بیت المقدس کی مختصر تاریخ و تعارف

بیت المقدس یا قدس شریف جو دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے اور مقدس شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ بیت لمقدس دنیا کا تنہا ایک ایسا علاقہ ہے جس کے مثل تقدس کسی اور جگہ نہیں پایا جاتا ہے حتیٰ کہ اس قدر تقدس مکہ اور مدینہ جیسے شہروں کا بھی نہیں ہوتا ہے اس لئے کہ مکہ اور مدینہ وغیرہ کے تقدس کے صرف مسلمان ہی قائل ہیں لیکن بیت المقدس کے تقدس کے اہل اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائی اور یہودی بھی قائل ہیں چاہے لحاظ تقدس ان میں نہ پایا جاتاہو ۔ اسی لئے یہ سرزمین آج تک رنج ودشواری ہی سے روبرو رہی ہے ۔

تاریخی لحاظ سے یہ شہر قدس دنیا کے بہت قدیمی شہروں میں شمار ہوتا ہے اور یہ سرزمین تن آسمانی ادیان یعنی اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کا گہوارہ بھی شمار ہوتا آیا ہے اور اس شہر کو مختلف ادوار اور زمانوں میں الگ الگ ناموں سے یاد بھی کیا جاتا رہا ہے۔ انھیں ناموں میں ۔ یبوس ۔ ایلیا۔ کابتولینا۔ بیت المقدس۔ القدس۔ القدس الشریف۔ وغیرہ ناموں کا زیادہ بیان آیا ہے ۔

جغرافیائی نقشہ؛۔

یہ شہر بیت المقدس شرقی، بیت المقدس غربی اور شہر قدیمی تین حصوں میں تقسیم ہے اور حرم شریف شرقی حصے کے جنوبی علاقے میں ہے اس کے احاطے میں قبۃ الصخرۃ، مسجد الاقصیٰ اور دیگر اسلامی تاسیسات پائی جاتی ہیں اور اسکا پورہ صحن حرم الہی شمار ہوتا ہے ۔ حرم شریف کی لمبائی چوڑائی کل ملاکر ۱۴۴/ہزار مربع میٹر ہے  جو بیت المقدس کے قدیمی شہر کا چھٹے حصہ کے برابر ہے ۔ یہ حرم شریف مشرقی اور مغربی طرف سے ے گھرا ہوا ہے۔ اس حرم شریف کے مغربی حصہ میں چند دروازے ہیں جیسے؛۔

باب المغاربہ ؛۔ اس کو دروازہ نبی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔
باب السلسلہ؛۔ اس کو جناب داود کے دروازے کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔
باب المتواطا؛۔ یہ دروازہ باب مطہر یا باب وضو کے نام سے بھی معروف ہے ۔
باب القاطاطین؛۔
باب الحدید؛۔
باب الناظر؛۔
باب الغوانمہ؛۔

اسی طرح اس حرم شریف کے شمالی حصہ میں بھی چند دروازے ہیں جیسے ۔

باب العتم ؛۔
باب الحطہ؛۔
باب الاسباط؛۔

اکثر مسلمان حضرات نماز پڑھنے کے لئے شمالی دروازوں سے یا باب المغاربہ سے حرم میں وارد ہوتے ہیں ۔

حرم شریف کے چاروں طرف دس میٹر اونچی دیواریں ہیں۔ حرم کے بیرون شمالی حصے میں مسلمان رہا کرتے تھے اور مغربی شمال میں عیسائی اور مغربی جنوب میں یہودی رہا کرتے تھے، لیکن آخری چند سالوں میں صیہونیوں نے اپنے ظلم وستم کے ذریعہ بیت المقدس کے اطراف اچھا خاصہ حصہ اپنے قبضہ میں کر لیا ۔ صرف شہر کے مشرقی حصہ میں مسلمان آباد ہیں۔

اس حرم شریف میں چار ماذنہ [گلدستہ] ہیں ۔ ۱/ گلدستہ باب المغاربہ۔ ۲/ گلدستہ باب السلسلہ ۔ ۳/ گلدستہ باب الغوانمہ ۔ ۴/ گلدستہ باب الاسباط۔

