حضرت احمد ابن موسی شاه چراغ (علیه السلام) کا تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت احمد ابن موسی شاه چراغ علیه السلام کا تعارف
بارہ صدیوں سے زائد عرصہ سے ایران کا علاقہ فارس، حضرت احمد بن موسی کے وجود سے متبرک ہے۔ آپ شیعوں کی بزرگ شخصیات میں سے ایک معنوی شخصیت کے طور پر شمار ہوتے ہیں۔

آپ کے یوم تعظیم کا تعین
۱۳۸۶ شمسی میں صوبہ فارس کی ثقافتی جنرل کونسل (شورای فرہنگ عمومی) نے چاہا کہ حضرت احمد بن موسی شاه چراغ (علیه السلام) کی ولادت کی تاریخ معلوم کی جائے، لہذا ولادت کی درست تاریخ معلوم کرنے کے لئے مورخین اور محققین نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا، لیکن کاوشوں کے بعد وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ حضرت شاہ چراغ کے یوم ولادت کی درست تاریخ معلوم نہیں ہے اور اس سلسلے میں مختلف نقلیں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے یہ فیصلہ طے پایا کہ دہہ کرامت یعنی حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) اور حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے یوم ولادت کے درمیان کسی دن کو حضرت احمد بن موسی “شاہ چراغ” کی تعظیم کے لئے مقرر کردیا جائے، بنابریں ایران کی ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل نے ۲۴ شہریور ۱۳۸۸ شمسی میں ۶ ذیقعدہ یعنی دہہ کرامت کے پانچویں دن کو حضرت احمد بن موسی شاہ چراغ کے یوم تعظیم کے طور پر، ملک کے قومی اور اسلامی تقریبات کے کیلنڈر میں منظور کردیا۔

تین طرف سے امامت کا حصار
حضرت احمد ابن موسی شاه چراغ (علیه السلام) جو سیدالسادات الاعاظم سے مشہور ہیں، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے ہیں۔ آپ ایران کے مشہور و معروف امامزادوں میں سے ہیں، آپ کی شان و عظمت کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ آپ ساتویں امام کے فرزند، آٹھویں امام کے بھائی اور نویں امام کے چچا ہیں۔ واضح ہے کہ جب تین طرف سے ائمہ اطہار (علیہم السلام) سے تعلق ہو تو آفتاب امامت و عصمت کی کرنوں سے فیضیابی، آپ کے عظیم کمالات، فضائل اور کردار میں نمایاں ہیں۔

باعظمت والدہ کے فرزند
احمد ابن موسی اور محمد ابن موسی ایک ہی والدہ جنہیں ام احمد کہا جاتا تھا، سے پیدا ہوئے۔
علامہ مجلسی کتاب مرآۃ العقول میں پندرہویں حدیث کی تشریح میں تحریر فرماتے ہیں: ام احمد آنحضرت کی بعض اولاد کی والدہ تھیں اور وہ آپ کی نظر میں زوجات میں سے عالم ترین، پرہیزگارترین اور گرامی ترین زوجہ تھیں کہ آپ اپنے اسرار، ان کے سپرد کرتے تھے اور اپنی امانتوں کو ان کے پاس رکھتے تھے۔
کتاب اصول کافی کے باب “امام کو کس وقت معلوم ہوتا ہے کہ امام ہے” میں بیان ہوا ہے کہ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے ایک مہربند امانت، جناب ام احمد کے سپرد کی اور فرمایا: میری شہادت کے بعد میری اولاد میں سے جو شخص اس امانت کو لینے کے لئے آیا، میرا خلیفہ ہے۔ اس سے بیعت کرنا کہ اللہ کے علاوہ کسی کو اس امانت کا علم نہیں ہے۔ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد، حضرت امام رضا (علیہ السلام) جناب ام احمد کے پاس تشریف لائے اور باپ کی امانت طلب کی۔ جناب ام احمد رونے لگیں اور جان لیا کہ امام موسی کاظم (علیہ السلام) شہید ہوگئے۔ لہذا اس محترمہ خاتون نے ساتویں امام کی وصیت کے مطابق امانت حضرت امام رضا (علیہ السلام) کو پیش کردی اور آپ سے شیعوں کے آٹھویں امام کے طور پر بیعت کی۔
علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) نے تحریر فرمایا ہے: امام (کاظم علیہ السلام) نے بغداد کی طرف سفر کرتے ہوئے، جناب ام احمد سے فرمایا: ” كُلِّ من جائَكِ وطالَبَ منكِ هذِهِ الامانة في ايِّ وقتٍ مِنَ الاوقات، فاعلمي باَنّي قد استشهدتُ و اَنّه هو الخليفة من بعدي و الامام المفترض الطاعة عليك وعلي سائر النّاس“[1]، “جو شخص آپ کے پاس آئے اور اس امانت کو طلب کرے، جو زمانہ بھی ہو، جان لینا کہ میں شہید ہوگیا ہوں اور وہ شخص میرے بعد خلیفہ ہے اور امام ہے جس کی اطاعت آپ پر اور دیگر لوگوں پر واجب ہے۔

