امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا اوریزیدی گورنر نے امام حسین علیہ السلام کے قیام پر کیسے قابو پایا ؟

 امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا اور 

 امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنے والوں کا انجام کیا ہوا؟

مقدمہ :

نبوت کے آخری تاجدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے کلمہ گو قرآن و سنت کی روشنی  میں  آپ  کی ذریت  سے  اظہار محبت اور ان کی پیروی کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں   اور  اس پاکیزہ خاندان  سے دشمنی کرنے والوں سے ہونے سے اللہ کی پناہ  مانگتے ہیں ۔ ہم  اس  تحریر میں  اہل بیت ؑ کے دشمنوں کی صحیح پہچان کا جذبہ رکھنے  اور  ان  کے قاتلوں  سے اظہار بیزاری  کا  دم بھرنے والوں    کی خدمت میں   خاندان نبوت کے ساتھ  ۶۱ ھ میں پیش آنے والے اس دلخراش واقعے  کے بارے میں کچھ مطالب  پیش  کرنے کی کوشش کرتے ہیں،  تاکہ کوئی کسی قسم کی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر   اس باعظمت  خاندان سے دشمنی کرنے والوں کی  دفاع کو اپنا دینی فریضہ  نہ سمجھےاور   آل رسولؑ   کی عظمتوں  کا گیت گانے کے بجاے ان کے دشمنوں سے دفاع میں آل محمدؑ  کے چاہنے والوں سے نفرت    کو عبادت نہ سمجھ بیٹھے ۔

 فرزند پیامبر امام حسینؑ  قیام میں اسلام کی بقا دیکھتے ہیں:

 بنی امیہ  کے  حاکموں نےدین کو حکومت اور  اپنی خواہشات کے  حصول کا زریعہ بنا کر  اسلامی تعلیمات کو پاوں تلے روند دئے تھے ، ہر جگہ قرآن و سنت کے بجاے ان حاکموں کی خواہشات کی حکومت تھی۔  

امام حسینؑ  نے اپنے قیام کے آغاز میں ان حاکموں کے چہرے  سے نقاب ہٹا  کر امت اسلامی کو در پیش خطرات  سے آگاہ فرمایا  تاکہ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ فرزند پیامبر ؑنے خلیفہ اور حاکم اسلامی کے خلاف بغاوت کر کے  غلطی کی  ہو ، ہم اس مرحلے میں    بنو امیہ کے  غیر اسلامی  کاموں کی ایک جہلگ امام حسینؑ   کی ہی زبانی پیش کرنے کی کوشش کرینگے ۔

امام حسینؑ  کے فرامین :

 1: معاویہ کی موت سے دوسال پہلے اما م حسینؑ  نے حج کے دوران  بعض صحابہ کرام اور تابعین   کو منیٰ   میں جمع کر کے   اہل بیتؑ  کی شان و منزلت کا تذکرہ کرنے کے بعد حالت حاظرہ پر ایک تفصیلی گفتگو کرتے ہوئےبنی  امیہ  کے حاکموں کے غیر اسلامی کاموں کے  سامنے  خاموش رہنے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: آپ لوگ  جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو ۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے۔۔۔ رسول الله کے عہد و پیمان نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ ۔۔حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں ۔۔۔عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے … یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔۔تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکه باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اس کے گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم ہیں[1]۔  

    2:  آپ  ایک خط میں خاصکر اصحاب پیامبر کی بے جرم قتل کا تذکرہ کرنے کے بعد معاویہ سے  یوں مخاطب  ہوئے: اے معاویہ تمہارا یہ کہنا کہ میں  اپنی رفتار و دین اور امت محمد کا خیال رکھوں اوراس امت میں اختلاف اور فتنہ پیدا نہ کروں ۔میں نہیں جانتا کہ امت کیلئے تمہاری حکومت  سے بڑا اور کوئی  فتنہ ہوگا ۔جب میں اپنے فریضے کے بارےسوچتا ہوں اور اپنے دین اور امت محمد پر نظر ڈالتا ہوں تو  اس وقت اپنا عظیم فریضہ یہ سمجھتا ہوں کہ تم سے جنگ کروں ..تمہارے جرائم میں سے غیر قابل معافی جرم یہ ہے کہ تم نے اپنے شراب خوار  اور کتوں سے کھیلنے والے بیٹے کے لئے لوگوں سے بیعت لی ہے۔ [2]