حرم شریف کے احاطے میں بڑے بڑے سر سبز درخت لگے ہوئے ہیں جن کی آبیاری حرم ہی کے کنویں سے کی جاتی ہے ۔ حرم شریف کے اداری اور مالی کام سازمان اوقاف اسلامی کے تحت ہوتا ہے ۔حرم شریف کے علاقے میں دیگر مقدس عمارات بھی ہیں ۔ ان میں سے مسجد الاقصیٰ، قبۃ الصخرہ، قبۃ السلسلہ وغیرہ ہیں۔

قبۃ الصخرۃ؛۔

حرم شریف کے احاطے میں سب سے زیادہ جو چیز توجہ طلب ہے وہ قبۃ الصخرۃ ہے عربی زبان میں قبۃ اس مکان کو کہا جاتا ہے جس کی چھت پر گنبد بنا ہوتا ہے ۔اور صخرہ سے مراد وہ پتھر ہے جو اسلام عیسائیت اور یہودیت ان تمام آسمانی ادیان کے لئے مورد احترام ہے ۔ یہ پتھر وہی کوہ موریا ہے جس کے بارے میں تورات کے بقول خداوندعالم نے جناب ابراہیم ع کو اسی پتھر پر حضرت اسحاق ع کی قربانی کا حکم دیا تھا ۔

 اور مشہور ہے کہ شب معراج میں آنحضرت ص اسی صخرہ [یتھر] پر سے تشریف لے گئے تھے ۔ اس صخرہ کی لمبائی شمال سے جنوب ۵/۱۷ میٹر ہے اور چوڑائی ۱۶/ میٹر ہے اور اونچائی ایک سے دو میٹر ہے اور اس صخرہ پر سونے کا گنبد ہے اور اسکے صحن میں آٹھ کنویں ہیں ۔

اس صخرہ کی عمارت ۶۹۱ء میں سرزمین مصر کے سات سالہ خراج سے عبد الملک بن مروان کے ذریعہ بنوائی گئی تھی لیکن ۱۰۹۹ء میں صلیبیوں نے اس کو کلیسا میں تبدیل کردیا تھا جس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس پر پھر کلیسا کا نام و نشان مٹا دیا اور گنبد کی تزئین کاری کروائی ۔ دیواروں کو سنگ مرمر سے چھپایا اور اس کے بعد ایوبی اور عثمانی خلفاء اور حکمران مصر اسکی مرمت کراتے رہے ۔ اور اپنے اپنے ہنر کا استعمال کرکے اس عمارت میں چار چاند لگاتےرہے۔

مسجد الصخرۃ؛۔

جیسا کہ قبۃ الصخرہ کا بیان گذر چکا اسی طرح صخرہ کے بالکل درمیان میں ایک غار ہے جسے مغارۃ الانبیاء بھی کہتے ہیں اور تقریبا اس میں پندرہ افراد نماز پڑھ سکتےہیں اسی وجہ سے اس احاطے کو مسجد صخرہ کہا گیا ہے یہ مسجد تقریبا تین میٹر قبۃ الصخرہ سے نیچے ہے اور آج کل اسے بجلی کے ذریعہ روشن کیا جاتا ہے ۔

قبۃ القضا؛۔

اسے قبۃ السلسلۃ بھی کہا جاتا ہے قبۃ الصخرہ کےمشرقی دروازے کو باب القضاء کہا جاتا ہے اسکی وجہ تسمیہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہاں ایک بڑا پتھر ہے جس پر جناب داود ع صبح اور شام کے وقت بیٹھ کر لوگوں کے اختلافات ، شکایتوں اور مقدمات کو حل فرمایا کرتے تھے ۔ اور ان کے درمیان قضاوت کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید نے  آپ کو اس صفت سے یاد بھی کیا ہے ۔یا داود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب [1]۔  اے داود ہم نےتم کو زمین پر اپنا خلیفہ [نمائندہ] بنایا ہے لہذا تم لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا ۔ دیکھو ھوای نفس کے پیرو نہ ہوجانا اس لئے کہ یہ چیز ممکن ہے تمہیں راہ خدا سے دور کردے ۔ بیشک جو راہ خدا سے منحرف ہوگئے ہوں ان کے لئے روز حساب کو بھول جانے والوں کی طرح سخت عذاب ہے۔

