بنی امیہ، حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت سیدالشہدا (علیہ السلام) نے اپنے پیغامات اور کلام میں اہل بیت (علیہم السلام) اور اپنا تعارف بھی کروایا ہے اور بنی امیہ کی تخریب کاریوں، ان کی اسلام سے دشمنی اور معاویہ کے ظلم و ستم اور یزید کی کجروی اور گمراہی کو واضح بھی کیا ہے۔

۱۔ یہ فقرے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے اس خطبہ میں سے ہیں جو آنحضرتؑ نے مقام بیضہ پر اپنے اصحاب اور حر کے لشکر سے ارشاد فرمایا:
ألا وإنَّ هؤُلاءِ قَد لَزِموا طاعَةَ الشَّيطانِ ، وتَرَكوا طاعَةَ الرَّحمنِ ، وأظهَرُوا الفَسادَ ، وعَطَّلُوا الحُدودَ ، وَاستَأثَروا بِالفَيءِ ، وأحَلّوا حَرامَ اللّه ِ ، وحَرَّموا حَلالَهُ [1].”
آگاہ رہو وہ (بنی امیہ) شیطان کی اطاعت کے پابند ہوگئے اور انہوں نے رحمن کی اطاعت چھوڑ دی اور فساد کو ظاہر کردیا، اور اللہ کی حدود کو معطل کردیا، اور بیت المال پر قبضہ کرلیا، اور اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کردیا۔

۲۔ عبداللہ ابن حسن کہتے ہیں کہ جب عمر ابن سعد نے اپنے لشکر کو امام حسین (علیہ السلام) سے جنگ کرنے کے لئے تیار کرلیا اور ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ پر کھڑا کیا اور جھنڈوں کو اٹھایا اور امام (علیہ السلام) نے بھی اپنے اصحاب کو دائیں بائیں قرار دیا، تو (دشمن) ہر طرف سے آنحضرتؑ پر حملہ آور ہوا، انہوں نے آنحضرتؑ کو حلقہ کی طرح گھیرے میں لے لیا، امام (علیہ السلام) اپنے اصحاب کے درمیان سے باہر تشریف لائے اور ان (دشمنوں) کے قریب گئے اور ان کو خاموش ہونے کو کہا تو انہوں نے آپؑ کی یہ بات نہ مانی، پھر آپؑ نے فرمایا: وائے ہو تم پر! خاموش کیوں نہیں ہوتے ہو کہ میری بات کو سنو… (پھر حضرتؑ نے مزید کچھ فقرے بیان فرمائے، جس کے بعد دوبارہ فرمایا:) وائے ہو تم پر! خاموش کیوں نہیں ہوتے ہو، کیوں نہیں سنتے۔ (ابن سعد کا لشکر ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہوئے ایک دوسرے کو خاموش کرنے لگے تاکہ دیکھیں کہ امامؑ کیا کہنا چاہتے ہیں)۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے جو ارشاد فرمایا، اس کے چند فقروں کے بعد یہ فرمایا:
…”وَ حَشَشْتُمْ عَلَيْنا نارَ الْفِتَنِ الَّتي جَناها عَدُوُّكُمْ وَ عَدُوُّنا فَأَصْبَحْتُمْ إِلْباً عَلى‌ أَوْلِيائِكُمْ، وَ يَداً عَلَيْهِمْ لِأَعْدائِكُمْ، بِغَيْرِ عَدْلٍ أَفْشَوهُ فيكُمْ، وَلا أَمَلٍ أَصْبَحَ لَكُمْ فيهِمْ، إِلّا الْحَرامَ مِنَ الدُّنْيا أَنالُوكُمْ، وَ خَسيسَ عَيْشٍ طَمَعْتُمْ فيهِ، مِنْ غَيْرِ حَدَثٍ كانَ مِنَّا، وَ لا رَأْىٍ تَفَيَّلَ لَنا [2]”، ” … اور کیا جن فتنوں کی آگ کو تمہارے اور ہمارے دشمن (بنی امیہ) نے بھڑکایا تھا، تم (کوفہ کے لوگوں) نے ہمارے خلاف شعلہ ور کردیا اور تم مل کر اپنے اولیا٫ (راہنماوں) کے خلاف اور اپنے دشمنوں کی مدد کے لئے کھڑے ہوگئے، بغیر اس کے کہ انہوں نے تمہارے درمیان کوئی عدل ظاہر کیا ہو اور تمہاری کوئی آرزو پوری کی ہو، سوائے تھوڑا سا حرام مال جس تک انہوں نے تمہیں پہنچادیا اور پست زندگی جس کی تم نے لالچ کی، اس کے بغیر کہ ہم سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو یا کوئی سوچ کمزور ہوگئی ہو؟

