اللہ کا علم انسان کی مختلف حالتوں پرمحیط ۔ مناجات شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس مناجات کے سلسلہ میں آٹھواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ سیدالمسلمین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں اپنے حاضر ہونے کی کیفیت بیان کرتے ہیں اور پھر عرض کرتے ہیں: وَ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَ تَخْبُرُ حَاجَتِی وَ تَعْرِفُ ضَمِیرِی وَ لایخْفَی عَلَیك أَمْرُ مُنْقَلَبِی وَ مَثْوَای وَ مَا أُرِیدُ أَنْ أُبْدِئَ بِهِ مِنْ مَنْطِقِی وَ أَتَفَوَّهَ بِهِ مِنْ طَلِبَتِی وَ أَرْجُوهُ لِعَاقِبَتِی“، “اور جو میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور تو میری حاجت سے باخبر ہے اور تو میرے ضمیر کو جانتا ہے اور (آخرت کی طرف) میری بازگشت اور میرا ٹھکانہ کا امر تجھ پر مخفی نہیں ہے اور میں جو اپنی بات ظاہر کرنا چاہتا ہوں اور اپنی حاجت زبان پر لانا چاہتا ہوں اور جس چیز کی اپنے انجام کے لئے امید رکھتا ہوں، تجھ پر مخفی نہیں”۔

تشریح
الفاظ کی تشریح:
ضمیر:
اندر، باطن، مخفی، نیت۔ طریحی کا کہنا ہے کہ وأضْمَرتُ في نفسي شيئاً، یعنی میں نے نیت کی اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنی نیت میں کوئی چیز رکھے، اس کے بغیر کہ اسے زبان پر جاری کرے۔[1]
مُنقَلَبِي: بازگشت اور پلٹنے کی جگہ۔ جیسے فرعون کے جادوگروں نے حضرت موسی (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھنے کے بعد فرعون سے مخالفت کی، جن کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے: قَالُوا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ[2]، “انہوں نے کہا (ہمیں کیا پروا ہے) ہم لوگ بہرحال اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں”۔
مَثوايَ: ثواء سے ہے، ثواء یعنی اقامت اور رہائش، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کریم میں ارشاد الہی ہورہا ہے: وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ[3]، “اور نہ ہی آپ مدین والوں میں مقیم تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے لیکن ہم (آپ کو) رسول بنا کر بھیجنے والے تھے (اس لئے ان کے حالات سے آپ کو آگاہ کیا)”۔ اور مثوی یعنی اقامتگاہ اور رہائشگاہ جیسے ارشاد پروردگار ہے: وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ[4]، “اللہ تمہاری گردش (چلنے پھرنے) کی جگہ کو اور تمہارے ٹھکانے کو جانتا ہے”۔
أُبْدِئَ: ظاہر کروں، واضح کروں۔ منطق: کلام، بات۔ أَتَفَوَّهَ: منہ سے بیان کروں، زبان پر لاوں۔ فاہ، فوہ: منہ۔

