حدیث غدیر پر ایک اعتراض اور اس کا جواب

خلاصہ: واقعہ غدیر، عالم اسلام کا ایک اہم واقعہ ہے، اسی لئے اس کے سلسلہ میں بہت زیادہ اعتراضات کئے گئے ہیں، اس مضمون میں ان اعتراضوں میں سے ایک اعتراض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے۔

حدیث غدیر پر ایک اعتراض اور اس کا جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     واقعۂ غدیر اہم ترین اسلامی واقعات میں سے ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت غدیر خم کے نام سے مشہور مقام پر تمام حاجیوں کو روک کر امیرالمؤمنین حضرت علی(علیہ السلام) کو لوگوں کے ولی اور اپنے جانشین کے طور پر متعارف کرایا اور اس موقع پر موجود حاضرین منجملہ اکابرین صحابہ نے امیرالمؤمنین حضرت علی(علیہ ا لسلام) کے ہاتھ پر بیعت کی۔
     لیکن اس کے بارے میں بہت زیادہ اعتراضات کئے گئے ہیں جن میں سے ایک اعتراض کی طرف اشارہ کرکے اس مختصر تحریر میں اس کے جواب کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
     اہل سنت معتقد ہیں کہ حدیث غدیر، حضرت علی( علیہ السلام) کی خلافت کو ثابت نہیں کرتی بلکہ صرف ان کی فضیلت کو بیان کرتی ہے۔
     وہ کہتے ہیں: ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو، دوسرے الفاظ میں صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جس کا پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے صادر ہونا یقینی ہو، خاص کر کے شیعہ عقیدہ کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ اس اہم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ہونا چاہیے، اس اعتبار سے بعض اہل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ہوئے اسے استدلال کے قابل نہیں سمجھا، جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کہتے ہیں:
     ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ہونے کا دعوی، بے دلیل ہے، کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔[۱]
     ابن حجر ھیثمی کا کہنا ہے: شیعہ فرقہ اس بات پر متفق ہے کہ جو چیز امامت کے اوپر دلیل کے عنوان سے پیش ہونا چاہیے اسے متواتر ہونا چاہیے، حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ہونا معلوم ہے، جنہوں  نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے، علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ ” خبر واحد” ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[۲]
     ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔[۳]

اعتراض کاجواب:
     یہ اشکال ہر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بہت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے، واضح ہے کہ تعصب اور بغض کی وجہ سے ہے، ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا یا ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا، جو اسلام کے مسلمات میں سے ہیں۔
     ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کو جاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں “الغدیر” علامہ امینی، ” عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور ” احقاق الحق و ملحقاتہ” شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
     کتاب احقاق الحق میں علماء اہل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فہرست نقل ہوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذہبی شامل ہیں، ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔[۴]
     ابن حزم نے بھی منھاج السنہ میں یہی کہا ہے۔[۵]
     علامہ امینی نے “ الغدیر” میں اہل سنت کے تینتالیس بڑے اور بزرگ علماء[منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی] کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں جو حدیث غدیر کے صحیح السند ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔[۶] نیز اہل سنت کے تیس بڑے مفسرین[منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی] کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت« یَا أَیُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْكَ مِن رَّ‌بِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِ‌سَالَتَهُ[سورۂ مائدہ، آیت:۶۷] اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا »، کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے مربوط قرار دیا ہے۔[۷]
     کتاب احقاق الحق میں حدیث غدیر کو اہل سنت کے پچاس معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔ جیسے سنن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔[۸]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
۱۔ ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي۔
۲۔ تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، ۱۹۹۵م.
۳۔  تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، ۱۹۸۴م.
۴۔ طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، ۱۹۹۲م.
۵۔ غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه۔
۶۔ ابن‌ حبان، علي‌ بن بلياني؛ صحيح‌ ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، [بي‌نا]،[بي‌تا] ۱۹۹۳م.
۷۔ ابن ‌حجر عسقلاني، شهاب‌الدين؛ فتح‌ الباري؛ بيروت: دارالمعرفة۔
۸۔ ابن‌ حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في ‌الملل والاهواء؛ بيروت۔
مأخذ: http://ur.abna24.com/cultural/islamic-issus/archive/2015/10/01/713235/st…

تبصرے
Loading...