بعثت کے گیارہویں سال پیغمبرؐ نے بزرگان خزرج میں سے چھ لوگوں کو حج کے موسم میں منیٰ میں دیکھا اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: جان لو! یہ وہی پیغمبرؐ ہے جس کی بعثت سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں ۔ لہٰذا ایسی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اس کے دین کو قبول کرلیں ۔ لہٰذا وہ سب اسلام لے آئے اور پیغمبرؐ سے کہا:

مدینہ میں اسلام کے نفوذ کا ماحول

وادی القریٰ ایک بڑا درّہ ہے جہاں سے، یمن کے تاجروں کا شام جانے کا راستہ مکہ کے اطراف سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس درّے کی لمبائی شمال سے جنوب تک ہے اور اس میں چند ایسی زمینیں بھی تھیں جو آب و گیاہ سے مالا مال اور کھیتی باڑی کے لائق تھیں ۔[1]اور وہاں سے قافلے گزرتے وقت اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ مکہ کے شمال میں ۵۰۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر انھیں زمینوں میں سے ایک زمین میں قدیمی شہر ”مدینہ‘‘ پڑتاتھا جو ہجرت رسول خدؐا کے بعد ”مدینۃ الرسول‘‘ اور پھر ”مدینہ‘‘ کہا جانے لگا۔

اس شہر کے لوگوں کا پیشہ اہل مکہ کے برخلاف کھیتی باڑی اور باغبانی تھا۔ مدینہ کے اجتماعی حالات اور آبادی کا تناسب بھی مکہ سے بالکل الگ تھا۔ اس شہر میں یہودیوں کے تین بڑے قبیلے ”بنی نضیر‘‘، ”بنی قینقاع‘‘ اور ”بنی قریظہ‘‘ رہتے تھے۔ دو مشہور قبیلہ ”اوس اور خزرج‘‘ بھی جن کی اصالت یمنی (قحطانی) تھی مأرب بند ٹوٹنے کے بعد[2] جنوب سے ہجرت کر کے اس شہر میں یہودیوں کے بغل میں آکر رہنے لگے تھے۔

جس زمانے میں پیغمبر اسلاؐم مکہ میں تبلیغ الٰہی میں سرگرم تھے مدینہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے جن سے ہجرت پیغمبرؐ کا ماحول ہموار ہو رہا تھا اور پھر یہ شہر اسلام کے پیغام اور تبلیغی مرکز میں تبدیل ہوگیا ان واقعات میں سے چند یہ ہیں ۔

۱۔ یہودیوں کے پاس شہر کے اطراف میں زرخیز زمینیں تھیں اور ان میں انھوں نے کھجور کے باغات لگا رکھے تھے جن سے ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی تھی[3] کبھی کبھار ان کے اور اوس و خزرج کے درمیان نوک جھوک ہوجایا کرتی تھی۔ یہودی ان سے کہتے تھے کہ عنقریب ایک پیغمبرؐ آنے والا ہے ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کی مدد سے تم کو قوم عاد وارم کی طرح نابود کردیں گے۔[4]

جو یہودی بعثت پیغمبر اسلاؐم کے بارے میں اس طرح پیشین گوئی کرتے تھے ،وہی بعثت پیغمبرؐ کے بعد ان سے دشمنی کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس وجہ سے قرآن ان سے اس طرح سے معترض ہوا ”اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جوان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب ان کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔

چونکہ یہودیوں کے کلچر کا معیار بلند تھا اور بت پرست انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں ان کی باتوں کو باور کرتے تھے اور چونکہ یہ دھمکیاں کئی بار دی گئیں تھیں لہٰذا مسئلہ مکمل طور سے اوس و خزرج کے ذھن میں جاگزیں ہوگیا تھا اور ذہنی طور پر مدینہ والے ظہور پیغمبر اسلاؐم کے لئے آمادہ ہوگئے تھے۔

۲۔ برسوں پہلے سے اوس و خزرج کے درمیان کئی مرتبہ جنگ و خونریزی ہوچکی تھی ان میں سے آخری جنگ ”بغاث‘‘ تھی جس کے نتیجہ میں بے انتہا جانی نقصانات اوربربادیاں دونوں طرف ہوئی تھیں اور دونوں گروہ نادم و پشیمان ہوکر صلح کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی معتبر اور بے طرف شخص نہیں مل رہا تھا جو ان کے درمیان صلح کراسکے۔ عبد اللہ بن ابی جو خزرج کے بزرگوں میں سے تھاجنگ بعاث میں بے طرف ہوگیا اور چاہتا تھا کہ دونوں گروہ میں صلح کرا کے ان پر حکومت کرے اور اس کی تاج پوشی کے اسباب بھی مہیا ہوچکے تھے۔[5] لیکن مکہ میں پیغمبر اسلاؐم سے اوس و خزرج کی ملاقاتوں نے (جن کا عنقریب ذکر کریں گے) واقعات کا رخ یکسر بدل دیا۔ اور عبد اللہ بن ابی اپنا مقام کھو بیٹھا۔
مدینہ کے مسلمانوں کا پہلا گروہ