3: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ وسلم  کی  حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بنی امیہ کے حاکموں  کے خلاف قیام کو واجب قرار دیتے ہوئے فرمایا : اے لوگو!رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ وسلم  نے فرمایا :  جو  کسی ظالم فرمان روا کو دیکھے جو حرام الہی کو حلال  شمار کرتا ہو،خدا سے کئے گئے عہد و  پیمان کو کو توڑتا ہو، اس کے پیغمبر کی سنت کی مخالفت کرتا ہو… اور ان تمام  باتوں کے باوجود زبان و عمل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو خدا  اسکو ظالم فرمان روا کے ساتھ ایک ہی جگہ جہنم میں  رکھے گا۔

اے لوگو:  بنو امیہ کے حکمرانوں نے شیطان کی اطاعت  اختیار کیا ہے خداے رحمن کی اطاعت ترک کردی ہے فساد پھیلا  رکھا ہے، قوانین الہی کو معطل کر رکھا ہے بیت المال کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال سمجھا ہے ۔ ایسے میں  دین کی نصرت  اور شریعت کی بالادستی کے لئے قیام کرنے کا میں زیادہ سزاوار ہوں [3].

4: بصرہ والوں کے نام خط میں آپ نے فرمایا : میں تمہیں قرآن و سنت کی طرف دعوت دیتا ہوں کیونکہ سنت مٹ چکی ہے  بدعت زندہ ہوچکی ہے اگر تم لوگ میری بات سنیں اور میری اطاعت کرے تو میں تم لوگوں کو راہ حق کی طرف رہنمائی کروں گا ۔[4]

5: کوفہ کے راستے میں لوگوں سے خطاب کرتےہوئے فرمایا : کیا تم لوگ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ حق پر عمل نہیں ہورہا  اور باطل سے روکا نہیں جارہا ایسے میں مئومن کو خدا سے ملاقات کے لئے آمادہ ہونا چاہے کیونکہ میں اس راہ میں موت  کو شہادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو ننگ وعار سمجھتا ہوں.[5]

فرزند پیغمبرؑ  نے ان  بیانات  کے ذریعے  بنی امیہ کے غیر دینی کردار کو بیان فرما کر  بنو امیہ  کے پیروکاروں کے  اس فکر  پر خط بطلان کھینچا  کہ ’’ خلیفہ اور حاکم وقت کے  خلاف قیام کرنا حرام چاہے حاکم فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو ‘‘ امام  نے اس قسم کی غیر اسلامی سوچ  کا مقابلہ کرنے کے لئے   اپنے عزیزوں کو لیکر میدان میں اتر ے   اور  لوگوں کو  یہ پیغام دیا کہ  خاندان پیامبر کا   راستہ دوسروں  سے جدا ہےاور  جو  دین  یزید جیسے آدمی کو خلیفہ  کہہ کر اس کی بیعت کو  واجب قرار دئے تو   اس دین  کا فاتحہ پڑھ دینا چاہئے [6] یعنی یہ  وہ دین  اسلام نہیں جو میرے نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ و آلہ وسلم  لے کر آئے تھے۔ آپ نے  مدینہ سے کربلا تک ہر جگہ یہ اعلان کیا کہ  یزید کے خلاف قیام کرنا رسول پاکؐ  کی حدیث کی رو سے سب پر  واجب ہے  اس  کی  بیعت  میں رہنا  اسلام  اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے ۔

