انقلاب حسینی کی برکتیں

کربلا کی جنگ جسموں اورظاہری انسانوں کے درميان نہيں تھی بلکہ يہ جنگ اہداف و نظريات کی جنگ تھی۔ يہی وجہ ہے کہ يزيد مَات کھاگيا اورحسينؑ کامياب وکامران ہوگئے حسينؑ شہيدہوگئے اورظاہری طورپراس دنياسے چلے گئے ليکن سيدالشہداء اورآپ کے انصار و اعوان کی مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامی معاشرے ميں بيداری کی لہر  پيداکردی۔

انقلاب حسینی کی برکتیں

انقلاب حسینی کی چند ایک برکتیں ذیل کی سطور میں پیش ہیں:
۱۔ اسلام کی فتح ہوئی اورمٹنے سے محفوظ رہا،کيونکہ منصب الہی پرغاصب خود ساختہ اميرالمومنين يزيدنے اپنے شيطانی کرتوتوں سے اسلام کے نام پراسلام کو اتنا مشتبہ کردياتھا کہ حقيقی اسلام کی شناخت مشکل ہوگئی تھی، قماربازی، شراب خواری، نشے کا استعمال، کتوں سے کھيل کود، رقص اورعيش ونوش کي محفلوں کا انعقاد، غيراسلامی شعائر کي ترويج اوراشاعت، رعاياپرظلم وجور،حقوق انسانی کي پائمالی،لوگوں کي ناموس کي بے حرمتی وغيرہ جيسے بعض ايسے نمونہ ہيں کہ يزيد نے حاکم اسلامي کے عنوان سے اپناروزمرہ کامعمول بنارکھاتھا،اورلوگ اسي کواسلام سمجھتے تھے امام حسينؑ نے اپنے قيام کے ذريعہ حقيقی اسلام کويزيدی اسلام سے الگ کرکے پہچنوايااورديناپريہ واضح کردياکہ”يزيد“ اسلام کے لباس ميں سب سے بڑي ”اسلام دشمن“ طاقت ہے۔ 
۲۔ اہل بيت اطہارکي شناخت اس امت کے مثالي رہبر کے عنوان سے ہوئي، پيغمبر اسلام [ص] کے بعداگرچہ مسلمانوں کي تعداد کئی گنازيادہ بڑھ گئی تھی ليکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نامناسب قيادت اورغيرصالح نام نہاد رہبری کي وجہ سے مسلمان اصل اسلام سے دورہوتے گئے مفادپرست حاکموں نے اپنے ذاتی منافع کے تحفظ کي خاطرحلال محمدکوحرام اورحرام محمدکوحلال قراردے ديااوراسلام ميں بدعتوں کاسلسلہ شروع کرديا،تاريخ گواہ ہے کہ صرف پچيس سال رحلت پيغمبراکرم کوگذرے تھے کہ جب حضرت علي نے مسجدنبوی ميں ۳۵ہجري ميں نمازپڑھائی تولوگ تعجب سے کہنے لگے کہ آج ايسے لگا،خودپيغمبرکے پيچھے نمازپڑھی ہو، ليکن ۶۱ھ ميں اب نمازکاتصورہی ختم ہوگياتھاايسے ميں پيغمبراکرم[ص] کے حقيقي جانشين نے ميدان کربلاميں تيروں، تلواروں اور نيزوں کي بارش ميں، تيروں کے مصلے پرقائم کرکے اپنی صالح رہبری اور اسلام دوستی کاثبوت دے ديااوريہ واضح کردياکہ اسلام کاحقيقی وارث ہروقت اور ہر آن اسلام کی حفاظت کے لئے ہرطرح کي قرباني دے سکتاہے۔ 
۳۔ امامت کي مرکزيت پرشيعوں کااعتقادمستحکم ہوگيادشمنوں کے پروپيگنڈوں اورغلط تبليغاتی يلغارنے بعض شيعوں کے اعتقادات پرغيرمستقيم طورپرگہرا اثر ڈال رکھاتھا حتیٰ کہ بعض لوگ امام کومشورے دے رہے تھے کہ آپ ايساکريں اورايسانہ کريں بعض لوگوں کی نظرميں امامت کي اہميت کم ہوگئي تھی۔ امام حسينؑ کے مصلحانہ قيام نے ثابت کردياکہ قوم کي رہبری کااگرکوئي مستحق ہے تووقت کاامام ہے اور وہ بطوراحسن جانتاہے کہ کس وقت کونسا اقدام کرے اورکس طرح سے اسلام اصيل کومٹنے سے بچائے۔ 
۴۔ لوگوں کو آگاہ رکھنے کے لئے منبروعظ جيسااطلاع رساني کاايک عظيم اور وسيع نظام قائم ہوا۔مجالس عزاداری کي صورت ميں ہرجگہ اور ہر آن ايک ايسي ميڈيا سيل وجود ميں آگئی جس نے ہميشہ دشمنوں کي طرف سے ہونے والي مختلف سازشوں، پروپيگنڈوں اورثقافتی يلغارسے آگاہ رکھااورساتھ ساتھ حق وصداقت کاپيغام بھي لوگوں تک پہونچتارہا۔ 
۵۔ عاشورا،ظلم،ظالم،باطل اوريزيديت کے خلاف انقلاب کاآغازتھا۔ امام حسين نے يزيدسے صاف صاف کہہ دياتھا کہ ”مثلي لايبايع مثلہ“ مجھ جيساتجھ جيسے کی بيعت نہيں کرسکتا،يعني جب بھي يزيديت سراٹھائے گی توحسينيت اس کے مقابلے ميں ڈٹ جائے گی جب بھي يزيديت اسلام کوچيلنج کرے گی توحسينيت اسلام کوسربلندرکھے گی اوريزيديت کونابودکرے گی۔
بشکریہ:http://opizo.com/ZfL9Ev
http://alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=661&link_artic…

تبصرے
Loading...