مکہ میں پیغمبر اسلاؐم کے ظاہری پیغام کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے لوگ مکہ کے مسافروں اور زائروں کے ذریعہ آنحضرتؐ کی بعثت سے آگاہ ہوگئے تھے اور ان میں سے کچھ آنحضرتؐ کی زیارت سے مشرف ہوکر مسلمان ہوگئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ رحلت کرگئے یا قتل کر دیئے گئے تھے۔[6] بہرحال وہ، لوگوں کواسلام کی طرف نہیں بلا سکے تھے۔

بعثت کے گیارہویں سال پیغمبرؐ نے بزرگان خزرج میں سے چھ لوگوں کو حج کے موسم میں منیٰ میں دیکھا اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: جان لو! یہ وہی پیغمبرؐ ہے جس کی بعثت سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں ۔ لہٰذا ایسی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اس کے دین کو قبول کرلیں ۔ لہٰذا وہ سب اسلام لے آئے اور پیغمبرؐ سے کہا:

ہم اپنی قوم کو دشمنی اور ٹکراؤ کی بدترین حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ کے ذریعہ ان میں الفت ڈال دے گا۔ اب ہم مدینہ واپس جارہے ہیں اور ان کواس دین کی طرف بلائیں گے۔ اگر ان لوگوں نے بھی اس دین کو قبول کرلیا تو کوئی بھی ہماری نظروں میں آپ سے زیادہ عزیز و محترم نہ ہوگا۔

اس گروہ نے مدینہ واپس جانے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی۔

 

ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ نغمۂ اسلام پورے یثرب میں پھیل گیا اور کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں پیغمبر اسلاؐم کی باتیں نہ ہوتی ہوں ۔[7]
عقبہ کا پہلا معاہدہ

بعثت کے بارہویں سال مدینہ کے بارہ لوگوں نے حج کے موسم میں ”عقبۂ منیٰ‘‘[8] کے کنارے رسول خداؐ کی بیعت کی۔ اس گروہ میں دس خزرجی اور دو اوسی تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں قبیلے گزشتہ کدورتوں کو بھول کر ایک دوسرے کے دوش بدوش اسلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے تھے۔

گزشتہ سال، بیعت کرنے والے ۵ افراد تھے جن میں ۷ افراد کا اور اضافہ ہوا اور بیعت کی تھی کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری اور زنا نہیں کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے پر تہمت (زنا کا الزام) نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں پیغمبرؐ کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔[9]

پیغمبر اسلاؐم نے اس عہد کی پابندی کرنے والوں سے ، اس کے عوض میں بہشت کا وعدہ کیا۔[10]

وہ موسم حج کے بعد مدینہ آگئے اور پیغمبرؐ سے تقاضا کیا کہ ایک شخص کو ان کے شہر میں بھیجیں تاکہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دے۔رسول خدا نے مصعب بن عمیرکو بھیجا۔[11]

مصعب کی تبلیغ اور کوششوں سے مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکہ کے اہم اور خاص لوگ اسلام کی مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے مگر جوانوں اور مستضعفوں نے آپ کا استقبال کیا۔ لیکن مدینہ میں تقریباً اس کے بالکل برعکس ماحول تھا یعنی اہم اور خاص لوگ پیش قدم اور آگے تھے اور عوام ان کے پیچھے چل رہی تھی یہ ایک ایسا سبب تھا جس کی وجہ سے اسلام تیزی کے ساتھ اس شہر میں پھیلا۔
عقبہ کا دوسرا معاہدہ

بعثت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں ۷۵ افراد جن میں سے گیارہ افراد او سی (اور بقیہ خزرجی) اور دو خاتون تھیں قافلۂ حج کے ساتھ مدینہ سے مکہ آئے اور ۱۲ ذی الحجہ کو ”عقبۂ منیٰ‘‘ کے کنارے دوسرا عہد شب کی تاریکی میں (مخفی صورت میں ) پیغمبرؐ کے ساتھ کیا۔ اس عہد میں انھوں عہد کیا کہ اگر پیغمبرؐ نے ان کے شہر کی طرف ہجرت کی تو وہ اسی طرح ان کی حمایت کریں گے جیسے وہ اپنی ناموس اور اولاد کی حمایت کرتے ہیں اور جن لوگوں سے پیغمبرؐ جنگ کریں گے ان سے وہ لڑیں گے۔ اس اعتبارسے اس بیعت کو ”بیت الحرب‘‘ بھی کہا گیا ہے۔

