اسلامی تہذیب اور تمدن میں مسجد کا کردار

مؤلف: سعید شیری

 

مترجم: غلام مرتضی جعفری

مساجد, دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کے مراکز رہی ہیں، مسجد کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو اسلامی تہذیب اور تمدن کا مرکز کہا جاتا ہے۔ اسلام کے اہم ترین تحریکوں کا آغاز مسجد سے ہی کیا گیا اور جب امام زمانہ (عج) تشریف لائیں گے تو ظہور کا اعلان بھی مسجد سے ہی کریں گے۔

تسنیم نیوز ایجنسی: مسجد اسلام کی سب سے اہم ترین مذہبی اور ثقافتی مراکز میں سے ہے۔ قرآن و عترت نے مسجد کے لئے بے شمار برکتوں کا ذکر کیا ہے۔ مسجد کی تمام برکتیں اور فوائد کو اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہم مختصر طور پر اسلامی تہذیب میں نہایت مؤثر تین پہلوؤں “صدر اسلام، انقلاب اسلامی، اور امام زمانہ(ع) کے ظہورمیں مسجد کا کردار” کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دور حاضر میں مسجد کی عظیم نعمتوں اور برکتوں میں سے ایک اسلامی انقلاب ہے۔

 

مسجد صدر اسلام میں مسلمانوں کی طاقت اور اتحاد کی بنیاد

صدر اسلام سے ہی مسجد اللہ تبارک و تعالی اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی توجہ کا مرکز رہی ہے، مسجد کا مسلمانوں کی کامیابیوں اور اسلام کے پھیلاؤ میں نہایت اہم کردار ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ مسجد پر آئمہ اطہار علیہم السلام کی خاص توجہ تھی انہوں نے مسجد کے ذریعے سے ہی لوگوں کو اسلام ناب محمدی(ص) کی طرف جلب کیا۔ آئمہ اطہار علیہم السلام نے مسجد کو اسلام کے بنیادی اور اہم ترین مراکز کے طور پر مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنے کے لئے اور اسلامی تہذیب اور تمدن کی تشکیل کے لئے نہایت اہم درجہ دیا ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد سب سے پہلا اور اہم ترین کام جو کیا وہ مسجد کی بنیاد تھی۔ ایک ایسی مسجد جو بعد میں مسجد نبوی (ص) کے نام سے مشہور ہوئی، یہ تقدس اور شان و وقار کے اعتبار سے مسجد الحرام کے بعد پہلی مسجد ہے۔

جب مسجد تیارہوئی تو مسلمانوں کو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے لئے ایک معنوی اور روحانی مکان ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے ایک اہم درسگاہ بھی ثابت ہوئی، مسجد نبوی (ص) سے ہی اسلام نے اپنی جڑیں مضبوط کی، اسی مسجد سے ہی کفر و شرک کے خلاف تبلیغ کا آغاز ہوا اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر امت واحدہ کی شکل میں کفر و شرک کے سامنے آنے کی ہمت بخشی۔ مسجد نبوی(ص) وہ مقام ہے جہاں پر عبادت الہٰی کے علاوہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام پاتا تھا۔

البتہ ایک اہم نکتے کا ذکرکرنا ضروری ہے کہ جب نبی کریم (ص) مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے ایک قریبی مقام قبا میں چودہ دن یا اس کے لگ بھگ قیام فرمایا اور اس دوران وہاں مسجد تعمیر فرمائی۔ یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں باقاعدہ طور پر تعمیر کی گئی۔

امام زمان(ع) کے ظہور کے وقت شیعیان حیدر کرار (ع) مساجد میں ہی اجتماع فرمائیں گے

اسلام میں مسجد کو عبادت، تعلیم و تربیت، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے مرکزی مقام حاصل رہا ہے بلکہ مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و منبع ہی مسجد تھی جیسے کہ آئمہ اطہارعلیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اسلامی تحریک اور دین مبین کی تبلیغ کے لئےمساجد کا ہی انتخاب کیا، آئمہ اطہارعلیہم السلام کے دور میں عبادات، طاعات، درس و تدریس، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی مسائل کے حل کےلئے اہم ترین مراکز مساجد ہی تھیں۔ یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام مسجد میں ہی شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ تاریخ نے نقل کیا ہے کہ امام حسین(ع) نے کفر و شرک یعنی یزیدیت کے خلاف قیام کا اعلان بھی مسجد الحرام سے ہی کیا جیسے کہ امام(ع) کے مشہور و معروف جملے تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں۔