حضرت شاہ چراغ کا لائق تحسین کردار
نقل ہوا ہے کہ حضرت احمد ابن موسی (علیہ السلام) کریم تھے اور حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔[2]
شیخ مفید (علیہ الرحمہ) اس طرح آپ کی عظمت بیان کرتے ہیں: احمد ابن موسی (ع) کریم النفس، جلیل القدر اور پرہیزگار آدمی تھے، آپ کے والد آپ سے محبت کرتے تھے اور بعض دیگر فرزندوں پر آپ کو ترجیح دیتے تھے۔ امام کاظم (ع) نے اپنی زراعتی زمین جو “یسیرہ” کے نام سے مشہور تھی، آپ کو بخش دی اور احمد ابن موسی ابن جعفر (ع) نے ہزار غلام آزاد کیے۔[3]
شیخ مفید (علیہ الرحمہ) اسماعیل ابن موسی ابن جعفر (ع) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: ایک سفر میں میرے باپ کے بیس خادم احمد کے ساتھ تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ جب احمد کھڑے ہوتے اور بیٹھتے تو وہ بھی ان کے احترام میں کھڑے ہوتے اور بیٹھ جاتے، میرے باپ ہمیشہ احمد پر خاص توجہ رکھتے تھے اور ان سے غافل نہیں ہوتے تھے اور ان سے نظر نہیں ہٹاتے تھے۔[4]
کشی نے حضرت احمد ابن موسی (علیہ السلام) کو اپنے زمانے کے فضلا میں سے ذکر کیا ہے، وہ آپ کو ان محدثین کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے اپنے والد بزرگوار اور اجداد کرام سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں اور لکھتے ہیں: احمد ابن موسی نے اپنے دست مبارک سے قرآن کریم لکھا ہے۔[5]

حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) سے بیعت
اگرچہ ساتویں امام کی شہادت کے بعد بعض لوگ حضرت احمد ابن موسی (علیہ السلام) کو امام سمجھتے ہوئے آپ کے گھر کے سامنے اکٹھا ہوگئے۔ حضرت احمد ابن موسی (علیہ السلام) نے منبر پر جا کر فصیح و بلیغ خطبہ دیتے ہوئے واضح طور پر کہا: “جیسے آپ لوگ میری بیعت میں ہیں، میں اپنے بھائی علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کی بیعت میں ہوں، میرے والد کے بعد پیشوا اور جانشین وہ ہیں، وہ ولی اللہ ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے مجھ پر اور آپ پر واجب ہے کہ جس بات کا وہ حکم دیں، ہم فرمانبرداری کریں۔[6]
پھر سب لوگوں نے حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے بیعت کرلی اور امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کے لئے دعا فرمائی۔[7]

شہادت اور قبر مبارک
آپ مامون کی خلافت کے دور میں ایران تشریف لے گئے اور حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر سن کر، شیراز میں ٹھہر گئے اور وہیں پر مقام شہادت پر فائز ہوئے، آپ کی قبر مبارک کئی برسوں تک شیراز میں مخفی رہی، یہاں تک کہ ۳۳۸ – ۳۷۲ ہجری قمری کے سالوں کے درمیان عضدالدوله ديلمي کے زمانہ میں آپ کی قبر ایک حیرت انگیز واقعہ میں ظاہر ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] بحارالانوار، ج48، ص307۔
[2] کشف الغمة فی معرفة الأئمة، ج‏2، ص: 236۔ الفصول المهمة، ج‏2، ص:961۔
[3] الارشاد، ج2، ص244۔
[4] الارشاد، ج2، ص245۔
[5] رجال، ص294۔
[6] بحارالانوار، ج48، ص308۔
[7] بحرالعلوم، ج2ص 27۔

تبصرے
Loading...