۳۔ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے خزیمہ میں ایک دن اور رات ٹھہرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ثعلبیہ میں داخل ہوئے اور رات سے صبح تک وہیں پر رہے اور جب دن ہوا تو اہل کوفہ کا ایک آدمی جس کی کنیت ابوہرہ ازدی تھی، آنحضرتؑ کی خدمت میں آیا اور سلام کے بعد عرض کیا: اے فرزند رسول اللہ! کیا باعث بنا کہ آپؑ، اللہ کے حرم اور اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے حرم سے باہر آجائیں؟ تو امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: ” وَيحَكَ يا أبا هِرَّةَ ! إنَّ بَني اُمَيَّةَ أخَذوا مالي فَصَبَرتُ ، وشَتَموا عِرضي فَصَبَرتُ ، وطَلَبوا دَمي فَهَرَبتُ ، وَايمُ اللّه ِ! لَتَقتُلُنِّي الفِئَةُ الباغِيَةُ ، ولَيُلبِسَنَّهُمُ اللّهُ ذُلّاً شامِلاً ، وسَيفا قاطِعا ، ولَيُسَلِّطَنَّ اللّه ُ عَلَيهِم مَن يُذِلُّهُم ، حَتّى يَكونوا أذَلَّ مِن قَومِ سَبَأٍ ؛ إذ مَلَكَتهُمُ امرَأَةٌ مِنهُم ، فَحَكَمَت في أموالِهِم ودِمائِهِم حَتّى أذَلَّتهُم . [3]”وائے ہو تم پر اے ابوہرہ! بنی امیہ نے میرا مال لےلیا تو میں نے صبر کیا اور میری حرمت کو پامال کیا تو میں نے صبر کیا، وہ میرا خون بہانا چاہتے تھے تو میں ان سے گریز کرگیا اور اللہ کی قسم! مجھے ظالم گروہ ضرور قتل کرے گا اور یقیناً اللہ پھیلی ہوئی ذلت اور کاٹ دینے والی تلوار انہیں پہنا دےگا اور بیشک اللہ ایسے شخص کو ان پر غالب کردے گا جو انہیں ذلیل کردے تاکہ قوم سبا سے زیادہ خوار ہوجائیں، کہ انہی میں سے ایک عورت ان پر حکومت کرتی تھی تو وہ ان کے مال اور خون پر حکمران تھی یہاں تک کہ اس نے انہیں ذلیل کردیا۔
مذکورہ بیانات کے علاوہ بھی اس سلسلہ میں آنحضرتؑ کے بیانات ہیں، اختصار کی وجہ سے مذکورہ بالا بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

نتیجہ: حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے مختلف مقامات پر دشمن کے ظلم و ستم اور دشمن کی دین کے بارے میں خیانتوں کو ظاہر کیا ہے، نیز لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی کہ لوگ اپنے دشمن کو بھی پہچان لیں اور برحق امام کو بھی، نیز ان کے بارے میں ماضی کی عبرت کو بیان کرتے ہوئے مستقبل میں ان کی ذلت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ بنابریں ہر انسان کو متوجہ رہنا چاہیے کہ اس کا دشمن اس کے خلاف کیا کاروائیاں کرتے ہوئے اس کو دھوکہ میں ڈال کر ذلت اور باطل کی راہ میں ہلاک کرنا چاہتا ہے، اگر لوگ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو امام وقت اور خلیفہ برحق سمجھ کر آپؑ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے تو نہ دنیا میں وقت کے دشمن کی ذلت کا شکار ہوتے اور نہ ہی ان کی آخرت برباد ہوتی۔ لہذا ہوسکتا کہ انسان برحق امام کی نافرمانی کرتا ہوا اتنی پستی میں گر جائے کہ اسے اپنی عزت و ذلت کا ادراک نہ ہو، نہ دنیا کی حقارت اور آخرت کی بلندی کا اور نہ ظالم کے ظلم کا نہ مظلوم کی آہ و بکا کا اور نہ حق کے ناصح اور ہادی کی نصیحت اور ہدایت کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تاريخ الطبري، ج 5 ص 403، الكامل في التاريخ، ج 2، ص 552۔
[2] إحقاق الحق و إزهاق الباطل، قاضی نورالله شوشتری، ج11، ص624۔
[3] الملهوف : ص 132۔

تبصرے
Loading...