یہ پتھر چونکہ جناب داود ع  کا مسند قضاوت تھا لہذا اس پر ایک گنبد بھی بنا دیا گیا ہے اور اسے بیت عدل داود کا بھی نام دیا گیا ہے۔

مسجد الاقصیٰ؛۔

یہ حرم شریف کے جنوبی حصے میں ہے جس کا طول۵/۱۸۱، میٹر عرض میں اور ۵/۵ ۴، میٹر ہے ۔ مسجد میں کل ۱۱/ دروازے ہیں ، ۷/ شمال میں۱/ مشرق میں ۲/ مغرب میں اور ۱/ جنوب میں ہے ۔ اس لحاظ سے مسجد کے وسط میں ایک بزرگ و عالی شان گنبد ہے اور اس کے نیچے خوبصورت محراب بنا ہوا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی نے ۵۸۳/ ہجری میں اس کو بنوایا تھا اور اسی میں ہاتھی کے دانتوں اور قیمتی لکڑیوں سے ایک بہت اچھا منبر بھی بنوایا تھا لیکن ۱۹۹۶ء میں اسے جلا دیا گیا تھا ۔

اس گنبد کے اندرونی حصے میں سونے کا کام کیا گیا ہے اس کا وزن دسیوں کلو سے زیادہ ہے ۔ اور اس میں آیات قرآنی وغیرہ کو بہترین کوفی اور عربی خط سے تحریر کیا گیا ہے ۔ اسی مسجد سے متصل محراب زکریا ، مسجد چہل شہید، مسجد عمر وغیرہ بنائی ہے ۔

روایات میں بھی اس مسجد کی بہت اہمیت بیان ہوئی ہے رسول اکرم ص فرماتے ہیں کہ ” لا تشد الرجال الا التی ثلاث مساجد: المسجد الحرام، و مسجدی ھذا و مسجد الاقصیٰ؛۔ کہ زیارت کے لئے بار سفر باندھا جائے تو مسجد الحرام، میری اس مسجد [مسجد النبی ص] اور مسجد الاقصیٰ ہے ۔ مسجد اقصیٰ ابتداء اسلام ہی سے مسلمانوں کے لئے اہمیت و عظمت کا مرکز رہی ہے ۔

اس مسجد و شہر مقدس قدس پر متعدد حملے بھی ہوئے ہیں{اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے} اور اس کو  متعدد بار خراب بھی کیا گیا ۔ اور جب مسلم خلفاء  نے پھر اسے اپنے قبضے میں لیا تو اسے بہترین سے بہترین انداز میں بنوایا بھی ہے ۔ صیہونیوں نے اس مسجد کو خراب کرنے کے ارادے سے بہت مرتبہ اس پر حملے کئے متعدد مرتبہ اس میں آگ لگائی ۔ اور متعددمرتبہ اسلام دشمنوں نے  اسی مسجد اور شہر میں ہزاروں افراد کا خون بھی بہایا ہے ۔

اس مسجد کا نام مسجد الاقصیٰ سورہ اسراء کی پہلی آیت سے اخذ کیا گیا ہے جس میں خداوندعالم معراج رسول ص کا تذکرہ فرماتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ ؛۔ سبحان الذی اسرا بعبدہ من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ۔۔؛[2]۔ مذکورہ آیت کریمہ میں جو لفظ “مسجد الاقصیٰ” آیا ہے وہ اسی مسجد کا نام ہے ۔

 

[1] سورہ ص، آیت/ ۲۶۔

[2] سورہ اسراء ، آیت / ۱۔

تبصرے
Loading...