امام حسین علیہ السلا م اورشب عاشور

 اما بعد! حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے اصحاب سے بہتر و برتر کسی کے اصحاب کاسراغ نہیں رکھتا، نہ ہی ہمارے گھرانے سے زیادہ نیکو کار اور مہر بان کسی گھرانے کا مجھے علم ہے ؛خدا وند متعال میری طرف سے تم سب کو اس کی بہترین جزاعطاکرے ۔

 

چوتھے امام حضرت علی بن الحسین علیہما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جب عمر سعد کی فوج پلٹ گئی تو حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا( یہ بالکل غروب کا وقت تھا) میں نے خود کو ان سے نزدیک کیا؛ کیونکہ میں مریض تھا۔ میں نے سنا کہ میرے بابا اپنے اصحاب سے فرمارہے ہیں:

”أثنی علیٰ اللّٰہ تبارک و تعالی أحسن الثنا ء و أحمد ہ علی السرّا ء و الضرّا ء ؛اللّٰھم ان أحمدک علی أن أکرمتنا با لنبوة و علمتنا القرآن و فقھتنا ف الدین و جعلت لنا أسما عاً وابصاراً و أفئدة ولم تجعلنا من المشرکین.

اما بعد ؛ فان لا أعلم أصحاباً أولیٰ و لا خیراً من أصحابی ولا أہل بیت أبرّ وأوصل من أہل بیت فجزاکم اللّٰہ عن جمیعاً خیرا.

ألا وانّ اظن یومنا من ھٰولاء الاعدا ء غداً ألا وان قد رأیت لکم فانطلقوا جمیعاً ف حِل ، لیس علیکم من ذمام ، ھٰذا لیل قد غشیکم فاتخذوہ جملا ! (١)ثم لیأ خذ کلُ رجل منکم بید رجل من أھل بیت؛تفرقوا ف سوادکم و مدائنکم حتی یفرّج اللّٰہ ، فان القوم انما یطلبون، ولو قد أصابون لَھَوا عن طلب غیر.”

 میں اللہ تبارک و تعالی کی بہترین ستائش کرتا ہوں اور ہر خوشی و آسائش اور رنج و مصیبت میں

١۔ ابو مخنف کہتے ہیں کہ مجھ سے حارث بن حصیرہ نے عبداللہ بن شریک عامری سے اور اس نے علی بن حسین علیہ السلام سے یہ روایت بیان کی ہے۔ (طبری ،ج٥،ص ٤١٨ ) ابو الفرج نے ص ٧٤ پر اور شیخ مفید نے ص ٢٣١ پر علی بن حسین کے بجائے امام سجاد علیہ السلام لکھا ہے جو ایک ہی شخصیت کے نام اور لقب ہیں ۔

اس کی حمد کرتا ہوں ۔خدایا! اس بات پرمیں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں نبوت کے ذریعہ کرامت عطاکی ، ہمیں قران کا علم عنایت فرمایا اور دین میں گہرائی و گیرائی عطافرمائی اور ہمیں حق کو سننے والے کان ، حق نگر آنکھیں او ر حق پذیر دل عطا فرمائے اور تونے ہمیں مشرکین میں سے قرار نہیں دیا ۔

اما بعد! حقیقت یہ ہے کہ میں اپنے اصحاب سے بہتر و برتر کسی کے اصحاب کاسراغ نہیں رکھتا، نہ ہی ہمارے گھرانے سے زیادہ نیکو کار اور مہر بان کسی گھرانے کا مجھے علم ہے ؛خدا وند متعال میری طرف سے تم سب کو اس کی بہترین جزاعطاکرے ۔

آگاہ ہوجاؤ! میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان دشمنوں کی شر انگیزیوں کی بنیاد پر کل ہماری زندگی کا آخری دن ہے۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ میں نے اسی لئے تم لوگوں کے سلسلے میں یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ تم سب کے سب ہماری بیعت سے آزاد ہو اورمیری طرف سے تم لوگوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ رات ہے جس نے تم سب کواپنے اندر ڈھانپ لیا ہے؛ تم لوگ اس سے فائدہ اٹھاکر اپنے لئے اسے حجاب و مرکب قرار دو اور تم میں سے ہر ایک ہمارے خاندان کی ایک ایک فرد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اپنے ملک اور شہر کی طرف نکل جائے یہاں تک کہ خدا گشائش کی راہ نکال دے ؛کیونکہ یہ قوم فقط میرے خون کی پیاسی ہے لہٰذا اگر وہ مجھے پالیتی ہے تو میرے علاوہ دوسروں سے غافل ہوجائے گی۔