عہد کے بعد پیغمبرؐ کے حکم سے بارہ افراد نمائندے کے طور پر(نقیب) انتخاب ہوئے (مرکزی کمیٹی) تاکہ مدینہ پلٹنے کے بعد ہجرت رسول خداؐ کے زمانے تک ان کے امور کی سرپرستی کرسکیں ۔[12]

اور یہ پیغمبر اسلاؐم کی کارکردگی کا ایک طریقہ تھا اور موجودہ افراد کو منظم کرنے میں آپ کی سعی و کوشش تھی۔

عہد نامہ کے تمام ممبران کے نام تاریخ اسلام کی مفصل کتابوں میں تحریر ہیں ۔
مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز

تمام مخفیانہ امور کے باوجود جو کہ پیغمبرؐ اور مدینہ والوں کے درمیان انجام پائے تھے، قریش اس بیعت سے آگاہ ہوکر بیعت کرنے والوں کی گرفتاری میں لگ گئے۔ مگر انھوں نے اتنی تیزی سے کام کیا کہ فوراً مکہ کو ترک کردیا اورصرف ایک شخص کے علاوہ کوئی گرفتار نہ ہوا۔

اہل مدینہ کے کوچ کر جانے کے بعد قریش سمجھ گئے کہ پیغمبر اسلاؐم نے لوگوں کو اپنا حامی اور مدینہ میں اپنا ایک مرکز بنالیا ہے لہٰذا انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اور زیادہ سختی کرنا شروع کردی۔ اور حد سے زیادہ انھیں برا بھلا کہنے لگے اور اس قدر انھیں تکلیفیں پہنچائیں کہ ایک بار پھر (حبشہ کی ہجرت سے پہلے کی طرح) مکہ میں زندگی گزارنا دشوار ہوگیا۔[13]

اس بنا پر پیغمبر اسلاؐم نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دیدی اور فرمایا: مدینہ کی طرف کوچ کرو خداوند متعال نے انھیں تمہارا بھائی اور جائے امن قرار دیا ہے۔[14]

مسلمانوں نے ڈھائی مہینے کے اندر (نصف ذی الحجہ سے آخری صفر تک) آہستہ آہستہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود جو قریش نے سرراہ کھڑی کر رکھی تھیں ، مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں پیغمبرؐ، علیؑ ، ابوبکر اور چند افراد کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہ بچا۔

انصار کی تاریخ میں جوافراد مکہ سے مدینہ گئے ”مہاجرین‘‘ اورمدینہ کے مسلمان جنھوں نے پیغمبرؐ کی مدد کی ”انصار‘‘ کہلائے۔
پیغمبرؐ کے قتل کی سازش

مکہ کے مسلمانوں نے ہجرت کے بعد مدینہ میں قیام کیا ،ادھر قریش کے سردار سمجھ گئے کہ مدینہ رسول خداؐ اوران کے چاہنے والوں کے لئے ایک مرکز اور پناہ گاہ بن چکا ہے اور وہاں کے لوگ رسولؐ کے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں اس وجہ سے وہ پیغمبرؐ کی ہجرت سے ڈرے کیونکہ اس چیز نے قریش کو چند خطرات سے روبرو کردیاتھا۔

۱۔ مسلمان ان کی دسترس سے باہر ہوچکے تھے نئی صورت حال کے پیش نظر، حالات کے بارے میں پیش بینی اور حوادث کی راہ میں تاثیر گزاری قریش کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔

۲۔ چونکہ اہل مدینہ پیغمبرؐ سے جنگ میں حمایت کا عہد کرچکے تھے لہٰذا اس بات کا امکان تھا کہ آنحضرتؐ انتقام کی خاطر ان کی مدد سے کہیں مکہ پر حملہ نہ کردیں ۔[15]

۳۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ جنگ نہیں ہوئی پھر بھی ان کے لئے ایک بڑا خطرہ لاحق تھا۔

کیونکہ مدینہ، قریش کے تاجروں کے لئے مناسب بازار تھا اور اس شہر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد، بہت بڑا اقتصادی نقصان ان کو ہونے والا تھا۔

۴۔ مدینہ، مکہ سے شام کے تجارتی راستہ کے کنارے پر پڑتا تھا اور مسلمان اس راستے کو ناامن بنا کر کاروبار تجارت میں خلل ڈال سکتے تھے۔

یہ فکریں اور الجھنیں باعث بنیں کہ سرداران قریش ”دار الندوہ‘‘ (قریش کے سازشوں کا اڈہ اورقصی کی نشانی) میں اکٹھا ہوئے اور چارہ جوئی میں لگ گئے۔

