اللہ کے مہینہ ماہ رمضان نے لوگوں کی طرف رخ کیا ہے – خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ خطبہ شعبانیہ کو شیخ صدوقؒ نے کتاب عیون اخبار الرضا (علیہ السلام) اور امالی میں نقل کیا ہے۔ علامہ مجلسیؒ نے بحارالانوار میں اور شیخ حر عاملیؒ نے وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ پہلا مضمون ہے۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ “إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلى الله عليه وآله) خَطَبَنَا ذَاتَ یوْمٍ“، “بے شک رسول اللہ (صلّى الله عليه وآله) نے ایک دن ہمارے لیے خطبہ ارشاد فرمایا: أَیهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیکمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَکةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ، “اے لوگو! یقیناً اللہ کے مہینہ نے تمہاری طرف رُخ کیا ہے برکت اور رحمت اور مغفرت کے ساتھ”۔

تشریح:
اقبال اور رُخ کرنے کے معنی
“إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیکمْ”، ” یقیناً (اللہ کے مہینہ نے) تمہاری طرف رُخ کیا ہے “۔ شیخ بہائی کے کہنے کے مطابق، اللہ کے مہینہ کے رخ کرنے سے مراد، یا عقلی مجاز ہے جو نسبت میں مجاز ہے مناسبت اور تعلق کے ساتھ، بایں معنی کہ ہم کسی فعل کو کسی ایسی چیز سے نسبت دیں جو حقیقت میں اس کی فاعل نہیں ہے، لہذا اس فقرہ میں رُخ کرنے کو ماہ رمضان سے نسبت دی ہے جبکہ ماہ رمضان درحقیقت فاعل نہیں ہے، بلکہ مجازاً ہے کیونکہ اس کا فاعل سے تعلق اور ربط ہے۔
یا یہ ہے کہ اقبال اور رُخ کرنے کی ماہ رمضان سے اِسناد حقیقی ہے، لیکن اقبال جو مسند ہے، اس کے معنی میں مجازاً تصرف کیا جائے اور مجاز لفظی لحاظ سے ہےاور کہا جائے کہ اقبال رُخ کرنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ مجازاً قرب اور نزدیکی کے معنی میں ہے۔ یا رمضان جو مسندالیہ ہے اس میں تصرف کیا جائے اور اسے مجازاً اس کے معنی میں لیا جائے جو ہمارے سامنے آرہا ہے (اور اسے تشبیہ اور استعارہ بالکنایہ کہا جاتا ہے)۔[1]

اللہ کا مہینہ ہونے کی مختلف وجوہات
۱۔ ماہ رمضان، اللہ کی رحمت اور کرم کی شمولیت کی وجہ سے دوسرے مہینوں پر خاص فضیلت کا حامل ہے۔
۲۔ “رمضان” اللہ کے ناموں میں سے ہے، لہذا جب کہا جاتا ہے: “ماہ رمضان” تو گویا اس کا مطلب ہے: اللہ کا مہینہ۔
۳۔ اس مبارک مہینہ میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد الہی ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ[2]، “ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں راہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں “۔
۴۔ سب مہینے اور سب اوقات اللہ کی مخلوق ہیں، مگر ماہ رمضان کی اللہ سے نسبت دینے سے اس مہینہ کی عظمت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ سب جگہیں اللہ کی مخلوق ہیں، لیکن خانہ کعبہ کو خاص فضیلت کی وجہ سے بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ نیز ارشاد پروردگار ہے:وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ[3]، “اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو وصیت کی (حکم دیا) کہ تم دونوں میرے (اس) گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں کے لئے پاک و صاف رکھو”۔[4]
۵۔ ماہ رمضان میں شب قدر پائی جاتی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ سورہ قدر میں خداوند متعال نے فرمایا ہے: لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ[5]، “شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے”۔
۶۔ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ماہ رمضان کی دعائے وداع میں ماہ رمضان کو اللہ کا مہینہ کہہ رہے ہیں اور اس کی صفات بیان فرما رہے ہیں، آپؑ فرماتے ہیں: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا شَهْرَ اللَّهِ الْأَكْبَرَ وَ يَا عِيدَ أَوْلِيَائِهِ الْأَعْظَمَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَكْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ وَ يَا خَيْرَ شَهْرٍ فِي الْأَيَّامِ وَ السَّاعَات[6]، ” تجھ پر سلام اے اللہ کے سب سے بڑے مہینے اور اے اللہ کے دوستوں کی سب سے بڑی عید۔ تجھ پر سلام اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے”۔