امام باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے دور میں اسلام کے پھیلاؤ میں مسجد کا کردار دو بالا ہوگیا کیونکہ امامین ھُمامین علیہما السلام نے مساجد کو ہی درس و تدریس اور مسلمانوں کی علمی، سیاسی، ثقافتی، اصلاحی اور اخلاقی تربیت کا منہج بنایا۔

اسی طرح امام رضا علیہ السلام کے مختلف ادیان اور مذاھب کے خلاف مناظروں کا سلسلہ بھی مساجد میں جاری رہتا تھا اور جب امام زمان علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو پیغمبر اکرم (ص) اور آئمہ ھدی کی پیروی کرتے ہوئے اپنا ظہور کا اعلان مسجد سے ہی فرمائیں گے اور امام زمان علیہ السلام کی حمایت میں منعقد ہونے والے تمام اجتماعات مساجد میں ہی ہوںگے۔

مسجد الحرام اور مسجد کوفہ میں امام زمان علیہ السلام کی حمایت میں بہت بڑے اجتماعات ہونگے۔

لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی تمدن اور تہذیب کی جڑیں مساجد سے ہی مضبوط ہوئیں اور اب بھی دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کے اہم ترین مراکز ہیں۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں مساجد کا کردار

مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و منبع مسجد ہی تھا۔ ہمیشہ سے مساجد ہی دین اسلام کی آبیاری اور تبلیغ و ترویج کے مراکز رہے اور مستقبل میں بھی قیامت تک انشاء اللہ یہی مراکز دین کی آبیاری اور سیرابی کا ذریعہ رہیں گے۔

دور حاضر خاص طور پر انقلاب اسلامی کی کامیابی میں بھی صدر اسلام کی طرح مساجد نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کی تمام انقلابی پارٹیوں کی اجتماعات کی جگہ مساجد ہی تھیں۔ جیسے کہ امام خمینی نے فرمایا: ”مساجد کی وجہ سے ہماری قوم کو فتح اور نصرت نصیب ہوئی” (صحیفه امام، ج‏13،ص15)۔ امام خمینی نے آئمہ اطہارعلیہم السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلابی تحریک کا آغاز مساجد سے ہی کیا۔ محراب و منبر سے ہی طاغوتی طاقتوں کے خلاف تبلیغ کا باقاعدہ آغاز کیا اور اللہ تعالی نے ان کو زبردست کامیابی عنایت فرمائی۔

انقلاب کے دور میں مسجد کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ امام خمینی نے 1978ء میں جب اعلان کیا کہ ساری قوم مساجد میں اجتماعات منعقد کرے تو ملک بھر کی ساری مساجد لوگوں سے بھر گئیں۔

امام خمینی نے فرمایا مساجد کو خالی مت رکھو

امام خمینی کا مساجد کے بارے میں تاکید کرنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی میں مساجد کا کتنا بڑا کردار ہے۔ امام خمینی کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ مساجد کی بحالی کا خیال رکھنا کس قدر اہم ہے۔

امام خمینی کی نظر میں مساجد حق گوئی اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بہترین منہج ہیں۔ امام خمینی نے فرمایا: ”صدر اسلام میں کفار اور مشرکین کے ساتھ تمام جنگوں کی پلاننگ اور نقشہ کشی مساجد میں ہی ہوتی تھی” (صحیفه امام، ج‏8)۔

اسی طرح امام خمینی نے (صحیفه امام، ج‏7) میں فرمایا ہے کہ ”صدر اسلام میں مساجد کو اسلامی تحریکوں کی مرکزیت حاصل رہی ہے”۔ جب ہم ان کی مساجد کے بارے میں بیانات کا مطالہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مساجد ظلم و بربریت اور کفر و شرک کے خلاف آواز بلند کرنےکی بہترین مراکز ہیں۔ امام خمینی نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا: ”مساجد کو خالی مت رکھیں، مساجد کو آباد کرنا شرعی فریضہ ہے”۔

