امیرالمومنین (علیہ السلام) کی امامت و خلافت کے دلائل کا تجزیہ

خلاصہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی امامت و خلافت کے دلائل کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے، نیز امامت و خلافت کے مسئلہ میں شیعہ اور اہلسنت کے درمیان بنیادی اختلاف تین مسائل پر ہے، اس مقالہ میں ان تین مسائل کی تشریح کی گئی ہے۔

امیرالمومنین (علیہ السلام) کی امامت و خلافت کے دلائل کا تجزیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنی رسالت کے دوران مختلف عناوین پر متعدد مقامات پر خطبے ارشاد فرمائے۔ ان خطبوں میں سے ایک، خطبہ غدیر ہے۔ اس خطبہ میں آنحضرتؐ نے حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا مسلمانوں کے مولا کے عنوان سے تعارف کروایا۔ آپؐ نے یہ خطبہ ۱۸ ذی الحجہ سنہ ۱۱ ہجری قمری کو حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت، غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا، اس خطبہ کو بہت سارے شیعہ اور اہلسنّت علماء نے نقل کیا ہے۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد ولایت و سرپرستی کو ثابت کرنے کے لئے شیعوں کے لاتعداد دلائل میں سے ایک اہم، نمایاں اور واضح دلیل جو صدیوں سے آفتاب عالمتاب کی طرح چمک رہی یہی خطبہ غدیر ہے۔ اس خطبہ کا ایک حصہ حدیث غدیر ہے جس میں نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا: “مَن كنتُ مَولاهُ فعليٌّ مَولاهُ”،[1] “جس کا میں مولا ہوں، پس علی اس کے مولا ہیں”۔ اس خطبہ کی یہ حدیث سند اور مآخذ کے لحاظ سے شاندار ہے کہ اس حدیث کو ۱۱۰ اصحاب سے زائد اور ۸۴ تابعین نے نقل کیا ہے، یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حدیث متواتر طور پر شیعہ اور اہلسنّت کے مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ خطبہ غدیر میں ایک اہم بات جو آنحضرتؐ نے بیان فرمائی، خلافت کی بحث ہے۔ شیعہ اور اہلسنت کے درمیان خلافت کے موضوع پر جو بنیادی اختلاف ہے وہ تین بحثوں پر ہے:
۱۔ خلیفہ کا تقرر، اللہ کی جانب سے: امام کو اللہ کی جانب سے منصوب اور منصوص ہونا چاہیے۔ کیونکہ لوگوں کے دلوں کے راز، ان کی نیتیں، ان کے مقاصد، ان کے ایمان کی حقیقت کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور دل کی اتھاہ گہرائیوں میں گزرتی ہوئی باتوں کے بارے میں خداوند علیم کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہے تو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کون منصب امامت و خلافت کا لائق ہے، لہذا مدبر کائنات نے اپنے لاریب کلام میں واضح الفاظ میں ارشاد فرما دیا ہے: اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ[2]، “اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے؟ (اس کا اہل کون ہے؟)”۔ کیا اب تک کسی تاریخ میں ایسی بات نقل ہوئی ہے کہ فلاں نبی یا رسول کو اللہ نے مقرر نہیں کیا، بلکہ کسی شخص یا گروہ نے انتخاب کرکے نبی یا رسول بنا دیا؟! ہرگز نہیں! تو کیا جب انبیا اور رسولوں کے تقرر کا حق کسی کو حاصل نہیں تو سید المرسلین کے خلیفہ اور جانشین کے تقرر کا حق، کسی انسان کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟، جبکہ انبیا اور رسولوں کی محنتوں اور زحمتوں کے درخت پر اب پھل لگنے کا وقت آیا تو کیا ایسے نازک موقع پر وہ عہدہ جس کا تعلق صرف اللہ سے ہے، کسی عام انسان کے پاس آسکتا ہے جو مختلف گناہوں میں غوطہ زن ہو اور اللہ جو زمین پر نظام خلقت اور خلافت کی ابتدا سے اس سلسلہ کو اپنے ذمہ لیے ہوئے ہے، اب وہ اس عہدہ کی پرواہ بھی نہ کرے اور لوگوں کے حوالہ کردے کہ جسے چاہیں خلیفہ بنالیں؟! ایسا کام تو معاشرتی زندگی میں کوئی عاقل شخص نہیں کرتا، تو وہ خدا جو خالق عقل ہے کیا ایسا کرے گا؟ نہیں ہرگز نہیں! اسی لیے تو اس اللہ نے امیرالمومنین (علیہ السلام) کو خلافت کا منصب دینے کے سلسلہ میں اپنے حبیب پر آیت نازل فرمائی: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ [3]، “اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا”۔ وہ کون سا حکم تھا؟ علامہ اہلسنت سیوطی نے نقل کیا ہے: نزلت هذه الآیة ‏‏: یا أیها الرسول بلغ ما أنزل إلیك من ربك‏، على رسول الله یوم غدیر خم ، فی علی بن أبی طالب۔‏[4]، یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غدیر خم کے دن علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی۔ لہذا واضح ہوگیا کہ خلیفہ کا تعین صرف اللہ ہی کا کام ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ جو ذمہ داری اللہ نے لوگوں پر عائد کی اس سے لوگ کبھی جنگ کے میدان سے بھاگ گئے، کبھی ایمان کے میدان سے اور کبھی کی ہوئی بیعت پر عمل کرنے کے میدان سے، لیکن جو عظیم کام اللہ نے اپنے ذمہ لیا اسے لوگوں نے اپنے ذمہ لے لیا!! لوگوں نے جفا کرنے کی انتہا کردی کہ غدیر کی بیعت کو فراموش کردیا، اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ، حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اور آنحضرت کی اولاد میں سے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی خلافت کو غصب کرلیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسند پر بیٹھ گئے اور زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو کام صرف اللہ سے مختص تھا، اس کو چند افراد نے مل کر اپنا کام سمجھتے ہوئے، اس کام کو اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق کرنے کی بنیاد رکھ دی جس کے بھیانک نتائج سے آج تک دنیابھر میں ہرطرف گمراہی کی لہریں دوڑ رہی ہیں۔ شاید اس منصب الہی میں مداخلت اور مخالفت کی ناپاک جڑ شیطان کا وہی اعتراض ہو جو اس نے اپنے آپ کو اللہ کے خلیفہ سے بہتر سمجھتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اور اپنے نظریے کو اللہ کے اٹل فیصلہ پر ترجیح دے کر راندہ درگاہ ہونا پسند کرلیا، مگر اللہ کے خلیفہ کی خلافت کے سامنے تسلیم نہ ہوا۔ کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد غاصبان خلافت نے انسانی لبادہ میں، شیطان کے سجدہ سے انکار اور امر الہی سے سرتابی کی عکاسی نہیں کردی؟! جیسے اس نے خلیفہ الہی کی خلافت کی مخالفت کی، ان لوگوں نے بھی ایمان اور اسلام سے نکلنے کو پسند کرلیا، مگر غدیر خم میں مقرر کردہ خلیفہ الہی کے سامنے تسلیم نہ ہوئے۔ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں شیطان کی وہی روز اول کی دشمنی، مخالفت اور رجیم ہونے کے ناپاک درخت نے غدیر کی خلافت و ولایت سے مخالفت کرتے ہوئے اپنا پھل تو نہیں دے دیا؟! کہیں ایسا تو نہیں کہ شیطان نے اپنا پرانا کینہ، غدیر کے خلیفہ کے سامنے ظایرکر دیا؟!