برکت:
برکت یعنی اللہ کی طرف سے ایک چیز میں خیر کا قرار پانا۔[7] برکتیں، دائمی نعمتیں اور ثابت خیر ہوتیں ہیں۔[8] آیہ کریمہ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ[9]، “اور اگر ان بستیوں کے باشندے ایمان لاتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے” کو آسمان کی برکتوں کو بارش کے بڑھنے میں اور زمین کی برکتوں کو درختوں اور پھلوں کی کثرت میں تفسیر کیا گیا ہے۔[10] اللہ تعالی نے اپنے کلام قرآن کریم کے لئے مبارک کی صفت استعمال کی ہے، کیونکہ اس کی خیر اور فائدہ ثابت اور دائمی ہے۔[11] یا اس لیے کہ اس میں سابقہ آسمانی کتب کی بہ نسبت بہت سارے اضافہ مطالب پائے جاتے ہیں۔[12]

رحمت:
رحمت، اللہ تعالی کی صفات میں سے ہے جو غضب کے مقابل ہے۔ رحمت انسان میں نرم دل ہونے کے معنی میں ہے اور اللہ تعالی کے بارے میں رحمت کا مطلب رزق دینا، احسان اور بخشش کرنے وغیرہ کا ہے۔ شیعہ متکلمین کی نظر میں، رحمت الہی یہ ہے کہ خیر، ضرورتمندوں کو پہنچائی جائے۔ اللہ کی رحمت میں تمامیت، عمومیت اور کمال کی صفات پائی جاتی ہیں۔ تمامیت یعنی اللہ، سب ضرورتمندوں سے ضرورت اور ناتوانی کو ہٹانا چاہتا ہے۔عمومیت یعنی اللہ کی رحمت اچھے اور برے، مومن اور کافر لوگوں کو شامل ہوتی ہے، کمال یعنی اللہ نیک اور مہربان لوگوں کی طرح مہربانی کرنے اور نیکی کرنے سے تکلیف میں نہیں پڑتا۔[13] اللہ تعالی کی رحمت دو طرح کی ہے: رحمت عام جس سے متعلق صفت رحمن ہے جو مومن و کافر کو شامل ہے، اور رحمت خاص جس سے متعلق صفت رحیم ہے جو صرف مومنین کو شامل ہے۔ حقیقی رحمت، اللہ کی رحمت ہے اور جو ماں باپ اپنی اولاد سے یا لوگ اپنے دوستوں سے محبت کرتے ہیں، یہ سب رحمتِ پروردگار کی ہی جھلک ہے۔[14]

مغفرت:
مغفرت، لفظ “غفر” سے ماخوذ ہے اور لغوی لحاظ سے اس چیز کا پہننا ہے جو انسان کو برائی سے محفوظ کرتی ہے اور قرآنی اصطلاح میں بایں معنی ہے کہ اللہ تعالی نادم و پشیمان بندوں کے گناہوں اور عیبوں کو چھپاتا ہے اور ان کو عذاب اور سزا سے محفوظ کرلیتا ہے اور گناہ کے اثر کو مٹا دیتا ہے۔[15] “غفار” اور “غفور” غفر اور غفران کے مادہ سے صیغہ مبالغہ ہے جو بندوں کی خطاؤں اور گناہوں سے بہت اور مسلسل چشم پوشی کے معنی میں ہے۔[16] نیز ارشاد الہی ہے: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ[17]، “آپ (ص) کہہ دیجئے! کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (گناہ پر گناہ کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا بخشنے والا (اور) بڑا رحم کرنے والا ہے”۔[18]

نتیجہ: ماہ رمضان ایسا باعظمت مہینہ ہے جسے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اللہ کا مہینہ کہا ہے اور اس نے لوگوں کی طرف رُخ کیا ہے برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔ لہذا ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مہینہ اللہ کا ہے اور اس مہینہ نے ہماری طرف رُخ کیا ہےتو اس میں پائی جانے والی برکت، رحمت اور مغفرت سے ہم بھرپور طور پر فیضیاب ہوتے رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] اربعین، شیخ بهائی، ص 171۔
[2] سورہ بقرہ، آیت 185۔
[3] سورہ بقرہ، آیت 125.
[4] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
[5] سورہ قدر، آیت 3۔
[6] صحیفہ سجادیہ، 45 ویں دعا۔
[7] لسان العرب، ج‌10، ص 395۔
[8] التبیان، شیخ طوسی، ج5، ص498۔
[9] سورہ اعراف، آیت 196۔
[10] التبیان، شیخ طوسی، ج4، ص774۔
[11] مجمع البیان، شیخ طبرسی، ج7، ص81۔
[12] مجمع البحرین، طریحی، ب ر ک کے ذیل میں۔
[13] ماخوذ از: علم الیقین، فیض کاشانی، ص159۔
[14] پیام قرآن، مکارم شیرازی، ج4، ص357۔
[15] مفردات، راغب، ص609۔
[16] لسان العرب، ج5، ص25۔
[17] سورہ زمر، آیت53۔
[18] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔

تبصرے
Loading...