کچھ نے مشورہ دیا کہ حضرت محمدؐ کو شہر بدر یا قید کرلیا جائے لیکن یہ دو مشورے بعض دلیلوں کی بنیاد پر رد ہوگئے۔ آخر کار یہ طے پایا کہ محمدؐ کو قتل کردیا جائے لیکن ان کو قتل کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد بنی ہاشم سکون سے نہ بیٹھتے اور خون خواہی کے لئے کھڑے ہو جاتے اس بنا پر طے کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک جوان تیار ہو ، تاکہ راتوں رات سب ملکر محمدؐ پر حملہ کردیں اور ان کو بستر خواب پر ہی قتل کردیں ۔

ایسی صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم بھی خون خواہی کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے لئے ان تمام قبیلوں سے جو اس قتل میں شریک تھے، جنگ کرنی ناممکن ہوگی ،لہٰذا وہ مجبور ہوکر خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ماجرا اسی پر تمام ہو جائے گا۔ قریش نے اپنی سازش کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ربیع الاول کی پہلی شب کاانتخاب کیا ۔ خداوند عالم ان کی سازش کو اس طرح سے بیان کرتا ہے:

 

”اور پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ سا تھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کر رہا تھا اوروہ بہترین انتظام کرنے والا ہے‘‘۔[16]
پیغمبر اسلاؐم کی ہجرت

پیغمبر اسلامؐ وحی کے ذریعہ ”دار الندوہ‘‘ کی سازش سے آگاہ ہوئے اور حکم خدا ہوا کہ مکہ سے باہر چلے جائیں ۔ رسول خداؐ نے اپنی ماموریت سے علیؑ کو آگاہ کیا اور فرمایا: ”آج کی شب میرے بستر پر سوجاؤ اور میری سبز چادر اوڑھ لو‘‘علیؑ نے بے خوف و خطر اس ذمہ داری کو قبول کیا۔

پیغمبرؐ اس شب ابوبکر کے ساتھ ”غار ثور‘‘ میں چلے گئے جو مکہ کے جنوبی علاقے (مدینہ کے مخالف سمت) میں واقع تھا۔اور تین روز غار میں رہے تاکہ قریش ان کو پانے سے ناامید ہوجائیں اور راستہ پرامن ہو جائے اور آپ ہجرت کو جاری رکھ سکیں ، خداوند عالم نے قرآن مجید میں پیغمبرؐ کی تنہائی اور بے یاوری کا ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نصر کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا اور وہ بھی اضطراب و پریشانی کا شکار ہوگیا تھا۔ لیکن قریش اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود خدا کی قدرت سے پیغمبرؐ تک نہیں پہنچ سکے۔

”اگر تم پیغمبرؐ کی مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد خدا نے کی ہے اس وقت جب کفار نے انھیں وطن سے باہر نکال دیا اور وہ ایک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار میں تھے تو وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر پر سکون نازل کردیا اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنھیں تم نہ دیکھ سکے اور اللہ ہی نے کفار کے کلمہ کو پست بنا یا ہے اوراللہ کا کلمہ در حقیقت بہت بلند ہے۔ کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے‘‘۔[17]
عظیم قربانی

حضرت علیؑ اس شب پیغمبرؐ کے بستر پر سوئے اور قریش کے مسلح افراد نے رات کی تاریکی میں پیغمبرؐ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور صبح سویرے ننگی تلواروں کے ساتھ گھر کے اندر گھس گئے ،اسی عالم میں علیؑ بستر سے اٹھ گئے اس وقت تک وہ لوگ اپنے منصوبے کو سوفیصد درست اور کامیاب سمجھ رہے تھے لیکن علیؑ کو دیکھتے ہی انھیں سخت حیرت ہوئی اور وہ ان کی طرف لپکے، یہ دیکھ کر علیؑ نے اپنی تلوار کھینچ لی اور مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے جب انھوں نے پیغمبرؐ کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بتانے سے انکار کردیا۔[18]

اس رات جو شخص بھی پیغمبرؐ کے بستر پر سوتا اس کے بچنے کی امید نہیں تھی لیکن حضرت علیؑ شعب ابوطالب میں بھی اکثر راتوں میں پیغمبرؐ کی جگہ سوتے تھے اور اپنے کو سپر قرار دیتے تھے اور خطرہ مول لیتے تھے تاکہ پیغمبر اکرمؐ کی جان محفوظ رہ سکے خداوند عالم نے ان کی اس قربانی کو اس طرح بیان کیا ہے:

”اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے‘‘۔[19]

مفسرین اورمحدثین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی عظیم قربانی کے سلسلے میں ”لیلۃ المبیت‘‘ میں نازل ہوئی۔[20]

حضرت علیؑ نے اپنے ایک بیان میں قریش کی سازش کو ذکر کرنے کے بعد اس خطرناک رات میں اپنی حالت کواس طرح سے بیان فرمایا ہے:

”…پیغمبرؐ نے مجھ سے فرمایاکہ ان کے بستر پر سوجاؤں اور اپنی جان کو ان کے لئے سپر قرار دوں ۔ بے خوف اس ماموریت کو میں نے قبول کیا ،میں خوش تھا کہ آپ کی راہ میں قتل کیا جاؤوں ۔ پیغمبرؐ ہجرت کر گئے اور میں ان کے بستر پر لیٹا رہا۔ قریش کے مسلح افراد کو اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبرؐ کو قتل کردیں گے لہٰذا وہ گھر میں گھس گئے اور جب وہاں پہنچے جہاں میں لیٹا تھا تو میں نے یہ دیکھ کر اور تلوار ہاتھ میں لے لی اور اپنا اس طرح دفاع کیا کہ خدا جانتاہے اور لوگ بھی اس سے آگاہ ہیں ‘‘۔[21]
قبا میں پیغمبرؐ کا داخلہ

رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا کہ میری ہجرت کے بعد اپنے مکہ ترک کرنے سے پہلے، لوگوں کی جو امانتیں ان کے پاس ہیں اسے لوگوں کو واپس کردیں ۔[22] اور ان کی دختر فاطمہ اور بنی ہاشم کے دوسرے چند افراد جواس وقت تک ہجرت نہیں کرسکے تھے ان کی ہجرت کے مقدمات فراہم کریں ۔[23]

 

حضرت محمدؐ نے چوتھی ربیع الاول (بعثت کے چودھویں سال) غار کو مدینہ کے ارادہ سے ترک کیا[24] اور اسی مہینے کی بارہویں تاریخ کو مدینہ کے باہر محلہ ”قبا‘‘ میں قبیلۂ بنی عمرو بن عوف کے رہنے کی جگہ پہنچے[25] اور چند روز علیؑ کے انتظار میں وہاں ٹھہرے رہے[26] اور اس دوران ایک مسجد وہاں پر تعمیر کی۔[27]

پیغمبرؐ کی ہجرت کے بعد علیؑ تین دن مکہ میں ٹھہرے رہے اور اپنے فریضے کو بہ حسن و خوبی انجام دیا[28] پھر اپنی والدۂ گرامی فاطمہ بنت اسد، فاطمہ زہرا دختر پیغمبرؐ اور فاطمہ دختر زبیر بن عبد المطلب کودو دوسرے افراد کے ہمراہ لے کر قبا میں پیغمبرؐ سے جاملے۔[29]
پیغمبرؐ کا مدینہ میں داخلہ

حضرت علیؑ کے قبا میں پہنچنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ بنی نجار (عبد المطلب کے مادری رشتہ دار) کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ گئے۔ راستہ میں قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہلی نماز جمعہ پڑھی۔ شہر میں داخل ہوتے وقت لوگوں نے بہت ہی پرجوش انداز میں آپ کا استقبال کیا۔ قبائل کے سرداروں اور بڑی شخصیتوں نے ناقۂ پیغمبر اکرمؐ کی زمام کو پکڑ کر آنحضرتؐ سے درخواست کی کہ ان کے محلہ میں تشریف لے چلیں ۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: ناقہ کے راستہ کو خالی کردو اسے خدا کی جانب سے حکم ملا ہے وہ جہاں بیٹھے گا میں وہیں اتر جاؤوں گا‘‘

گویا رسول خداؐ اپنی تدبیر اور حکمت عملی کے ذریعہ چاہتے تھے کہ (حجر اسود کے نصب کے فیصلہ کی طرح) ان کی میزبانی کا شرف و افتخار کسی خاص قبیلہ یا خاندان کو حاصل نہ ہو اور آئندہ سماج میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

آخر کارآنحضرتؐ کا اونٹ محلہ بنی نجار میں ابوایوب انصاری خالد بن خزرجی کے گھر کے قریب بیٹھ گیا اس وقت (ایسی جگہ پر بیٹھا جو دو یتیموں کی تھی جہاں بعد میں مسجد النبیؐ بنی)۔

پیغمبر اکرمؐ کے چاروں طرف بے شمار لوگ اکٹھا ہوگئے ہر ایک کی آرزو تھی کہ آنحضرتؐ کے میزبان ہم بنیں ۔ ابوایوب انصاری آنحضرتؐ کے سامان سفر کواپنے گھر لے گئے اور ساتھ میں آنحضرتؐ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اور اس وقت تک وہاں آپ نے قیام کیا جب تک مسجد النبی اور اس کے ساتھ ہی آپ کی رہائش کے لئے حجرہ نہ بن گیا۔[30]
ہجری تاریخ کا آغاز