کوفہ والوں کی طرف سے دعوت  :

  اس دور میں کوفہ کے بہت  سے  لوگ  بنو امیہ کے حاکموں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر  ان کے خلاف  بغاوت کے لئے موقع کی تلاش میں تھے کیونکہ

 ان حاکموں نے  لوگوں کی عزت نفس کو پامال کر کے انہیں ایک غلام کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور  کئے ہویے تھے ۔

کوفہ میں یزید جیسے پست انسانوں  کے مقابلے میں امام حسین ؑ جیسی عظیم شخصیت کی حمایت کا  بہت سے لوگ  خواہاں تھے۔معاویہ کے مر نے  اور فرزند رسولؑ کا  یزید کے خلاف قیام  کی خبر  کے بعد  جب  شیعوں نے یزید کے مقابلے میں امام حسین ؑ کی حمایت  کا نعرہ بلند کیا تو بہت سے دوسرے مسلمانوں نے بھی  شیعوں کی اس منطق اور نعرے کو بلند کرتے ہوئے  امام حسین ؑ کی حمایت کا اعلان کیا  اور شیعوں  کی طرح  دوسروں نے بھی امام کو خط لکھنا شروع کیا۔جیساکہ خطوط  کے مضمون اور لکھنے والوں کے نام سے واضح ہے  کہ آپ کو خط لکھنے والے مختلف قسم کے لوگ  تھے ۔

  امام کو  دعوت  دینے  والے اور  امام کے قاتل:

اس میں شک نہیں کہ امام کو خط لکھنے والوں میں بعض شیعہ اہم شخصیات بھی تھے: جیسے  حبیب بن مظاہر ، سلیمان بن صرد ،سعید بن عبداللہ ، عابس بن شاکر ، قیس بن مسہر  وغیرہ   لیکن بعض شیعہ اہم شخصیات کو  اس بات کا یقین نہیں تھا کہ لوگ آخری دم تک فرزند پیغمبر ؑسے کیے ہوئے اپنے عہد پر باقی رہیں گے لہذا خط  لکھنے والوں میں شامل نہیں ہوئے ۔جیسے  مختار  ثقفی وغیرہ ۔

 تاریخی حقائق کی روشنی میں شیعہ خط لکھنے والوں کو یا تو ابن زیاد نے گرفتار کر لیا تھا جیسے سلیمان بن صرد وغیرہ  یا انہیں شہید کر  دیا تھا ،جیسے  قیس بن مسہر  اور جو اس کی چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھےان میں سے بعض کربلا میں امام سے ٓاملے اورآپکی نصرت کرتے کرتے شہید ہوئے جیسے حبیب بن مظاہر ، سعید بن عبداللہ ، عابس بن شاکر ، مسلم بن عوسجہ وغیرہ ۔

اور بعض دوسرے جو  اس وقت کی حالات کی وجہ سے امام کی نصرت کرنے کربلا میں حاضر نہ ہوسکے  ، وہ لوگ بعد میں کوفہ میں امام ؑ کے قاتلوں سے انتقام لیتے ہوئے  شہید ہوئے جیسے عبد اللہ بن وال، المسيب بن نجبة وغیرہ  ۔

جیساکہ امام حسینؑ  نے خود ہی  عاشورا  کے دن  آپ کو خط لکھ   کر  بعد میں آپ کو   دھوکہ دینے والوں  کا نام   لے کر  انہیں آواز دیاور   ان لوگوں نے جس طریقے سے آپ کو   جواب دیے[7]   وہ  اس بات پر بہترین شاہد ہے کہ امام کو دعوت دے کر بعد میں آپ کو شہید  کرنے کربلا آنے والوں  کا اہل بیت ؑ کے شیعوں  سے  کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ سب  شیعہ مخالفین میں ہی سے تھا  ۔

