اللہ کے وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے غریبوں کی مدد

خلاصہ: ان معاشی نازک حالات میں جب غریب لوگ مدد کے حقدار ہیں تو ہر آدمی کو چاہیے کہ اپنی گنجائش کے مطابق امداد کرے۔

اللہ کے وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے غریبوں کی مدد

غریب اور ضرورتمند لوگوں کو مدد کرنے سے جو چیز آدمی کو روکتی ہے وہ  اس کی اپنی غلط فہمی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ غریبوں پر خرچ کرنے سے اس کا مال ختم ہوجائے گا تو کل وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرے گا! جب وہ اللہ تعالیٰ کے خزانے کو دیکھے تو ایسی سوچ اسے نہیں آئے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے لامحدود ہیں جو ہرگز ختم ہونے والے نہیں ہیں اور وہ جسے جتنا عطا کرنا چاہے، عطا کرتا ہے۔
کنجوس اور بخیل ہونے کی جس آدمی میں صفت پائی جاتی ہو وہ دوسروں پر خرچ کرنے سے ڈرتا ہے، جبکہ اپنے اوپر اور اپنے گھرانے پر خرچ کرتے ہوئے اور اپنی خواہشات کے مطابق طرح طرح کی فضول خرچی کرتے ہوئے مال کے ختم ہونے سے نہیں ڈرتا، لیکن جب اس سے غریبوں کی مدد کے لئے کہا جائے تو فوراً اپنے غریب ہوجانے کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہے۔ یہ اپنی غربت کی اسے سوچ کیسے آجاتی ہے؟
سورہ بقرہ کی آیت ۲۶۸ میں ارشاد الٰہی ہے: الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ”، “شیطان تمہیں مفلسی اور تنگدستی سے ڈراتا ہے۔ اور بے حیائی و غلط کاری کا تم کو حکم (ترغیب) دیتا ہے۔ اور اللہ تم سے اپنی بخشش اور اپنے فضل و کرم کا وعدہ کرتا ہے۔ خدا بڑی وسعت والا اور بڑا جاننے والا ہے”۔
لہذا انسان، اللہ کی بخشش اور فضل و کرم کے وعدے پر یقین کرتے ہوئے شیطان کے جھوٹے وعدہ کو ٹھکرا دے اور غریب لوگوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔

* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...