ہجرت بڑی تبدیلیوں کی شروعات اور اسلام کی پیش رفت میں ایک اہم موڑ کا نام ہے کیونکہ اسی کے سایہ میں مسلمانوں نے گھٹن اور دشواریوں کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا اور آزادی کے ساتھ ایک نقطہ پر متمرکز ہوگئے اور ایسے حالات میں یہ چیز ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔اگر ہجرت انجام نہ پاتی تو مکہ میں اسلام گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتا اور ہرگز اسے ترقی نہ ملتی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں نے سیاسی اور نظامی سرگرمیاں شروع کردیں اور اسلام جزیرۃ العرب میں پھیل گیا۔

اس بنا پر ہجرت، اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز قرار پائی لیکن کس شخص نے پہلی مرتبہ اس تاریخ کی بنیاد ڈالی؟ اور کس وقت سے یہ تاریخ رائج ہوئی؟ مورخین اسلام کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہ کام عمر بن خطاب کے زمانہ میں ، اس کے ذریعہ سے اصحاب پیغمبرؐ کے مشورہ سے انجام پایا۔[31]

لیکن محققین اورتاریخ اسلام کے تجزیہ نگاروں کی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس امر کے بانی خود پیغمبر اسلاؐم تھے۔ اسلام کے بڑے مورخین کے ایک گروہ نے لکھا ہے کہ پیغمبر ا کرمؐ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ماہ ربیع الاول میں حکم دیا کہ اسی مہینہ سے تاریخ لکھی جائے۔[32]

اس مطلب کے گواہ پیغمبرؐ کے کچھ خطوط، مکاتبات اور تاریخی دستاویزات ہیں جو تاریخی کتابوں سے ہم تک پہن[1]چی ہیں اور ان کی تاریخ نگارش آغاز ہجرت سے ذکر ہوئی ہے اس کے دو نمونہ یہاں پیش ہیں :

۱۔ پیغمبر اسلاؐم نے مُقنا کے یہودیوں سے ایک عہدو پیمان کیا اور اس پر آپ نے دستخط فرمائی اس کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ اس عہد نامہ کو علی بن ابی طالبؑ نے ۹ ھ ؁ میں تحریر کیا ہے۔[33]

۲۔ پیغمبر اسلاؐم نے نجران کے مسیحیوں کے ساتھ جو عہد و پیمان کیا اس میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ پیغمبرؐ نے علیؑ کو حکم دیا کہ اس میں لکھو کہ یہ پیمان ۵ھ ؁ میں لکھا گیاہے۔[34][2]

بعض قرائن اور شواہد کی بنا پر ۵ھ ؁ تک ہجرت کو اصل اور بنیاد بناکر واقعات اور روداد و حوادث کو مہینوں کی تعدا کے لحاظ سے لکھا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :

۱۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں : ”ماہ رمضان کا روزہ تغییر قبلہ کے ایک ماہ بعد، ہجرت کے اٹھارویں مہینہ میں واجب ہوا ہے۔[35]

۲۔ سفیان بن خالد سے جنگ کے لئے بھیجے ہوئے لشکر کا کمانڈر عبد اللہ بن اُنیَس کہتا ہے کہ میں پیر کے دن پانچ محرم کو ہجرت کے پچاسویں مہینے میں مدینے سے نکلا۔[36]

۳۔ محمد بن مسلمہ قبیلۂ قرطا[37] سے جنگ کے بارے میں لکھتا ہے:میں دس محرم کو مدینہ سے باہر گیا اور انیس دن کے بعد محرم کی آخری رات ، ہجرت کے ۵۵ویں مہینے میں ، مدینہ واپس آیا۔[38]

اس بنا پر ہجری، تاریخ کے بانی پیغمبر اسلاؐم ہی تھے۔ لیکن شاید خلافت عمر کے دور تک اسے بہت زیادہ شدت اور عمومیت نہیں مل سکی تھی۔[39] اور چونکہ عمر کے دور میں زمان حوادث اور بعض دستاویزات اور مطالبات کی تاریخ میں اختلاف کی کچھ صورتیں پیش آئیں ۔[40] لہٰذا انھوں نے اس مسئلے کو ۱۶ھ ؁ میں قانونی شکل دی اور ربیع الاول (مدینے میں پیغمبر کے داخلے کا مہینہ )کے بجائے ماہ محرم کو ہجری سال کا آغاز قرار دیا۔[41]

حوالہ جات

[1] یاقوت حموی ، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۳۹۹ھ ؁) ج۴ ، ص ۳۳۸.

[2] وہی مصنف، ج۵، ص ۳۶، مأرب بند ٹوٹنے کا تذکرہ ہم اس کتاب کے پہلے حصہ میں کرچکے ہیں .