۲۔امام کا علم، اللہ کی طرف سے: امام معصوم کا علم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کی طرح، اللہ تعالی کی طرف سے عطاشدہ علم ہے جو ہر خطا سے محفوظ ہے۔ یہ علم حضوری علم ہے، یعنی جب امام کسی چیز کے بارے میں علم پانا چاہے تو اللہ تعالی اسے اس چیز سے آگاہ کردیتا ہے۔ امام کا علم ان تمام موارد کو شامل ہوتا ہے جن کی امام کو اپنے فریضہ امامت کو ادا کرنے اور امت کی رہبری کے لئے ضرورت ہے۔ امام لوگوں کے علم سے بالکل بے نیاز ہوتا ہے۔ شیعہ روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ امام کے علم کا دائرہ تمام ان امور کو شامل ہوتا ہے جو کائنات میں رونما ہوچکے ہیں یا مستقبل میں رونما ہوں گے اور نیز بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی اس شخص کو جو لوگوں کے سوال کا جواب نہ دے سکے، اسے اپنی حجت کے طور پر قرار نہیں دیتا۔[5] امام کے علم کے بعض مصادیق یہ ہیں: اللہ کی کتاب اور اس کے مطلق و مقید، عام و خاص، ناسخ و منسوخ کا علم، دیگر آسمانی کتب کا علم، جو کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے یا مستقبل میں وقوع پذیر ہوگا[6]، موت اور مصیبتوں کے بارے میں علم[7]، تمام دنیاوی اور اخروی امور کے بارے میں علم[8]، اپنی وفات و شہادت کے طریقہ اور وقت کے بارے میں علم[9]، اسرار الہی کا علم[10]، احکام الہی کا علم[11]۔ کیا مسند خلافت پر بیٹھنے والوں کے پاس یہ تمام علوم تھے؟ یا جب لوگ سوال کرنے آتے تو ان کے سامنے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کسی اور صاحب علم کی طرف بھیج دیتے تھے؟ اگر ایسا تھا تو کیا وہی عالم ہی مسند خلافت کا لائق نہیں تھا، کیا ایسی غیرعادلانہ تقسیم پر انسانی ضمیر چیختا اور چلاتا نہیں ہے کہ اسی کو مسند خلافت پر بیٹھنے دو جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہے، جس سے کسی نے کبھی یہ نہیں سنا کہ اس نے کہا ہو: “مجھے نہیں معلوم”، جس سے ذرہ کی باریکی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو اسے علم ہے اور اگر کہکشاوں کی وسعتوں کے بارے میں سوال کیا جائے تو یہ بھی اسے معلوم ہے۔
۳۔ عصمت: چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم اور ہر گناہ و خطا سے پاک و پاکیزہ ہیں، لہذا آنحضرت کی مسند پر بیٹھنے والے کو بھی معصوم ہونا چاہیے، جو خود گناہ سے پرہیز کرے اور اس سے کسی قسم کی غلطی سرزد نہ ہو، کیونکہ ایسا ہی شخص لوگوں کو گناہ سے منع کرتا ہوا اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی طرف ہدایت کرسکتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالی نے امامت دی تو آپ نے اپنی نسل کے لئے بھی مقام امامت کے بارے میں اللہ تعالی سے دریافت کیا تو ارشاد الہی ہوا کہ میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچتا اور نیز قرآن کریم کی رو سے جو شخص اللہ کے حدود سے تجاوز کرے وہ ظالموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے، وہ چونکہ ظالم ہے تو اس تک عہد الہی یعنی امامت، نہیں پہنچ سکتی۔ اہل بیت (علیہم السلام) جو اولاد ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، جنہوں نے ہرگز زندگی کے کسی موڑ پر عہد الہی سے تجاوز نہیں کیا اور ہر دوست و دشمن اس بات کی گواہی دیتا ہے، جن کی عصمت پر گواہی اللہ تعالی آیت تطہیر نازل کرکے دے رہا کہ “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا[12]، ” بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے”۔ لہذا اہل بیت (علیہم السلام) مقام عصمت پر فائز ہیں۔
نتیجہ: امامت و خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے لئے کچھ شرائط ہیں، صرف اللہ کو حق حاصل ہے کہ جسے چاہے خلیفہ اور امام بنائے، امام چونکہ لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف ہدایت کرتا ہے تو اس کے پاس علم ہونا چاہیے اور اس کا علم بھی اسی ذات کی طرف سے آنا چاہیے جس کی طرف سے مقام خلافت پر منصوب ہوا ہے، نیز چونکہ اللہ تعالی کی طرف ہدایت کرنے کے لئے اور گناہ سے منع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہدایت کرنے والا پہلے خود معصوم ہو اور پھر دوسروں کو گناہ سے روک سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تاريخ دمشق : 42/188/8637۔
[2] سورہ انعام، آیت 124۔
[3] سورہ مائدہ، آیت 67۔
[4] درالمنثور، ج2، ص 298۔
[5] کافی، ج1، ص260‌-261۔
[6] مظفر، ص23۔
[7] کشی، ص1348۔
[8] کافی، ج1، ص61۔
[9] کافی، ج1، ص258۔
[10] تهذیب الاحکام، ج6، ص95۔
[11] مظفر، ص12۔
[12] سورہ احزاب، آیت 33۔

تبصرے
Loading...