   امام  ؑنے خط لکھ  کر بعد میں آپ سے جنگ کرنے آنے   والوں کا نام  بتا کر ایسے لوگوں کو تاریخ میں رسوا کردے جو  کوفہ کو شیعوں  کا مرکز کہہ کر  یہ بتانا چاہتے تھے کہ شیعوں نے ہی امام کو خط لکھا  اور  انہوں نے ہی امام کو شہید کیا اور اگر کوئی  اس پر اصرار کرے کہ امام کو خط لکھنے والے سارے شیعہ ہی تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  یزید جیسے    آدمی کے مقابلے میں فرزند رسولؑ کی حمایت کرنے والے صرف شیعہ ہی تھے دوسرے سارے یزید   کو فرزند رسول ؑ پر ترجیح دیتے تھے ۔

ہم  چیلینچ  کے ساتھ کہتے ہیں کہ کوئی بھی کسی ایسے شیعہ  کا نام  تاریخ  سے ثابت نہیں کرسکتا جس  نے امام کو خط  بھی لکھا ہو اور بعد میں آپ کو شہید کرنے  یزیدی لشکر میں شامل ہوکر کربلا بھی  آیا ہو .

شیعہ مخالفین  کی دو عجیب  باتوں کا تذکرہ :

 1 :   بعض لوگ بعض  شیعوں کی طرف سے امام  کو  خط لکھنے  کے  بہانے ، شیعوں کو امام کا قاتل کہتے ہیں اور  جن کا امام نے نام لیا  اور ان کا   کربلا میں امام کے قاتلوں میں سے ہونا مسلم   بھی ہے یہ سب  جناب عثمان اور دوسرے خلفا کی خلافت کو ماننے والے  ہی  تھے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ان لوگوں   کو چھوڑ کر   صرف شیعوں پر ہی  فرزند رسولؑ  کے  قاتل ہونے کا  الزام لگایا جاتا  ہے ۔

2 :  شیعہ مخالفین  اس بات پر زور دیتے  ہیں  کہ  شیعوں نے ہی امام کو خط لکھا اور امام اسی وجہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امام حسین ؑ کے چاہنے والے اور یزید کے مقابلے میں انہیں خلافت کا مستحق سمجھ کر  ان کی حمایت کا اعلان کرنے والے صرف شیعہ ہی تھے  اور امام حسینؑ انہی لوگوں  کے کہنے پر   اپنے اہل و عیال کو لے کر یزید کے خلاف قیام کو عملی شکل دینے کوفہ روانہ ہوئے تھے ۔ لیکن عجیب منطق یہ ہے کہ شیعہ مخالفین  یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ  ابن سبا  یہودی کے پیروکار ہیں، یعنی  امام حسینؑ  نے نعوذ باللہ   جان بوجھ کر یا  انجانے   ابن سبا کے پیروکاروں کو اپنا پیروکار سمجھ کر کوفہ  کا رخ  کیا ۔کیا اس قسم  کی باتیں امام حسین ؑ جیسی عظیم شخصیت  کی شان میں گستاخی  نہیں ؟ کیا اس وقت کے کوفہ کے  مشہور شیعوں   کو صرف بنی امیہ کے پیروکار ہی جانتے تھے ؟

امام حسینؑ  کے سفیر  اور ان کے  حامیوں کو کیسے کچلا گیا؟

جیساکہ بیان ہوا کہ کوفہ میں بغاوت اور انقلاب کا پر چم شیعوں کی ٹھوس منطق کی وجہ سے شیعوں کے ہاتھ میں تھا اور شیعہ اپنے قلیل تعداد کے باوجود بہت سے بنی امیہ کے مخالفین کو اپنے ارد گرد جمع کرنے میں بظاہر کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن ابن زیاد کی چالاکی ،بعض انقلابیوں کے نااہلی یا سستی کی وجہ سے یزید کا خصوصی گورنر ابن زیاد شیعوں سے انقلاب کے پرچم کو چھینے میں کامیاب ہوا۔

