امام حسنؑ کی صلح کے بغیر عاشورا ناممکن

خلاصہ: دین کی حفاظت امام کی ذمہ داری ہے، جب دین کے دشمن دین پر یلغار کرتے ہوئے دین کی بنیادیں کاٹنا چاہیں تو امام کو ایسی حکمت عملی اپنانی چاہیے جس سے اسلام بھی محفوظ رہے اور مسلمانوں کی جانیں بھی، مگر کبھی حالات ایسے نازک مرحلہ پر پہنچ آئے جب صلح کرکے اسلام اور مسلمانوں کی جانوں کو محفوظ رکھا اور کبھی حالات یوں بدل گئے کہ جنگ کرکے اسلام کو بچانا پڑا، ایسی صورتحال میں جان کو دین پر قربان کردینا، اللہ کی رضامندی کے عین مطابق ہے، البتہ معصوم امام کی زیرنگرانی۔

امام حسنؑ کی صلح کے بغیر عاشورا ناممکن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اہل بیت (علیہم السلام) کے حالات زندگی سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف رہے ہیں۔ ہر دور میں ہر معصوم ہستی نے خاص طرح کی حکمت عملی اپنائی اور دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا تاکہ اللہ کا دین محفوظ رہے چاہے اس پر جان بھی قربان کرنی پڑے، مگر بعض ادوار میں حالات ایسے نازک مرحلوں پر پہنچ جاتے تھے کہ جان قربان کردینے سے بھی دین نہیں بچ سکتا تھا، اسی لیے ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا پڑتا جس سے ہر حال میں اسلام اور مسلمانوں کا تحفظ مدنظر رہتا۔ دوسری طرف سے لوگ کیونکہ مقام امامت کو اچھی طرح نہیں پہچانتے اور جاہلانہ افکار کی پیروی کرتے ہوئے غور کیے بغیر، ایسے نظریات پھیلانے لگ جاتے جس سے کچھ ایسا ظاہر ہونے لگتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے منصوب اور مقرر کردہ امام کے لئے مقام عصمت کے معتقد نہیں ہیں، یعنی معرفت امام کے بارے میں ان کی معلومات کم، عقائد کمزور اور عقلی اصول اور انسانی اقدار کے مطابق سیاست سے بالکل ناآگاہ ہیں۔ انہیں کمزوریوں کی بنیاد پر بعض لوگ اس شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کیوں کی، جبکہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے قیام اور جنگ کی؟!
یہ سوچ لوگوں کے ذہن سے بالکل مٹ جانی چاہیے کہ امام حسن (علیہ السلام) صلح کرنے کی وجہ سے امام حسین (علیہ السلام) سے کم مقام پر فائز ہیں، ایسی سوچ مقام امامت کی معرفت حاصل نہ کرنے پر دلیل ہے، ایسا نظریہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسا شخص عقیدہ امامت میں کمزور ہے اور اسے چاہیے کہ امام کی معرفت اور امام کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مطالعہ کرتا ہوا اپنے عقیدہ کے اصول کو قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کے ارشادات کے مطابق اصلاح کرے۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ امامؑ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کی سوچوں اور خیالوں کے مطابق عمل کرنا، اور نہ ہی امام حسن (علیہ السلام) نے ذمہ داری ادا کرنے میں ذرہ برابر کسی قسم کی کوئی کوتاہی کی ہے بلکہ آپؑ اپنے قیام کو دوسرے میدان میں لے گئے جہاں قیام کرنا بھرپور فائدوں کا حامل تھا اور اہداف کی تکمیل کا باعث بنا، جب دین کے دشمنوں کی حقیقت