[3] مونٹگری واٹ، محمدؐ فی المدینہ، تعریف: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبۃ العصریہ) ، ص ۲۹۴ پرکہتے ہیں کہ اوس و خزرج کے مدینہ آنے سے قبل ،قبائل عرب ۱۳ قلعوں اور کالونیوں کے مقابلے میں یہودیوں کے پاس ۵۹ قلعہ تھے (گزشتہ حوالہ، ۲۹۳؛ وفاء الوفاء ، ج۱، ص ۱۶۵.) اس سے دونوں کی زندگی کے معیار اور فاصلہ کا پتہ چلتا ہے۔

[4] ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج ۲، ص ۷۰؛ طبری ، ج۲، ص ۲۳۴؛ بیہقی، دلائل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۶۱) ج۲، ص۱۲۸۔ مراجعہ کریں : ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج۱، ص ۵۱؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ۵۶،

[5] طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ۵۸۰.

[6] ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۷۰۔ ۶۷؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۲۳۳؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۳۸؛ بیہقی ، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۱۱۸.

[7] ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ۷۳۔ ۷۰؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ۲۳۵۔ ۲۳۴؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۱۲۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۹، ص ۲۵.

[8] ”عقبہ‘‘

[9] چونکہ اس عہد میں جنگ و جہاد کی بات نہیں ہوئی ۔ لہٰذا اس کو ”بیعۃ النساء‘‘ کہا گیا جیسا کہ پیغمبر اسلاؐم نے اس کے بعد فتح مکہ میں اس شہر کی مسلمان عورتوں سے اسی طرح کا عہدو پیمان کیا جس کا ذکر سورۂ ممتحنہ کی آیت ۱۲ میں ہوا ہے

[10] وہی حوالہ؛ ابن طبقات الکبریٰ ج۱، ص ۲۲۰

[11] مصعب، قریش کے ایک جوان اور قبیلہ بنی عبددار کے ایک ثروتمند اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اوران کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن مسلمان ہو جانے کی وجہ سے انھیں گھر سے نکال دیا اور مال و ثروت سے محروم کردیا، وہ ایک حقیقی اور انقلابی مسلمان تھے اوردوبار حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے (ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۴، ص۳۷۰۔۳۶۸)

[12] بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ۱۴۰۔ ۱۳۲؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ۹۰۔ ۸۱؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ۲۵۴۔ ۲۴۰؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ۲۲۳۔ ۲۲۱؛ گزشتہ حوالہ، ص ۲۳۷؛ طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ۶۰۔ ۵۹؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ۱۹، ص ۲۶ ۔ ۲۵.

[13] بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج۱، ص ۲۵۷؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۲۴۱۔ ۲۴۰؛ ابن سعد گزشتہ حوالہ، ج۱، ص ۲۲۶؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ۲۶.

[14] ان اللّٰہ عزوجل قد جعل لکم اخواناأو داراً تأمنون بہا (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۱۱۱؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص ۱۸۲؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۳، ص ۱۶۹. حلبی، السیرۃ الحلبیہ، (انسان العیون) بیروت: دار المعرفہ) ج۲، ص ۱۸۹.

[15] گزشتہ حوالہ.

[16] و اذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّٰہ و اللّٰہ خیر الماکرین‘‘ سورۂ انفال، آیت ۳۰.

[17] سورۂ توبہ، آیت ۴۰.

[18] دارالندوہ اورلیلۃ المبیت کا واقعہ الفاظ اور عبارتوں کے فرق کے ساتھ اختصار و تفصیل سے مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ تاریخ الامم و الملوک، ج۲، ص۲۴۵۔ ۲۴۲؛ السرۃ النبویہ، ج۲، ص۱۲۸۔ ۱۲۴؛ طبقات الکبریٰ، ج۱، ص ۲۲۸۔ ۲۲۷؛ دلائل النبوۃ، ج۲، ص ۱۴۹۔ ۱۴۷؛ انساب الاشراف، ج۱، ص۲۶۰۔ ۲۵۹؛ الکامل فی التاریخ، ج۲، ص ۱۰۳۔ ۱۰۱؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۳۲؛ اعلام الوریٰ، ص۶۱؛ امالی شیخ طوسی، ص ۴۴۷۔ ۴۴۵ و ص ۴۷۱۔ ۴۶۳؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج۱، ص ۱۸۳۔ ۱۸۲؛ مناقب خوارزمی، ص ۷۳؛ کنز الفوائد کراجکی، ج۲، ص۵۵؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج۳، ص ۱۸۰۔ ۱۷۵؛ السیرۃ النبویہ، ج۲، ص۲۰۶۔ ۱۸۹؛ تاریخ بغداد، ج۱۳، ص ۱۹۲۔۱۹۱؛ بحار الانوار، ج۱۹، ص ۶۵۔ ۴۷۔