 ہاشمی جوانوں کا موقف 

امام حسین علیہ السلام کی تقریر ختم ہوچکی تو عباس بن علی علیھما السلام نے کلام کی ابتداء کی اور فرمایا :” لِمَ نفعل ذالک؟ ألنبقی بعدک ؟ لاأرانا اللّٰہ ذالک أبداً!” ہم ایسا کیوں کریں ؟ کیا فقط اس لئے کہ ہم آپ کے بعد زندہ و سلامت رہیں ؟ !خدا کبھی ہمیں ایسا دن نہ دکھائے ۔

اس کے بعد حضرت عباس کے بھائی ، امام حسین علیہ السلام کے فرزندان ، آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کی اولاد ،عبداللہ بن جعفر کے فرزند ( محمد و عبداللہ ) سب کے سب نے اسی قسم کے کلمات سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام فرزندان جناب عقیل کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا : اے فرزندان عقیل ! مسلم کا قتل تم لوگوں کے لئے کافی ہے، تم سب چلے جاؤ ،میں تم کو اجازت دیتا ہوں۔یہ سن کر ان سبھوں نے عرض کیا:

”فما یقول الناس ! یقولون انّا ترکنا شیخنا و سیدنا و بن عمومتنا خیر الاعمام ولم نرم معھم بسھم ، ولم نطعن معھم برمح ولم نضرب معھم بسیف ، ولا ندر ما صنعوا ! لا واللّٰہ لا نفعل ولکن تفدیک أنفسْنا و أموالنا وأھلونا ، ونقاتل معک حتی نرد موردک ! فقبح اللّٰہ العیش بعدک” (١)

اگر ہم چلیں جائیں تو لوگ کیا کہیں گے ! یہی تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے بزرگ اور سید و سردار اور اپنے چچا کے فرزندان کو (نرغہ اعداء میں تنہا )چھوڑ دیا جبکہ وہ ہمارے بہتر ین چچا تھے۔ہم نے ان کے ہمراہ دشمن کی طرف تیر نہیں چلا یا ، نیز وں سے دشمنوں کو زخمی نہیں کیا اور ان کے ہمراہ تلوار سے حملہ نہیں کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔نہیں خد اکی قسم ہم ایسا نہیں کر سکتے ؛ ہم اپنی جان ، مال اور اپنے گھر والوں کو آپ پر قربان کردیں گے؛ ہم آپ کے ساتھ ساتھ دشمن سے مقابلہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ جہاں آپ وارد ہوں۔ وہیں ہم بھی وارد ہوں . اللہ اس زندگی کا برا کرے جو آپ کے بعد باقی رہے!

 اصحاب کا موقف 

جب بنی ہاشم اظہارخیال کر چکے تو اصحاب کی نوبت آئی تو۔ ( حسینی سپاہ کے سب سے بوڑھے صحابی) مسلم بن عوسجہ( ٢) اٹھے اور عرض کی :” أنحن نخل و لمانعذر الی اللّٰہ فی أداء حقک ! أماواللّٰہ حتی أکسر فی صدورھم رمح ، وأضربھم بسیف ما ثبت قائمة فی ید ،ولا أفارقک ، ولو لم یکن مع سلاح أقاتلھم بہ لقذفتھم بالحجارة دونک حتی أموت معک”

………….. ١۔مقاتل الطالبیین، ابو الفرج،ص٧٤ ،ارشاد،ص٢٣١، خواص۔ ص ٢٤٩

٢۔جو اشراف کوفہ جناب مسلم بن عقیل کے ساتھ تھے۔ ان کے ہمراہ آپ کے احوال گزر چکے ہیں ۔واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا تذکرہ ہے آپ کربلا کیسے پہنچے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

اگر ہم آپ کو تنہا چھوڑدیں ؟تو آپ کے حق کی ادئیگی میں اللہ کے سامنے ہمارے پاس کیا عذر ہوگا؟ خدا کی قسم! جب تک کہ میں اپنا نیزہ ان کے سینے میں نہ تو ڑلوں اور جب تک قبضۂ شمشیر میرے ہاتھ میں ہے میں ان کو نہ مار تا رہوں میں آپ سے جدا نہ ہوں گا اور اگر میرے پاس کوئی اسلحہ نہ ہوا جس سے میں ان لوگوں سے مقابلہ کر سکوں تو میں آپ کی حمایت میں ان پر پتھر مارتا رہوں گا یہاں تک مجھے آپ کے ہمراہ موت آجائے۔مسلم بن عوسجہ کے بعد سعید بن عبد اللہ حنفی اٹھے اور عرض کیا :