لوگوں کے لئے واضح ہوجائے اور مخلص اور سراپا تسلیم اصحاب، زبان سے وعدے دینے والے لوگوں سے الگ ہوجائیں تب جنگ کرنا اللہ کے دین کو بچانے کا باعث بن سکتا ہے، پھر چاہے قیام کرنے والے امام کو شہید ہی کیوں نہ ہونا پڑے، لیکن ایسی شہادت جس سے دین کو عزت اور سربلندی ملے، جو ہر انسان کو باعزت زندگی گزارنے اور سربلند رہنے کا طریقہ سکھا دے اور اپنی موت کے ساتھ رہتی دنیا کے وجود میں روح حیات پھونک دے۔ بنابریں اگر امام حسن (علیہ السلام) شہید نہ کیے جاتے اور امام حسین (علیہ السلام) کے زمانہ تک زندہ رہتے تو آپؑ ہی یزید کے خلاف قیام کرتے اور اسی دلیل کا دوسرا رخ یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے امام حسن (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد معاویہ کے دور میں قیام نہیں کیا، کیونکہ معاویہ کی شیطانی سیاست نے اسلامی سماج میں ایسی کیفیت پیدا کردی تھی کہ اگر حسنینؑ شریفین اس کے خلاف قیام کرتے تو لوگ ساتھ نہ دیتے، جیسا کہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) کا لوگوں نے ساتھ نہ دیا بلکہ اس سے بڑھ کر لوگوں نے تو امام حسین (علیہ السلام) کا بھی واقعہ کربلا میں ساتھ نہیں دیا، سوائے چند قلیل افراد کے، مگر یہی قلیل افراد اتنے مخلص افراد تھے جن کی مثال امام حسن (علیہ السلام) کے زمانے میں نہیں ملتی، اور دوسری طرف سے یزید کی اسلام کے عین مخالف بدکاریاں لوگوں کے لئے بالکل واضح ہوچکی تھیں جن کا ارتکاب معاویہ ظاہر میں نہیں کیا کرتا تھا اگرچہ بدکاریاں کرنے میں یزید کا استاد خود معاویہ ہی تھا، لیکن ظاہر کا خیال رکھنے کی وجہ سے ہی وہ عوامفریبی میں کامیاب ہوا، لہذا اگر معاویہ کے دور میں امام حسنؑ یا امام حسینؑ قیام کرتے تو دشمن پر فتح حاصل نہ ہوتی، بلکہ اسلام کو نابود کرنے پر دشمن مزید کامیاب ہوجاتا۔ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ چاہے امام حسن (علیہ السلام) کی صلح اور چاہے امام حسین (علیہ السلام) کا قیام، یہ دونوں صلح و قیام دشمن سے مقابلہ ہے، مگر مقابلہ کرنے کے طریقوں میں فرق ہے۔ نیز کیا تاریخ نے اپنے صفحات پر اس چاند کے ٹکڑے نوجوان کا چہرہ دیکھا نہیں یعنی حضرت قاسم ابن الحسن (علیہما السلام) جو کربلا میں حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے نمائندہ تھے جنہوں نے شہادت کو شہد سے زیادہ میٹھا کہہ کر، جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون سے دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں عظیم کردار ادا کیا۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگرچہ امام حسن (علیہ السلام) خود میدان کربلا میں نہیں آسکے مگر آپؑ نے اپنی جگہ پر اپنا نمائندہ بھیج کر دشمن سے جنگ کی۔