جناب مسلم کے قیام کو کچلنے کے لیے ابن زیاد کے اقدامات:

کوفہ کی بدلتے ہوئےحالات پر کنٹرول کیلئے یزید نے اپنے باب معاویہ کی وصیت پر عمل کر کے  ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنایا[8] ہم ذیل میں   ایک ماہ سے زیادہ کے عرصے  میں  ابن زیاد  کی طرف سے   مخالفین کو کچلنے کی   خاطر انجام دئے  اقدامات  کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

۱۔ دھمکی : نقاب پوش حالت میں کوفہ آنے  اور دار الامارہ میں مستقر ہونے کے بعد مخالفین کو دھمکی دیتے ہوے کہا : جو بھی یہاں آکر اپنی وفاداری کو ثابت نہ کرے اسکا مال اور خون حلال قرار دیا جاےگا۔ [9]

۲: افواہ پھلانا :  ابن زیاد نے کوفہ کی تشویش ناک فضا  اور اپنے سابقہ تجربات کے پیش نظر  اپنے کارندوں کے ذریعے شہر میں ہر جگہ افواہوں اور مختلف قسم کے پروپیگنڈوں کا بازار گرم کردیا ،خاصکر شامی لشکر کے کوفہ پر عنقریب حملہ کی جھوٹی خبر نے سب کو پریشان کردیا  اور  اس خبر کے صحیح ہونے کی صورت میں  مخالفین کا قلع قمع تقریبا یقینی بات تھی  کیونکہ  مخالفین ابھی تک ایک منظم انداز میں حکومت کے خلاف قیام کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے، بہت سے  لوگ تو امام کی آمد کے انتظار میں تھے تاکہ امام کے آنے کے بعد  ان کی بیعت کر کے ان کے حکم پر عمل کرے۔

۳ : حرص اور  لالچ  کی سیاست : ابن زیاد نے   قبائلی سرداروں  اور بہت سے دوسرے لوگوں کی ذہنیت کی شاخت کے پیش  نظر  بیت المال کا  دروازہ ایسے افراد کیلے کھول دیا جو ہر جائز ناجائز طریقے سے مال و دولت کے  حصول کی فکر میں ہی رہتے تھے[10] ۔جیساکہ خود امام حسینؑ  نے بھی اس وقت اسی  صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے استعمال کرتےہیں۔ جب کسی سخت امتحان میں پڑ جاے تو دیندار کم رہ جاتے ہیں۔[11] 

۴: جاسوسی کے ذریعے مخالفین  کی شناخت  :   مخالفین کی شناخت اور ان کی مخفی گاہوں کی پہچان کیلئے  اپنے جاسوسوں کو اس کام پر مامور کیا اسی لئے  معقل نامی  جاسوس نے مسلم ابن عوسجہ کو دھوکہ دے کرجناب مسلم کے  مخفی گاہ اور ان کے خاص خاص ساتھیوں کی  شناخت کرائی[12] ۔

جب ابن زیاد مختلف حیلوں کے ذریعے سے مخالفین کی پہچان  اور   ان  پر گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہوا  تو مندرجہ ذیل اقدامات   کے ذریعے مخالفین کو سختی سے  کچل دیا  ۔

الف : جناب مسلم اور ہانی کی گرفتاری  :

  ابن زیاد نے  جناب ہانی  کو  گرفتار کیا، ان کے ساتھ جب بدرفتاری سے پیش آیا ،انکا قبیلہ انہیں  نجات دینے  کے لئے  آیا لیکن ابن زیاد نے قاضی شریح کے  ذریعے انہیں متفرق کرایا  اور جب جناب مسلم  انہیں   نجات دینے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ  آئے  تو  اس وقت بھی   ابن زیاد نے اپنے حیلوں اور کارندوں کے ذریعے جناب مسلم کے ساتھ قیام کرنے والوں کو بھی متفرق کردیا  اور شہر میں مکمل فوجی حکومت  اور کرفیو  نافذ  کر نے کے بعد  انہیں  گرفتار  کر کےشہید کر دیا ۔