” واللّٰہ لا نخّلیک حتی یعلم اللّٰہ أنا حفظنا غیبة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فیک . واللّٰہ لو علمت ان أقتل ثم أحیا ثم احرق حےّاثم أذّر ، یفعل ذالک ب سبعین مرّ ة ما فا رقتک حتی ألقی حِما م دونک فکیف لاأفعل ذالک وانما ھ قتلة واحد ة ثم ھ الکرامة التی لا انقضاء لھا ابداً”

خدا کی قسم! ہم آپ کو تنہا نہیں چھوڑ یں گے یہاں تک کہ خدا ہمیں یہ بتادے کہ ہم نے رسول خدا صلی اللہ وآلہ وسلم کے پس پشت آپ کی حفاظت ونگرانی کرلی، خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہو کہ مجھے قتل کیا جائے گا اور پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر زندہ کر نے کے بعد مجھے زندہ جلا دیا جائے اور میری راکھ کو ہوا ؤں میں اڑادیا جائے گااور یہ کام میرے ساتھ ستّر (٧٠) مرتبہ بھی کیا جائے تب بھی میں آپ سے جدا ئی اختیار نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں آپ کے سامنے قربان ہو جاؤں۔ اور میں ایسا کیوںنہ کروں جب کہ ایک ہی بار قتل ہونا ہے اور اسکے بعد ایسی کرامت ہے جو کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔

اسکے بعد زہیر بن قین بولے :” واللّٰہ لوددت ان قتلت ثم نشرت ثم قتلت حتی أقتل کذ األف قتلة، وان اللّٰہ ید فع بذالک القتل عن نفسک وعن أنفس ھو لا ء الفتےة من أہل بیتک ”

خدا کی قسم! میرا دل تو یہی چاہتا ہے کہ میں قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جائے یہاں تک کہ ایک ہزار مرتبہ ایسا کیا جائے اور اللہ میرے اس قتل کے ذریعہ آپ کے اور آپ کے گھر انے کے ان جوانوں سے بلا کو ٹال دے ۔

اسکے بعد اصحاب کی ایک جماعت گویا ہوئی : ”واللّٰہ لا نفارقک ، ولکن أنفسنا لک الفداء نقیک بنحور نا وجباہنا وأید ینا .فاذانحن قتلنا کنا وفیناوقضینا ماعلینا”

خداکی قسم ہم آپ سے جدانہیں ہوسکتے ۔ ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں۔ ہم اپنی گردنوں ، پیشانیوں اور ہاتھوں سے آپ پر قربان ہیں۔جب ہم قتل ہو جائیں گے تب ہم اس حق کوادااور اس عہد کو وفاکریں گے جوہماری گردن پر ہے ۔

اس کے بعد اصحاب کے گروہ گروہ نے اسی قسم کے فقروں سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔(١)

 امام حسین علیہ السلا م اورشب عاشور

حضرت علی بن حسین علیھما السلام سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : جس شام کی صبح کو میرے باباشھید کردئے گئے اسی شب میں بیٹھا تھا اور میری پھوپھی زینب میری تیمارداری کررہی تھیں۔ اسی اثنا میں میرے بابا اصحاب سے جدا ہوکر اپنے خیمے میں آئے۔ آپ کے پاس ”جون ”(٢) ابوذر کے غلام بھی موجود تھے جو اپنی تلوار کو آمادہ کررہے تھے اور اس کی دھار کو ٹھیک کر رہے تھے۔اس وقت میرے بابا یہ اشعار پڑھ رہے تھے :

یا دھر اف ّ لک من خلیل

کم لک بالِاشراق والاصیل

من صاحب أو طالب قتیل

وا لد ھر لا یقنع با لبدیل

وانما الا مر الیٰ الجلیل

وکل ّ ح سا لک سبیل

…………..