[19] سورۂ بقرہ، آیت ۲۰۷۔

[20] فتال نیشاپوری، روضۃ الواعظین (بیروت: موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ط ۱، ۱۴۰۶ھ.ق)، ص ۱۱۷؛ ابن اثیر ، اسد الغابہ، ج۴، ص ۲۵؛ مومن شبلنجی، نور الابصار (قاہرہ: مکتبۃ المشہد الحسینی)، ص ۸۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص ۳۰۱؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیہ، ۱۹۶۱.)، ج۱۳، ص ۲۶۲؛ سبط ابن الجوزی، تذکرۃ الخواص (نجف: المکتبۃ الحیدریہ، ۱۳۸۳ھ.ق)، ص ۳۵؛ تقی الدین ابوبکر حموی، ثمرات الاوراق (حاشیہ المستطرف میں )، ص ۲۰؛ عبد الحسین امینی، الغدیر، ج۲، ص ۸۰؛ مرحوم مظفر نے اہل سنت کے نامور علماء اور مفسرین جیسے ثعلبی، قندوزی، حاکم نیشاپوری، احمد ابن حنبل، ابو السعادات، غزالی، فخر رازی، اور ذہبی سے نقل کیا ہے کہ سبھی نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

[21] صدوق، الخصال (قم: منشورات جامعہ المدرسین)، ج۲، ص ۳۶۷، باب السبعہ؛ مفید ، الاختصاص (قم: منشورات جماعۃ المدرسین)، ص ۱۶۵.

[22] ابن ہشام ، السیرۃ النبویہ، ج۲، ص ۱۲۹؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص ۲۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۱؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص ۱۸۳.

[23] شیخ طوسی، الامالی (قم: دارالثقافہ، ط۱، ۱۴۱۴ھ.ق)، ص۴۶۸؛ رجوع کریں : مفید، الاختصاص، ص۱۴۷؛ تاریخ الخلفاء، ص ۱۶۶؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۹، ص۶۲۔

[24] محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، ج۱، ص۲۳۲؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۹، ص۸۷۔

[25] ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ۱۳۷؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ۲۴۸؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ۶۴؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص۲۶۳؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرھنگی، ۱۳۶۱)، ج۲، ۱۷۲۔

[26] رسول اسلامؐکے ٹھہرنے کی مدت میں اختلاف ہے۔

[27] ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج۱، ص ۱۸۵؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ۱۶۶ و ۱۷۲؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج۲، ص۲۴۹۔

[28] ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص۱۳۸؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ۲۴۹۔

[29] ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ۱۸۳؛ رجوع کریں : اعلام الوریٰ، ص۶۶؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۳۴۔

[30] گزشتہ حوالہ.

[31] ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبۃ الحیدریہ، ۱۳۸۴ھ.ق)، ج۲، ص۱۳۵؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع والنشر، ص۲۵۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج۱، ص۱۰؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (تالیف حافظ ابن عساکر) (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط۳، ۱۴۰۷ھ.ق) ، ج۱، ص۲۴۔ ۲۳۔

[32] طبری، تاریخ الامم و الملوک، (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج۲، ص۲۵۲؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط۳، ۱۴۰۱ھ.ق)، ج۱، ص۲۴۸؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج۴۰، ص۲۱۸، ابن شہر آشوب کی نقل کے مطابق۔

[33] بلاذری، فتوح البلدان (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ۱۳۹۸ھ.ق)، ص ۷۲۔ ۷۱؛ اس سند کے اصل متن میں علی بن ابی طالب (واؤ کے ساتھ) لکھا ہوا ہے جس کی وجہ تاریخ کی کتابوں میں بتائی گئی ہیں ۔ رجوع کریں : الصحیح من سیر ۃ النبی الاعظم، ج۳، ص ۴۸۔ ۴۶.

[34] الشیخ عبدالحی الکتانی، الترتیب الاداریہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج۱، ص۱۸۱۔

[35] الشیخ حسن الدیار بکری، تاریخ الخمیس، (بیروت: مؤسسۃ شعبان)، ج۱، ص ۳۶۸۔

[36] واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس (بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات)، ج۲، ص۵۳۱۔

[37] بنی بکر کا ایک خاندان ہے۔

[38] واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ۵۳۴۔

[39] سیدجعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ج۳، ص ۵۵.

[40] طبری، گزشتہ حوالہ، ص ۲۵۲؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (بیروت: مکتبۃ المعارف ط۲، ۱۳۹۴ھ.ق)، ج۷، ص ۷۴۔ ۷۳؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۹۶۱م)، ج۱۲، ص ۷۴؛ ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص ۱۱۔۱۰.

[41] ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج۱، ص ۱۷۵؛ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ج۳، ص ۳۵؛ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں : الصحیح من سیر ۃ النبی الاعظم، ج۳، ص ۵۶۔ ۳۲.

 

تبصرے
Loading...