تفرقہ، بدترین آسمانی عذاب

امت اسلامی کی آج جو حالت ہے اس کی سب سے اہم وجہ مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا اختلاف و انتشار ہے جس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔

تفرقہ، بدترین آسمانی عذاب

پروردگار، اختلاف و انتشار اور ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑنے کو بدترین عذاب میں شمار کرتا ہے: « قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ»[انعام (8) آيه 65]؛ کہہ دیجئے کہ وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے یا پیروں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا ایک گروہ کو دوسرے سے ٹکرادے اور ایک کے ذریعہ دوسرے کو عذاب کا مزہ چکھادے -دیکھو ہم کس طرح آیات کو پلٹ پلٹ کر بیان کرتے ہیں کہ شاید ان کی سمجھ میں آجائے۔
ابن اثير کا بیان ہے کہ: « «شِيَعا» سے مراد امّت اسلامي میں تفرقہ اور انتشار ہے»[النهاية في غريب الحديث، ج 2، ص 520]
پروردگار نے اسی لیے پیغمبر اکرم صلي الله عليه و آله کو حکم دیا ہے کہ ایسے افراد کہ جو تفرقہ ایجاد کرتے ہیں یا اختلافاف کی کوششوں میں لگے ہیں ان سے رابطہ نہ رکھیں:«إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْ ءٍ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَي اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ »[انعام (8) آيه 159]؛ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے -ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا۔
اللہ، مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ مشرکوں کی طرح تفرقہ سے دچار نہ ہوں اور اپنے اختلاف پر فخر و مباہات نہ کریں: «وَ لاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ * مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَ كَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبِ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ »[روم (30) آيه 32]؛ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود گروہ گروہ ہو گئے۔ (پھر) ہر گروہ اس پر خوش ہے جو کچھ اس کے پاس ہے۔

تبصرے
Loading...