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے عبداللہ بن عاصم فایشی نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کے حوالے سے اس روایت کو نقل کیاہے۔ (طبری، ج٥ ،ص ٤١٨؛ابوالفرج ،ص ٧٤ ، ط نجف ؛ تاریخ یعقوبی، ج ٢، ص ٢٣١ ، ارشاد، ص ٢٣١)

٢۔ طبری نے حوَلکھا ہے۔ ارشاد، ص ٢٣٢ میں ”جوین ” اور مقاتل الطالبیین، ص ٧٥ ، مناقب بن شہر آشوب، ج٢، ص ٢١٨، تذکرة الخواص، ص ٢١٩ ، اور خوارزمی، ج١ ،ص ٢٣٧ پر ”جون ” مرقوم ہے ۔ تاریخ طبری میں آپ کا تذکرہ اس سے قبل اور اس کے بعد بالکل موجود نہیں ہے نہ ہی امام علیہ السلام کے ہمراہ آپ کی شہادت کا تذکرہ موجود ہے۔

اے دنیا! اُف اور وائے ہو تیری دوستی پر، کتنی صبح و شام تو نے اپنے دوستوں اور حق طلب انسانوں کو قتل کیا ہے، اور ان کے بغیر زندگی گزاری ہے ،ہاں روزگاربدیل ونظیر پر قناعت نہیںکرتا، حقیقت تو یہ ہے کہ تمام امور خدا ئے جلیل کے دست قدرت میںہیں اور ہر زندہ موجود اسی کی طرف گامزن ہے۔

بابانے ان اشعار کی دو یا تین مرتبہ تکرار فرمائی تو میں آپ کے اشعار کے پیغام اور آپ کے مقصد کو سمجھ گیا لہذا میری آنکھوں میںاشکوں کے سیلاب جوش مارنے لگے اور میرے آنسو بہنے لگے لیکن میں نے بڑے ضبط کے ساتھ اسے سنبھالامیں یہ سمجھ چکاتھا کہ بلا نازل ہوچکی ہے ۔

ہماری پھوپھی نے بھی وہی سنا جو میں نے سنا تھا لیکن چونکہ وہ خاتون تھیں اور خواتین کے دل نرم و نازک ہوا کرتے ہیں لہٰذا آپ خود پر قابو نہ پاسکیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں اور سر برہنہ دوڑتی ہوئی اس حال میں بھائی کے خیمہ تک پہنچیں کہ آپ کا لباس زمین پر خط دے رہا تھا،وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا : ”واثکلاہ ! لیت الموت أعد من الحیاة ! الیوم ماتت فاطمة أمّ و علی أب ، وحسن أخ یا خلیفةالماض وثمال الباق”(١)آہ یہ جانسوز مصیبت ! اے کاش موت نے میری حیات کو عدم میں تبدیل کردیا ہوتا! آج ہی میری ماں فاطمہ ، میرے بابا علی اور میرے بھائی حسن دنیا سے گزر گئے۔ اے گذشتگان کے جانشین اور اے پسماندگان کی پناہ ، یہ میں کیا سن رہی ہوں ؟

یہ سن کر حسین علیہ السلام نے آپ کو غور سے دیکھااور فرمایا:” یا أخےّة لا یذھبن بحلمک الشیطان” اے میری بہن مبادا تمہارے حلم و برد باری کو شیطان چھین لے۔ یہ سن کر حضرت زینب نے کہا :” بأبی أنت و أمی یا أبا عبداللہ ! أستقتلت ؟ نفسی فداک ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیںاے ابو عبداللہ! کیا آپ اپنے قتل و شہادت کے لئے لحظہ شماری کررہے ہیں ؟ میری جان آپ پر قربان ہوجائے۔

…………..

١۔ ارشاد میں یہ جملہ اس طرح ہے” یا خلیفة الماضین و ثمال الباقین”(ص٢٣٢ ) تذکرہ میںاس جملہ کا اضافہ ہے” ثم لطمت وجھھا”(ص٢٥٠ ،طبع نجف)

یہ سن کر امام حسین علیہ السلام کو تاب ضبط نہ رہی؛ آنکھوں سے سیل اشک جاری ہوگیااور آپ نے فرمایا :” لو ترک القطا لیلاً لنام !” اگر پرندہ کو رات میں اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سورہے گا ۔