ب: قتل و غارت گری  اور اہم شخصیات کی  گرفتاری  :

جناب مسلم اور ہانی کی گرفتاری اور شہادت کے بعد جناب عبد الله بن حارث ،عبدالاعلی ،عباس بن جعدہ ،  میثم تمار جیسے  جناب مسلم  کے قیام کے اہم  اراکین کو  گرفتار کر کے شہید کردئے  اور  دوسرے شیعہ اہم شخصیات کے گھروں پر حملہ ، توڑ پھوڑ اور غارت گری کے ذریعے  تمام مخالفین  کیلے  شہر کو ناامن کردیا گیا [13]۔اور   بہت سے اہم شخصیات کو شہید کرنے کے بعد  اس نے بعض  دوسرے خاص خاص افراد کی گرفتاری کا سلسلہ تیز کردیا   ۔جیساکہ  کربلا کے واقعےکے ایک دو سال بعد  جب  ان لوگوں نے رہائی کے بعد امام حسینؑ  کے خون  کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا تو ابن زیاد  کہتا تھا: اے کاش: میں اس زمانے میں موجود ان افراد کو زندان سے نکال کر ان کے سر تن سے جدا کردیتا [14] ۔وہ اس لئے یہ کہہ رہا تھا  کیونکہ اس نے کوفہ کے بہت سے شیعہ  اہم شخصیات کو زندان  میں ڈال دیا تھا [15] ۔

ج:  کوفہ کی ناکا بندی  :

گرچہ ابن زیاد  اہم شخصیات  پر قابو پانے کے ذریعے سے  اس قیام  کے پرچم کو شیعوں کے ہاتھ سے چھینے اور مخالفین کو بغیر رہبر کے سرگردان کرنے میں کامیاب ہوا تھا،یہاں تک کہ  مخالفین کی طرف سے منظم طور پر بغاوت کرنے کا امکان تقریبا  ختم ہوچکا تھا۔  لیکن  امام کے چاہنے والوں کی طرف سے  مخفیانہ اور انفرادی طور پر امام سے ملحق  ہونے  کا  خوف موجود تھا۔  لہذا  ابن زیاد نے امام کو کربلا  ہی  میں محصور کر نےکے  کے بعد  شہر کے تمام دروازوں پر پہرا بٹھا کر کوفہ  میں داخل ہونے اور کوفہ سے خارج ہونے کے تمام راستوں کو بند  کردیا [16] ، کوفہ میں ان عام لوگوں کو جن کے بارے  میں یہ خطرہ تھا کہ وہ  امام کی نصرت کرنے جاسکتے ہیں انہیں ایک مقام پر جمع کر کے خود ابن زیاد  امام کی شہادت تک اپنے کارندوں کے ساتھ وہاں پہرادیتا رہا [17] ۔ لہذا ابن زیاد نے  نہ شیعوں کی اہم شخصیات کو  آزاد چھوڑا تھا  نہ عام شیعوں کے لیے  امام سے ملحق ہونا  ممکن تھا۔  

  شیعہ مخالفین کی دو  نامعقول  باتیں :

 الف :  گذشتہ مطالب کی روشنی میں  انتہائی نامعقول ہے کہ کہا جائے:  ابن زیاد نے جس لشکر کو کربلا  روانہ کیا تھا ۔اس میں شامل  سب کے سب یا ان کی  اکثریت  امام کے  شیعہ تھے۔ بنو امیہ کے اس   تجربہ کار گورنر  سے کیسے ممکن ہے کہ جو شیعوں پر کڑی نگرانی کے ذریعےانکا امام سے ملحق ہونے کی تمام راستوں کو بند کیے ہوے ہو وہی شیعوں کو مسلح کر کے امام  سے جنگ کرنے کیلے کربلا روانہ کرے؟ 