مساجد انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بھی علمائے اسلام کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اسی مقدس مکان سے ہی آج تک اسلامی انقلاب کی جڑوں کی آبیاری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام نے مساجد کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے، جیسے کہ 15اکتوبر 1982ء کو نماز جمعہ کے دوران ”آیت‎الله اشرفی اصفهانی” کو امریکی اشاروں پر شہید کردیا گیا۔ اس حادثے کے ایک سال پہلے ”مسجد ابوذر” تہران میں رہبر معظم انقلاب کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے۔

مساجد خالی نہ رکھیں

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انقلاب کی کامیابی میں مساجد کا نہایت اہم کردار ہے، امام خمینی نے مسلمانوں کو بار بار اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ مساجد کو خالی نہیں رکھنا چاہئے، مساجد خالی کرانا دشمن کی سب سے بڑی آرزو ہے۔

اس سلسلے میں امام نے فرمایا ہے کہ وہ مراکز جو اسلام کی ترویج میں مرکزیت رکھتے ہیں وہ مساجد ہی ہیں، ہمیں مساجد کی اہمیت کو سجمھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ مساجد کو خالی کرائے اور وہاں کوئی نہ جائے۔

مساجد کو خالی کرانے کے لئے دشمن ہر قسم کے حربے استعمال کررہا ہے۔ دشمن کو جب تبلیغات کے ذریعے سے مساجد خالی کرانے میں کامیابی نہ مل سکی تو اب مسلمانوں کو بم دھماکوں کے ذریعے ڈرا دھمکا کرمساجد کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کررہا ہے جیسے کہ حالیہ برسوں میں دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص عراق، پاکستان، افغانستان اور شام میں خود کش بمبار مسجدوں میں جا کر حملے کرواتے ہیں تاکہ کوئی مسجد جانے کی جرأت نہ کر سکے اور جب مسجدیں خالی ہوجائیں تو خود بخود اسلام کمزور ہوگا۔

امام نے فرمایا جو لوگ مسجد میں جاتے ہیں ان کی اچھی تربیت ہونی چاہئے۔

مساجد کی رونقیں ہی کسی قوم کی اسلامی تہذیب کی طرف رجحان رکھنے کی علامت ہیں

ہم آخری زمانے کے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں، ہم مساجد کی تعمیر و ترقی کے جمود والے دور کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔

اس زمانے کے بارے میں آئمہ اطہار علیہم السلام نے مختلف احادیث ارشاد فرمائے ہیں جیسے کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: «مَسَاجِدُهُمْ یَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ، خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى؛ مساجد بنی تو ہونگی لیکن ہدایت سے خالی ہونگی (حکمت369 نهج‎البلاغه)۔

ایک اور روایت میں ارشاد ہے: ہدایت کے بجائے مسجدوں میں لڑائی جھگڑے ہونگے، مسجدیں ان لوگوں سےبھر جائینگی جو خدا سے نہیں ڈرتے ہونگے، مساجد میں لوگ غبیت اور اہل حق کا گوشت کھانے کے لئے جمع ہونگے”۔

اس قسم کی بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں جو مسلمانوں کی دنیا داری کی وجہ سے مساجد خالی ہونے سے متعلق ہیں۔ ان احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے مساجد کی رونقیں ختم ہو جائیں گی۔

امام(ع) کا ظہور مسجد سےہوگا

عنقریب ایک وقت ایسا آئے گا جب مساجد کی کھوئی ہوئیں رونقیں دوبارہ بحال ہوجائیں گی۔

بہت سی آیات اور روایات اس بات کی گواہ ہیں کہ عنقریب مساجد سے اسلامی تہذیب اور تمدن کی تحریک کا دوبارہ آغاز ہوگا اور اسلامی تہذیب کی تحریک کا آغاز ایک بار پھر مسجدالحرام، مسجدالنبی، مسجد کوفه و مسجدالاقصی سے ہی ہوگا۔