یہ سن کر پھوپھی نے فرمایا :” یا ویلتی ! أفتغصب نفسک اغتصاباً ؟ فذالک أقرح لقلب وأشد علیٰ نفس”اے وائے کیا آپ آخری لمحہ تک مقابلہ کریں گے اور یہ دشمن آپ کو زبردستی شہید کردیں گے ؟ یہ تو میرے قلب کو اور زیادہ زخمی اور میری روح کے لئے اور زیادہ سخت ہے ،یہ کہہ کر آپ اپنا چہرہ پیٹنے لگیں اور اپنے گریبان چاک کردئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ بے ہوش ہوگئیں ۔

امام حسین علیہ السلام اٹھے اورکسی طرح آپ کو ہوش میں لا کر تسکین خاطر کے لئے فرمایا :” یا أخےّة ! ا تق اللّٰہ و تعز بعزاء اللّٰہ و اعلم ان أھل الارض یموتون و أن أھل السماء لایبقون وأن کل شی ھالک الا وجہ الذی خلق الارض بقدرتہ و یبعث الخلق فیعودون وھو فرد وحدہ، أب خیر من، و أم خیر من ، و أخ خیر من ول ولھم ولکل مسلم برسول اللّٰہ أسوة .”

اے میری بہن !تقوائے الہٰی پر گامزن رہو اور اس سے اپنی ذات کو سکون پہنچاؤ اور جان لو کہ اہل زمین کو مرنا ہی مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیںرہیںگے۔ جس ذات نے اپنی قدرت سے زمین کو خلق کیاہے اس کے علاوہ ہر چیزکوفنا ہوناہے۔اس کی ذات مخلوقات کو مبعوث کرنے والی ہے، وہ دوبارہ پلٹیں گے، بس وہی اکیلا و تنہا زندہ ہے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے ، میری مادر گرامی مجھ سے بہتر تھیںاور میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے، میرے لئے اور ان لوگوں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے رسول خدا کی زندگی اور موت نمونۂ عمل ہے۔

اس قسم کے جملوں سے آپ نے بہن کے دل میںامنڈ تے ہوئے سیلاب کو روکا اورانھیں تسلی دی اور پھرفرمایا:

”یاأخےة ! انی أقسم علیک فأبّری قسمی : لا تشقی عل جیباً ولا تخمشی علّ وجھا ولا تد ع علّ بالویل والثبور اذا أنا ھلکت” اے میری بہن !میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت کے بعد تم اپنے گریبان چاک نہ کرنا، نہ ہی اپنے چہرے کو پیٹنا اورنہ اس پر خراش لگانا اور نہ ہی واے کہنا اور نہ موت کی خواہش کرنا۔

پھربابا نے پھوپھی زینب کو میرے پاس لاکر اور بٹھایا اور ان کے دل کو آرام و سکون بخشنے کے بعد اپنے اصحاب کی طرف چلے گئے۔ وہاں پہنچ کرانھیں حکم دیا کہ وہ ا پنے خیموں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرلیں، اس کی طناب کو ایک دوسرے سے جوڑ لیں اور اپنے خیموں کے درمیان اس طرح رہیں کہ دشمنوں کو آتے دیکھ سکیں ۔(١) اس کے بعد امام حسین علیہ السلام بانس اور لکڑیاںلے کر ان لوگوں کے خیموں کے پیچھے آئے جہاںپتلی سی خندق نما بنائی گئی پھر وہ بانس اورلکڑیاں اسی خندق میں ڈال دی گئیں۔ اسکے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: جب وہ لوگ صبح میں ہم لوگوں پر حملہ کریں گے تو ہم اس میں آگ لگادیں گے تا کہ ہمارے پیچھے سے وہ لوگ حملہ آور نہ ہوسکیں اور ہم لوگ اس قوم سے ایک ہی طرف سے مقابلہ کریں۔ (٢)

 شب عاشورامام حسین اور آپ کے اصحاب مشغول عبادت 

جب رات ہوگئی تو حسین علیہ السلام اوراصحاب حسین علیہم السلام تمام رات نماز پڑھتے رہے اور استغفار کرتے رہے۔وہ کبھی دعا کرتے اور کبھی تضرع و زاری میں مشغول ہوجاتے تھے ۔