ب : اس قسم کی ایک انتہائی نامعقول بات ہے کہ امام حسینؑ  نے جن حاکموں کے ظلم و ستم کے خلاف  لوگوں کو قیام اور جھادکی  دعوت   دی ، جب آپ  اس راہ میں  شہید ہوئےتو یہ کہا جائے کہ خود امام کی تحریک کے حامیوں نے انہیں شہید کرنے  کیلئے ان افراد کا ساتھ دیا  جن لوگوں نے ان شیعوں  کو  امام سے اظہار عقیدت کے جرم میں ہر ممکن طریقہ سے کچل کر رکھ دیا تھا ۔

لہذا شیعوں کا  یزیدی لشکر میں شمولیت کی اس انتہائی بے بنیاد اور بے منطق داستان کو مذہبی تعصب کا شکار   یا حقائق سےنا  آشنا ہی قبول کرسکتا ہے ۔

جناب  مسلم کے قیام کی شکست اور توابین کے قیام کے بارے شبہہ کی وضاحت  :

بعض لوگ ممکن ہے جناب مسلم کے قیام کی  ناکامی  اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے انہیں تنہا چھوڑنے  کا مسئلہ، اسی طرح توابین کے قیام کو بہانا بنا کر یہ بتانے کی کوشش کرے کہ شیعہ ہی امام کے قاتل ہیں ۔

اس سلسلے میں یہ بات واضح ہے کہ   تو ابین اپنے کو امام حسین ؑ کی قتل میں شریک  سمجھ کر  امام کے قاتلوں سے انتقام  کا نعرہ  نہیں لگا رہے تھے  یہ لوگ امام کی نصرت نہ کرسکنے اور ہر ممکن طریقے سے کربلا  امام کی نصرت کیلئے نہ جانے کے سلسلے میں خود کو ملامت کرتے اور  اپنے  کو قصوار سمجھتے تھے ۔ اسی لئے بعد میں  یزیدی لشکر سے انتقام لینے کیلئے قیام کیا اور ابن زیاد کے لشکر کے ہاتھوں ان میں سے بہت سے  شہید  بھی ہوئے ۔  اب اگر شیعہ   خود ہی امام کے قاتل تھے تو کیا شیعوں نے  خود کو ہی  قتل کرنے کے لئےقیام کیا تھا؟   کیا  اس وقت کے شیعہ  مخالفین   شیعوں  سے یہ نہیں  کہہ سکتا تھا : تم لوگوں نے ہی امام  کو شہید کیا ہے   اور آج تم لوگ ان کے خون کا انتقام  لے رہے ہو ؟  کیوں یہ  لوگ شیعوں کی غیض و غضب سے بچنے کیلئے مارے مارے پھرتے رہے ؟کیوں  بنو امیہ کے پیروکار شیعوں کے مقابلےمیں’’ یا لثارات عثمان‘‘ کا نعرہ بلند کرتے رہے  [18] اور  شیعوں  نے کن کو چن چن کر مارا [19]؟

جناب مسلم کے قیام کا شکست سے دوچار ہونے اور لوگوں کا متفرق ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شیعوں نے کربلا  آکر  امام کو شہید کیا  ہو۔ابن زیاد کی مکارانہ اور ظالمانہ  چالوں   کی وجہ سے ہی جناب مسلم کا قیام شکست سے دوچار ہوا    اور اس قیام کے بنیادی ارکان کو اس نے کچل کر رکھ دیا ۔ جو شیعہ ابن زیاد کے  ہاتھوں سے   بچ نکلے ان  میں سے بعض سختی سے کربلا پہنچ کر  امام کے ساتھ ملحق ہونے میں کامیاب ہوئے اور امام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے  مثلا مسلم بن عوسجہ اور حبیب بن مظاہر جیسے لوگ اور  جو  باقی رہ گئے  ان میں سے اکثر    بعد میں امام کے خون کا بدلہ لینے  اہل بیتؑ  کے دشمنوں سے لڑتے لڑتے  شہید  ہوئے ۔

