف نے اس عظیم خاتون کی شان میں لکھا ہے: “اس خاتون (ام البنینؑ) کی عظمت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انہیں ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس خبر پر توجہ نہیں کرتیں، بلکہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی سلامتی کے بارے میں پوچھتی ہیں، گویا ان کے بیٹے امام حسین (علیہ السلام) ہیں نہ کہ وہ”۔[7]
نتیجہ: حضرت ام البنین (علیہاالسلام) نے حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کے بچوں کا ان کے بچپن میں دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ تحفظ کیا اور جب وہ بچے آپؑ کی زیرنگرانی بزرگی کے عالم میں پہنچ گئے اور انہوں نے اللہ کے دین کی حفاظت کرنا چاہا تو آپؑ نے اپنے چاروں بیٹوں کو اللہ کے دین کے تحفظ کے لئے امام حسین (علیہ السلام) کی زیرنگرانی خدا کی راہ میں قربان کردیا۔ کیا شان و عظمت ہے حضرت ام البنین (علیہاالسلام) کی، کہ شوہر وہ ہے جو باب مدینۃ العلم ہے اور اس شوہر سے ایسا بیٹا پیدا ہوا جو باب الحوائج ہے اور قمر بنی ہاشم بھی ہے یعنی بنی ہاشم کا چاند۔ جناب ام البنین (علیہاالسلام) وہ ولایت شناس اور دین الہی کا تحفظ کرنے والی خاتون ہیں جنہوں نے گریہ کرنے، نوحہ خوانی اور سوگ منانے کے ذریعے واقعہ کربلا کو زندہ رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] اعلام النساء المؤمنات، حسون، ص496-497۔
[2] مقرّم، قمر بنی هاشم، ص51۔
[3] مقرّم، قمر بنی هاشم، ص16، قهرمان علقمه، ص38۔
[4] طّف أو شعراء الحسين عليه السلام، جواد شبر، ج۱، ص74۔
[5] قمر بنی هاشم، عبدالرزاق موسوی مقرم، ص16 ۔
[6] مقاتل الطالبین، ابوالفرج اصفہانی، ص85۔
[7] ان چاروں تاثرات کا حوالہ: …http://www.hawzah.net/fa

تبصرے
Loading...