ضحاک بن عبد اللہ مشرقی ہمدانی اصحاب حسین علیہ السلام میں سے تھے جو دشمنوں کے چنگل سے نجات پاگئے تھے،وہ کہتے ہیں : سواروں کا لشکر جو ہماری نگرانی کر رہا تھا اور ہم پر نگاہ رکھے ہوئے تھا وہ ہمارے پاس سے گزرا؛اس وقت امام حسین علیہ السلام قرآن مجید کی ان آتیوں کی تلاوت فرما رہے تھے : ”وَلاَےَحْسَبَنَّ اَلذِّینَ کَفَرُوْ اَنَّمَا نُمْلِْ لَھُمْ خَیراً لانفسھم اِنَّمَا نُمْلِْ لَھْمْ لَےَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَھُمْ عَذَاب مُھِےْن. مَا کَاْنَ اللّہُ لِےَذَرَ الْمُؤمِنِےْنَ عَلَی مَا أنْتُمْ عَلَےْہِ حَتَی ےَمِےْزَ الْخَبِیث مِنَ الطَّےِّب”ِ (٣)

…………..

١۔ حارث بن کعب اور ابو ضحاک نے مجھ سے علی بن الحسین کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے( طبری ،ج٥، ص٤٢٠ ؛ ابو الفرج ، ص ٧٥ ،ط نجف ،یعقوبی، ج٢،ص ٢٣٠ ؛ ارشاد ،ص ٢٣٢ ، طبع نجف )آپ نے تمام روایتیں امام سجاد علیہ السلام سے نقل کی ہیں۔

٢۔ عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبداللہ مشرقی سے روایت کی ہے۔ طبری ، ج٥ ،ص ٤٢١، ارشاد ، ص ٢٣٣ ، پر فقط ضحا ک بن عبداللہ لکھا ہے۔

٣۔ آل عمران، آیت ١٧٨و ١٧٩

جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے جو انھیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے، ہم نے تو انھیں اس لئے مہلت دی ہے تا کہ وہ اور زیادہ گناہ کریں اور ان کے لئے رسوا کنندہ عذاب ہے۔ خدا وندعالم ایسانہیں ہے کہ مومنین کو اسی حالت پر رکھے جس پر تم لوگ ہو بلکہ ی اس لئے ہے کہ وہ پلید کو پاک سے جداکر ے ۔

اس وقت لشکر عمر بن سعد کے کچھ سوار ہمارے اردگرد چکّر لگا رہے تھے ۔ان میں سے ایک سوار یہ آیتیں سن کرکہنے لگا رب کعبہ کی قسم !ہم لوگ پاک ہیں، ہم لوگوں کو تم لوگوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ میں نے اس شخص کو پہچان لیا اور بریر بن حضیر ہمدانی (١) سے کہا کہ آپ اسے پہچانتے ہیں یہ کون ہے ؟

بریر نے جواب دیا: نہیں ! اس پر میں نے کہا :یہ ابو حرب سبیع ہمدانی عبداللہ بن شہر ہے، یہ مسخرہ کرنے والااور بیہودہ ہے،بڑا بے باک اور دھوکہ سے قتل کرنے والا ہے۔ سعید بن قیس(٢) نے بارہا اس کی بد اعمالیوں اور جنایت کاریوں کی بنیاد پر اسے قید کیا ہے ۔

…………..

١۔ ارشاد ،ص ٢٣٣، اور دیگر کتب میںخضیر مرقوم ہے اور یہی مشہور ہے ۔ آپ کوفہ کے قاریوں میں ان کے سید و سر دار شمار ہوتے تھے۔ ( طبری ، ج٥، ص٤٣١ )آپ بڑے عبادت گزار تھے۔ واقعہ کربلا میں یہ آپ کا پہلا ذکر ہے۔ آپ امام علیہ السلام تک کس طرح پہنچے اس کا کوئی تذکرہ نہیںہے۔ آپ وہ ہیںجو جنگ شروع ہوتے ہی سب سے پہلے مقابلہ اور مبارزہ کے لئے اٹھے تو امام علیہ السلام نے آپ کو بٹھا دیا۔( طبری ،ج٥ ،ص ٤٢٩ ) آپ وہی ہیں جنہوں نے عبدالرحمن بن عبد ربہ انصاری سے کہا تھا : خدا کی قسم! میری قوم جانتی ہے کہ مجھے نہ تو جوانی میں ،نہ ہی بوڑھاپے میں باطل ہنسی مذاق سے کبھی محبت رہی ہے لیکن خداکی قسم جو میںدیکھ رہا ہوں اس سے میں بہت خوش ہوں۔ خدا کی قسم! ہمارے اور حور العین کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ ہم پر تلوار سے حملہ کریں۔میں تو یہی چاہتا ہوں کہ یہ لوگ حملہ آور ہوں۔( ج٥ ،ص ٤٢٣ ) آپ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ عثمان نے اپنی جان کو برباد کردیا۔ معاویہ بن ابو سفیان گمراہ اور گمراہ کرنے والا تھا . امام و پیشوای ہدایت اور حق تو بس علی بن ابیطالب علیہ السلام تھے۔ اس کے بعد آپ نے عمر بن سعد کے ایک فوجی سے جس کا نام یزید بن معقل تھا اس بات پر مباہلہ کیا کہ یہ مفاہیم و معانی حق ہیں اور یہ کہا کہ ہم میں سے جو حق پر ہے وہ باطل کو قتل کردے گا یہ کہہ کر آپ نے اس سے مبارزہ و مقابلہ کیا اور اسے قتل کردیا۔ (طبری ،ج٥ ،ص ٤٣١)