لہذا حقیقت یہ ہے کہ   ابن زیاد اور اس کا لشکر شیعوں کی لاشوں پر سے گذر کر ہی کربلا پہنچا ، شیعوں کو کچلنے اور ان کا خون بہانے  کے بعد ہی امام کے خون میں ہاتھ ڈالنے کربلا  کا رخ  کیا ۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ امام کو شہید کرنے والے لشکر  میں سب کے سب یا اس کی اکثریت کا  شیعہ ہونا تو دور  کی بات، ان میں سے  ایک شیعہ کا نام بتادے جس کا تعلق اہل بیت ؑ کے شیعوں سے بھی ہو اور یزیدی لشکر   میں شامل ہوکر  امام کو قتل کرنے کربلا بھی  آئے  ہو ۔

 

 


[1]تحف العقول ۔کلمات امام حسین ۔[ اگرچہ یہ سند شیعہ کتاب کی ہے لیکن بعد کی سندیں سب اہل سنت کی کتابوں سے ہیں اور سب کا مضمون ایک ہی  ہے ۔

[2] أنساب الأشراف [2 /119] الامامة والسياسة   [1 /281]

[3][3] -قال: من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله    تاريخ الطبري [3 /307] أنساب الأشراف [1 /414]

[4]وأنا أدعوكم إلى كتاب الله وسنة نبيه ۔۔۔۔، تاريخ الطبري [3 /280] البداية والنهاية [8 /170]

[5]ألا ترون أن الحق لا يعمل به ۔۔ ./  تاريخ الطبري [3 /307] تاريخ مدينة دمشق [14 /217]

[6] ۔ و إنا إليه راجعون و على الإسلام السلام إذ قد بليت الأمة براع مثل يزيد–  مقتل خوارزمی، ج۱ ص ۱۸۴۔

[7] ۔ فنادى يا شبث بن ربعى ويا حجار بن أبجر ويا قيس ابن الاشعث ويا يزيد بن الحارث ألم تكتبوا إلى أن قد أينعت الثمار واخضر  ۔تاريخ الطبري [4 /323]  أنساب الأشراف [1 /419]الكامل في التاريخ [3 /419]  البداية والنهاية [8 /179]

[8] وَذَلِكَ بِإِشَارَةِ سَرْجُونَ مَوْلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ،.. /البداية والنهاية [8 /  152 /. الكامل في التاريخ [2 /154]   تاريخ الطبري  (5/ 356)

[9] ۔، فمن لم يفعل فبرئت منه الذمة وحلال لنا دمه – الكامل في التاريخ [2 /155] تاريخ الطبري [3 /281]

[10] ۔ ۔ وضع لاهل الرياسه العطاء ۔۔ الفتوح ،ج 5 ص، 157۔۔

[11] ،   الناس عبيد الدنيا … بغية الطلب في تاريخ حلب (3/ 28

[12] – الأخبار الطوال [ص 235] : الكامل في التاريخ [2 /155]

[13] ۔ حصین بن نمیر جیسا سنگدل کو اس کام پر مامور کیا ۔

[14]تاريخ الطبري [3 /375] الكامل في التاريخ [2 /199]

[15]– تاريخ الطبري [3 /364] أنساب الأشراف [2 /227]

[16] ۔تاريخ الطبري [3 /299] ووضع ابن زياد المناظر   أنساب الأشراف [1 /416

[17] . أنساب الأشراف [1 /416]

[18] ۔ تاريخ الطبري [3 /458]  الكامل في التاريخ [2 /233]

[19] ۔ فقتل المختار كل من شهد قتل الحسين الكامل في التاريخ (2/ 233،)

تبصرے
Loading...