نتیجہ: تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضرت امام حسن (علیہ السلام) نے صلح کی نہیں بلکہ صلح کو آپؑ پر مسلط کیا گیا، آپؑ نے معاویہ جیسے باغی گروہ کے مقابلہ میں پہلے قیام کیا اور اس سے مقابلہ کے لئے اپنی افواج کو “مسکن” علاقہ کی طرف روانہ فرمایا، لیکن مختلف طرح کی رکاوٹوں کی وجہ سے آپؑ جنگ نہ کرپائے اور ایسی تدبیر سوچی جس نے دو نوک والی تلوار کی طرح معاویہ کی شیطانی پالیسیوں کو برباد کردیا، یہاں تک کہ امامؑ کی تدبیر کے سامنے معاویہ کے لئے صرف دو راستہ رہ گیا: یا صلح کے معاہدہ پر عمل کرتا تو اس صورت میں امام حسن (علیہ السلام) اپنے مقصد تک پہنچ جاتے، یعنی کتاب و سنت کے مطابق اسلامی احکام پر عمل کرنا، شیعوں کے خون کا تحفظ اور شام کے غاصب بادشاہ سے خلافت کو واپس لے لینا، یا وہ معاہدہ پر عمل نہ کرتا، جیسا کہ اس نے یہی راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے چہرہ سے دھوکہ بازیوں اور عوام فریبیوں کا نقاب ہٹ گیا، لوگوں کے لئے اس کا ظالمانہ اور غاصبانہ ضمیر منظرعام پر آنے لگا اور بنی امیہ کے خلاف قیام کرنے کا راستہ فراہم ہوتا گیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ۶۱ ہجری کا زمانہ آگیا جب بنی امیہ کے ظلم و ستم اور ان کی ذلت و رسوائی مکمل طور پر لوگوں کے لئے واضح ہوگئی اور بربریت کی بنیادوں کو گرانے کے لئے حضرت امام حسن (علیہ السلام) کی تدبیر نے میدان کربلا میں ثمر دیدیا کہ اس تدبیر کے دوسرے رکن حضرت سیدالشہدا امام حسین (علیہ السلام) نے اپنا اور اپنے عزیزوں اور اصحاب کی شہادت سے شرک و کفر کی کھوکھلی بنیادوں کو گرا دیا اور نواسہ رسولؐ کے خون کی سرخی اسلام کے ارکان میں ایسے مل گئی کہ آج تک جہاں پر بھی مومنین کے بدن میں حیات ہے، اس حیات کی روح، سیدالشہداؑ کے خون سے سانس لے رہی ہے اور یہ سلسلہ ہرگز نہیں رک پائے گا، کیونکہ سیدالمرسلین کا فرمان ہے کہ “إنَّ لِقَتلِ الحُسَينِ حَرارَةً في قُلوبِ المُؤمِنينَ لاتَبرُدُ أبَدا “[1]، “یقیناً حسینؑ کی شہادت کے لئے مؤمنین کے دلوں میں ایسی گرمی ہے جو ہرگز ٹھنڈی نہیں ہوگی”۔
نتیجہ: حضرت امام حسن اور امام حسین (علیہماالسلام) نے ایک ہی منصوبہ کو منزل تکمیل تک پہنچایا۔ ہر ایک امامؑ نے اس کے مختلف حصوں کو اپنے ذمہ لیا، امام حسنؑ نے صلح کرکے دین کو محفوظ رکھا اور امام حسینؑ نے امام حسنؑ کے محفوظ کردہ دین کی دوسرے مرحلہ میں حفاظت کو جاری رکھا، بنابریں اگر امام حسنؑ صلح کو قبول نہ کرتے اور صلح کی تدابیر کو نہ اپناتے تو امام حسینؑ کے قیام عاشورا کا صفحہ دہر پر کوئی نام و نشان نہ ہوتا، دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر امام حسنؑ زندہ رہتے تو قیام عاشورا میں دونوں بھائی میدان کربلا میں یزیدی فوج سے جنگ کرتے جیسا کہ اگر معاویہ کے زمانے میں رکاوٹیں پیش نہ آتیں اور صلح قبول نہ کرنا پڑتی تو امام حسنؑ اور امام حسینؑ دونوں امام، معاویہ سے جنگ کرتے جیسے جنگ صفین میں دونوں بھائیوں نے معاویہ سے جنگ کی، لہذا عاشورا پہلے حسنی ہے پھر حسینی، یعنی عاشورا کی بنیاد رکھنے والے حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) ہیں جس کو حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے جامہ عمل پہنا کر اسلام اور انسانیت کو اپنے خون سے زندہ کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مستدرك الوسائل : ج 10 ، ص 318۔

تبصرے
Loading...