٢۔ سعید بن قیس ہمدانی ،ہمدان کا والی تھاجسے والی کوفہ سعید بن عاص اشرق نے معزول کر کے ٣٣ ھمیں ”ری” کا والی بنا دیا تھا۔( طبری، ج٥ ، ص ٣٣٠) امیر المومنین علیہ السلام نے مذکورہ شخص کو شبث بن ربیعی اور بشیر بن عمرو کے ہمراہ معاویہ کے پاس جنگ سے پہلے بھیجا تاکہ وہ سر تسلیم خم کر لے اور جما عت کے ہمراہ ہو جائے۔ (طبری، ج٥ ، ص ٥٧٣) صفین میں یہ شخص علی کے ہمراہ جنگ میں مشغول تھا۔( طبری، ج٤، ص ٥٧٤)یہ وہ سب سے پہلی ذات ہے جس نے امیر المومنین کے مقاصد کا مثبت جواب دیا تھا۔ (ج٥، ص ٩)امیر المومنین نے آپ کو انبار اور ہیت کی طرف سفیان بن عوف کے قتل و غارت گری کے سلسلے میں روانہ کیا تو آپ ان لوگوں کے سراغ میں نکلے یہاں تک کہ” ہیت ”پہنچے مگر ان لوگوں سے ملحق نہ ہوسکے ۔(طبری، ج٥، ص ١٣٤)ا س کے بعد تاریخ میں ہمیں ان کا کوئی ذکر اور اثر دکھائی نہیں دیتا ،شائد جب آپ عثمان کے زمانے میں” ری” اور” ہمدان ”کے والی تھے تو اسی زمانے میں ابو حرب کو قید کیا ہو۔

یہ سن کر بریر بن حضیر نے اسے آواز دی اور کہا: اے فاسق ! تجھے اللہ نے پاک لوگوں میں قرار دیا ہے ؟! تو ابو حرب نے بریر سے پوچھا : تو کون ہے ؟

بریرنے جواب دیا : میں بریر بن حضیر ہوں ۔

ابو حرب نے یہ سن کر کہا : انّاللّہ ! یہ میرے لئے بڑا سخت مرحلہ ہے کہ تم بریر ہو، خدا کی قسم! تم ہلاک ہوگئے، خدا کی قسم تم ہلاک ہوگئے اے بریر !

بریرنے کہا : اے بو حرب ! کیا تو اپنے اتنے بڑے گناہ سے توبہ کرسکتا ہے ؟ خدا کی قسم! ہم لوگ پاک ہیں اور تم خبیثوں میں ہو۔

اس پر ابو حرب نے بریر کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: اور میں اس پر گواہ ہوں!

میں ( ضحاک بن عبداللہ مشرقی) نے اس سے کہا : تیری معرفت تیرے لئے نفع بخش کیوں نہیں ہورہی ہے ؟

ابو حرب نے جواب دیا : میں تم پر قربان ہوجاؤں ! تو پھر یز ید بن عذرہ عنزیّ کا ندیم کون ہوگا جو ہمارے ساتھ ہے ۔

یہ سن کربریرنے کہا : خدا تیرا برا کرے! تو ہر حال میں نادان کا نادان ہی رہے گا ۔یہ سن کر وہ ہم سے دور ہوگیا۔ (١)

…………..

١۔ طبری، ج٥ ،ص ٤٢١ ،ابو مخنف کا بیان ہے : عبد اللہ بن عاصم نے ضحاک بن عبد اللہ مشرقی کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے۔

تبصرے
Loading...