مناجات کی تشریح
اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے انسان کو دو چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے: ایک طرف سے اپنے ضعف اور نقص کا، دوسری طرف سے اللہ تعالی کی صفات کا۔ سابقہ فقروں میں انسان کا ضعف اور نقص مدنظر تھا اور اِن فقروں اور آنے والے فقروں میں پروردگار کی صفات زیربحث ہیں۔ پیش نظر فقروں میں اللہ تبارک و تعالی کی جو پہلی صفت بیان ہوئی ہے، اللہ کا انسان کے بارے میں وسیع اور ہمہ گیر علم ہے، کیونکہ جو انسان کو جانتا نہ ہو، اس کی حالت سے آگاہ نہ ہو اور اس کے دھوکہ کھانے کا بھی خطرہ ہو تو انسان اس کی پناہ نہیں لے سکتا اور اس کے ساتھ مناجات اور رازونیاز نہیں کرسکتا۔ ان فقروں میں اللہ کا علم چند عبارتوں کے ساتھ بیان ہوا ہے:
۱۔ “وَ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی: جو شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے وجود کے تمام پہلووں سے مطلع ہے تو وہ شخص جیسے دوسرے لوگوں کے سامنے دکھاوا اور اظہار کرتا ہے اس طرح اللہ کے سامنے اظہار اور دکھاوا نہیں کرسکتا ، بلکہ اسے صداقت اور سچائی کے ساتھ اس اللہ کے سامنے جو اس کے وجود کے تمام اسرار سے مطلع ہے حاضر ہونا پڑے گا اور کوئی بات اس سے نہیں چھپا سکتا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا۔
حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے اس جملہ جیسا جملہ حضرت عیسی (علیہ السلام) کا بھی ہے جو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کریں گے، جہاں قرآن کریم نے سور ہ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے: تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ[5]، “تو وہ سب کچھ جانتا ہے جو میرے دل میں ہے مگر میں تیرے اسرارِ نہانی کو نہیں جانتا۔ بلاشبہ تو غیب کی تمام باتوں کا بڑا جاننے والا ہے”۔
۲۔ وَ تَخْبُرُ حَاجَتِی: “تو میری حاجت سے باخبر ہے”۔ بعض اوقات انسان اپنی ضروریات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور صرف جو کچھ حیوانی فطرت جیسے بھوک، پیاس، سردی، گرمی اور شہوت وغیرہ کے دباؤ سے سمجھ سکتا ہے کہ کھانا، پانی، گرم کرنے والی اور ٹھنڈی کرنے والی چیزیں، بیوی اور گھربار کی اسے ضرورت ہے، لیکن ہزاروں دیگر ضروریات ہیں جن سے انسان بے خبر ہے اور اسے ان کی ضرورت آہستہ آہستہ محسوس ہوتی ہے۔ نیز کبھی انسان حیران رہ جاتا ہے اور اپنی مصلحت کو نہیں سمجھ پاتا، لیکن اللہ تعالی اس کی سعادت اور خوش بختی سے بخوبی باخبر ہے۔بعض اوقات انسان کسی چیز کو پسند کرتا ہے، لیکن وہ چیز اس کے لئے مفید نہیں ہے اور کبھی کسی چیز سے دوری اختیار کرتا ہے، لیکن اس کی خیر و مصلحت اسی میں پائی جاتی ہے۔ خداوند متعال نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے: وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ، “۔اور یہ ممکن ہے کہ جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس چیز کو تم پسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے بری ہو (اچھی نہ ہو) اصل بات یہ ہے کہ اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے”۔[6]
۳۔ وَ تَعْرِفُ ضَمِیرِی: “تو میرے ضمیر کو جانتا ہے”۔ انسان کے باطن اور دل میں کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن سے خود انسان آگاہ نہیں ہوتا، لیکن اللہ، اس کے ضمیر کی خواہشات کو بھی خوب جانتا ہے۔[7]، اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ[8]، “وہ آنکھوں کی مجرمانہ جنبش کو جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جن کو سینے چھپاتے ہیں”۔ اور نیز سورہ لقمان میں ارشاد الہی ہے: إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[9]، “بے شک اللہ سینوں کے اندر کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے”۔
۴۔ وَ لایخْفَی عَلَیك أَمْرُ مُنْقَلَبِی وَ مَثْوَای: “(آخرت کی طرف) میری بازگشت اور میرا ٹھکانہ کا امر تجھ پر مخفی نہیں ہے”۔ اللہ تعالی صرف موجود چیزوں سے آگاہ نہیں، بلکہ انسان کے آئندہ اور انسان کی حالت کی تبدیلیوں سے بھی آگاہ ہے اور اس بات کو بھی جانتا ہے کہ انسان کا اختتام کہاں پر ہونا ہے، کیونکہ انسان کے حالات بدلتے رہتے ہیں، لیکن کسی دن آخری نقطہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ انسان ہے جو زمان و مکان میں پابند ہے، اللہ تعالی کے لئے کوئی زمان و مکان کا تصور نہیں ہے، وہ ان دونوں سے بلندوبرتر اور ان کا خالق ہے، لہذا وہ ماضی، حال اور آئندہ کو بخوبی جانتا ہے۔
۵۔ وَ مَا أُرِیدُ أَنْ أُبْدِئَ بِهِ مِنْ مَنْطِقِی وَ أَتَفَوَّهَ بِهِ مِنْ طَلِبَتِی وَ أَرْجُوهُ لِعَاقِبَتِی: “اور میں جو اپنی بات ظاہر کرنا چاہتا ہوں اور اپنی حاجت زبان پر لانا چاہتا ہوں اور جس چیز کی اپنے انجام کے لئے امید رکھتا ہوں، تجھ پر مخفی نہیں”۔ لہذا انسان جو کچھ سوچ سمجھ کر زبان پر لانا چاہے اور جس کی امید رکھتا ہو اور جو کچھ اس کے دل میں چھپا ہوا ہے جسے خود بھی نہیں جانتا، ان سب کو اللہ تعالی بخوبی جانتا ہے۔ سورہ ملک میں خداوند متعال نے فرمایا: وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ . أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [10]، ” اور تم اپنی بات آہستہ کرو یا بلند آواز سے کرو وہ (خدا) تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ کیا جس نے پیدا کیا ہے وہ نہیں جانتا حالانکہ وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے”۔
نتیجہ: اللہ تعالی کے علم کے لئے کوئی قید و شرط نہیں پائی جاتی، وہ ہر چیز سے باخبر ہے، چاہے انسان کے لئے ظاہر ہو یا مخفی ہو، چاہے ماضی اور حال میں ہو یا چاہے مستقبل میں ہو، چاہے دل میں امید یا زبان پر آنے والی بات ہو یا دل کی گہرائیوں اور نفس و ضمیر میں پائی جانے والی حاجتیں اور ضروریات ہوں کہ جن سے خود انسان بھی بے خبر ہو۔ جب انسان اس بات پر ایمان و عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ اس کے دل کی گہرائیوں سے مطلع ہے تو لوگوں کے سامنے ریاکاری، جھوٹ، غیبت، الزام اور دھوکہ وغیرہ نہیں کرے گا، کیونکہ اس کا عقیدہ یہ ہے وہ جسے اظہار کرے یا چھپائے، اللہ تو جانتا ہے، لہذا وہ ایسے کاموں سے نفرت کے ساتھ دوری اختیار کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مجمع البحرین، ج3، ص375۔
[2] سورہ اعراف، آیت 125۔
[3] سورہ قصص، آیت 45۔
[4] سورہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آیت 19۔
[5] سورہ مائدہ، آیت 116۔
[6] ترجمہ مولانا محسن نجفی صاحب۔
[7] ماخوذ از: شکوه نجوا، آیت اللہ مصباح یزدی، ج1، ص35۔
[8] سورہ غافر، آیت 19۔
[9] سورہ لقمان، آیت 23۔
[10] سورہ ملک، آیات 13، 14۔

تبصرے
Loading...