اسیر کربلا

خلاصہ: امام سجاد (علیہ السلام) کو قیدی بنا کر شھر بشھر پھرایا گیا اور وہ بھی اکیلے نہیں بلکہ ساتھ پھوپھیاں، بہنیں بھی تھی۔

اسیر کربلا

     امام سجاد(علیہ السلام) واقعۂ کربلا میں شدید مریض تھے جب کوئی نہ بچا، نہ بابا، نہ چچا، نہ بھائی، نہ اصحاب، سید سجاد (علیہ السلام) اکیلے رہ گئے، دشمن آتے تھے اور جب آپ کو اس شدید مرض میں دیکھتے تھے تو  ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ یہ تو اس بیماری ہی میں مرجائے گا، اسے مارنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بیماری اتنی شدید تھی کہ اتنی طاقت نہیں تھی کہ خود سے اٹھ سکیں یا کروٹ بدلیں اور یہی وجہ ہے کہ دشمن کی فوج دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ [1]
جب نواسہ رسول حضرت امام حسین (علیہ السلام) کو  اور ان کے بھائی، بھتیجے، بیٹوں اور اصحاب کو ظالمانہ طریقہ سے شھید کردیا گیا تب بھی دشمن اپنے مظالم سے باز نہیں آئے، پہلے تو لاشوں کو پامال کیا اور پھر یہ حکم دیا کہ خیموں کو آگ لگا دو اور ان کی چادروں کو لوٹ لو، یہ وہ مرحلہ تھا کہ جو خاندان عترت کی پلی بیبیوں کے لیے بہت سخت تھا، ابھی حجاب کی خاطر رو رہی تھیں کہ خیموں کو آگ لگا دی گئی اور شھزادی زینب (سلام اللہ علیھا )، امام سجاد (علیہ السلام) کے پاس آتی ہیں کہ بیٹا بتاؤ جل کے مر جائیں یا بن چادر باہر نکل جائیں۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا پھوپھی اماں باہر چلی جائیں، راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی بار بار ان جلتے خیموں کی طرف جاتی تھیں کہ ایک مرتبہ اندر گئی اور جب واپس آئیں تو ایک جوان کو پشت پر اٹھائے آرہی تھیں۔ [2] 
بیماری کی اس شدت میں جیسے ہی گیارہ محرم ہوتی ہے تو اس بیمار کو دشمن کی فوج نے خار دار طوق اور زنجیر اور بیڑیاں پہنا دیں اور اسیر بنا کر کوفہ لے گئے اور یہی وجہ تھی کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنے خطبوں کے ذریعے اہل کوفہ کی ملامت کی۔ [3]
امام سجاد(علیہ السلام) نے کوفیوں کی تو ملامت کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہل شام کو بھی ان کے اس دردناک مظالم میں شرکت کرنے کے لیے ان کی بھی ملامت کی یہاں تک کہ ابن زیاد کے بھرے دربار میں لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو کہ تم نے آل رسول پہ ظلم ڈھائے تو جب حاضرین متاثر ہوئے تو ابن زیاد نے امام سجاد(علیہ السلام) کے قتل کا حکم جاری کر دیا [4]۔ 
لیکن محافظہ امامت حضرت زينب (سلام اللہ علیہا)نے آگے بڑھ کر بیٹے کو بچا لیا اور ابن زیاد سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔
اس کے بعد جب یزیدی لشکر، اہل بیت(علیھم السلام) کو “خارجی اسیروں” کے عنوان سے شام لے گیا تب بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
جب آسیران آل رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو پہلی بار مجلس یزید میں لے جایا گیا تو امام سجاد(علیہ السلام) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امام(علیہ السلام) نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: 
تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ہمیں اس حال میں دیکھیں!؟[5] 
یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔[6]
امام سجاد(علیہ  السلام) واقعۂ کربلا کے بعد تقریباً  34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی کوشش کی۔ 
پانی پیتے وقت بابا کو یاد کرتے تھے، امام حسین (علیہ السلام )کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسو بہاتے تھے۔
 ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ امام سجاد(علیہ السلام)  اپنے والد کے لئے گریہ کرتے اور دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کا خادم کھانا اور پانی لا کر عرض کرتا کہ آئیں اور کھانا کھائیں تو آپ(علیہ السلام) فرماتے: “فرزند رسول اللہ بھوکے مارے گئے! فرزند رسول اللہ پیاسے مارے گئے!”، اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں مل جاتے تھے؛ آپ مسلسل اسی حالت میں تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
حوالے جات
1۔شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 113 و طبرسی، اعلام الوری،ج 1، ص 469.
2۔مازندرانی، ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج 3، ص 261 ؛ طبرسی، الاحتجاج، مشهد، ج 2، ص 305 و شیخ عباس قمی، منتهی الامال،ج 1، ص 733.
3۔سید ابن طاووس، اللہوف ، ص 220-222؛ طبرسی، الاحتجاج ، ج 2، ص 306؛ قمی، منتہی الامال، ج 1، ص 733.
4۔مجلسی، بحار الانوار ، ج 45، ص 117؛ سید ابن طاووس، اللہوف، ص 228.
5۔سید ابن طاووس، اللہوف، ص 248 و ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448 و حلی، مثیر الاحزان، ص 78 و ابومخنف، مقتل الحسین، ص 240.
6۔ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448.
7۔سید ابن طاووس، اللہوف ، ص 290 و مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 149 و شیخ عباس قمی، نفس المہموم ، ج 1، ص 794.

تبصرے
Loading...