مثال کے طور پر آخری زمانے میں مسجد کوفہ کی اہمیت کے بارے میں اصبغ بن نباتہ نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضرت نے مسجد کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے کہا: “اے اہل کوفہ! اللہ تعالی نے تمہیں ایک ایسی چیز سے نوازا ہے جو کسی اور کو نہیں دیا ہے، اللہ تعالی نے تمہیں ایک ایسی مسجد سے نوازا ہے کہ جس میں حضرت آدم،  نوح اور ادریس علیہم السلام کےگھر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور میرے بھائی خضر علیہ السلام اور میرا مصلا ہے۔

امام (ع) نے فرمایا: “مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے جو قیامت کے دن لباس احرام پہناکر ”محرم شخص کی طرح” لائے جائینگے اور یہ مساجد ان تمام لوگوں کی شفاعت کریں گے جنہوں نے ان میں نماز ادا کی ہے۔ عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسی مسجد میں میرا بیٹا مہدی علیہ السلام اپنا مصلا بچھائیں گے اور لوگ ان کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے۔ ”لَیَأْتِیَنَّ عَلَیْهِ زَمَانٌ یَکُونُ مُصَلَّى الْمَهْدِیِّ مِنْ وُلْدِی وَ مُصَلَّى کُلِّ مُؤْمِنٍ” کوئی بھی مؤمن ایسا نہیں ہوگا جس نے اس مسجد میں نماز نہ پڑھی ہو۔ اللہ تعالی تمام مؤمنین کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اگر لوگوں کو اس مسجد کی برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ دنیا کے چاروں طرف سے حتی برفیلے اور سرد جگہوں سے خود کو گھسیٹتے ہوئے کوفہ پہنچاتے اور یہاں نماز پڑھتے۔ (من لا یحضره الفقیه، 4جلد، ص232)

مذکورہ روایت اچھی طرح سے امام زمان علیہ السلام کے دور میں مسجد کی اہمیت کو بیان کررہی ہے۔

آیات اور روایات کے رو سے ظلم و بربریت اور کفر و شرک کا خاتمہ اور امام زمان علیہ السلام کا ظہور مسجد سے ہی ہوگا۔ مسجد اقصیٰ میں موجود ”قبہ الصرخہ” سے ابلیس کی زندگی کا ختمہ اور بیت الحرام خانہ کعبہ سے امام(ع) کا ظہور ہوگا۔

کتاب کمال‎الدین و اتمام‎النعة شیخ صدوق ص 331 میں شیخ صدوق نے امام باقر علیہ السلام  سے نقل کیا ہے کہ «فَإِذَا خَرَجَ أَسْنَدَ ظَهْرَهُ إِلَى الْکَعْبَةِ وَ اجْتَمَعَ إِلَیْهِ ثَلَاثُمِائَةٍ وَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا وَ أَوَّلُ مَا یَنْطِقُ بِهِ هَذِهِ الْآیَةُ بَقِیَّتُ اللَّهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ‏( هود: 88) ثُمَّ یَقُولُ أَنَا بَقِیَّةُ اللَّهِ فِی أَرْضِهِ وَ خَلِیفَتُهُ وَ حُجَّتُهُ عَلَیْکُم؛

ترجمہ: “جب(قائم آل محمد) خروج کریں گے تو دیوار کعبہ پر ٹیک لگائے ہونگے ان کے ارد گرد 313 مردوں کا حلقہ ہوگا اس وقت امام زمان علیہ السلام اس آیت شریفہ کی تلاوت فرمائیں گے: بَقِیَّتُ اللَّهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ. اس کے بعد فرمائیگے میں ہی ”بقیت اللہ” اور اللہ کی طرف سے تم پر حجت ہوں”۔

لہٰذا جیسے کہ عرض کیا گیا کہ امام (ع) کا ظہور خانہ کعبہ سے ہوگا کیونکہ یہ کائنات کی افضل ترین مساجد ہے۔

مذکورہ مطالب سے واضح ہوگیا کہ مسجد مسلمانوں کی تربیت  اور اسلامی تہذیب و تمدن کے ترقی میں اہم مرکزیت رکھتی ہے۔

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے محلے اور گاؤں کی مساجد کو آباد کرنے کی کوشش کرے تاکہ امام زمان کے ظہور کی راہ ہموار ہو سکے۔

بشکریہ : تسنیم نیوز

تبصرے
Loading...